0
Thursday 9 Dec 2021 11:19

سیالکوٹ میں انسانیت کا زوال کے عنوان سے سیمینار

سیالکوٹ میں انسانیت کا زوال کے عنوان سے سیمینار
رپورٹ: ابو فجر لاہوری

تحریک بیداری اُمت مصطفیٰ اور جامعہ عروۃ الوثقیٰ کے زیراہتمام ’’سیالکوٹ میں انسانیت کا زوال‘‘ کے عنوان سے تجزیاتی مذاکرے کا اہتمام کیا گیا، جس میں مختلف مکاتب فکر، مذاہب اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے سیالکوٹ میں انسانیت سوز واقعہ کے عوامل اور نتائج پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس لرزہ خیز واقعہ کی بھرپور مذمت کی۔ مذاکرہ، صدر مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ علامہ سید جواد نقوی کی زیرِصدارت منعقد ہوا، جس میں ممتاز مذہبی، سیاسی اور سماجی شخصیات بشمول پیر خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ (کوٹ مٹھن شریف)، جناب فرید احمد پراچہ ( نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان)، اعجاز احمد چودھری (پاکستان تحریک انصاف) علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری (سربراہ متحدہ جمعیت اہلحدیث پاکستان)، پروفیسر عبدالغفور راشد (نائب امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان)، مولانا محمد عاصم مخدوم (چیئرمین کل مسالک علماء بورڈ)، تصور حسین شہزاد (سینیئر صحافی، کالم نگار)، ڈاکٹر علی وقار (تحریک منہاج القرآن)، ڈاکٹر شفاقت علی شیخ (پروفیسر یونیورسٹی آف لاہور)، پروفیسر علی اکبر الازہری، پروفیسر محمد شہباز منج (سرگودھا یونیورسٹی)، پروفیسر حبیب اللہ بخاری (کویت)، علامہ نعیم جاوید نوری (جمعیت علمائے پاکستان)، ڈاکٹر محمود غزنوی (صدر امن کمیٹی پنجاب)، علامہ اصغر عارف چشتی (صدر تحریک انصاف علماء و مشائخ ونگ پنجاب)، پادری عمانوئیل کھوکھر (ڈین آف ریونڈ ڈائسس چرچ) اور بھگت لال کھوکھر (پنڈت بالمیک سوامی مندر) نے اظہارِ خیال کیا۔

مذاکرہ سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ بپھرے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں سیالکوٹ فیکڑی مینجر پریانتھا کمارا کا بہیمانہ قتل ہمارے معاشرے کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے، جو ہمارے ہاں انسانیت کے زوال اور انسانی قدروں کی پائمالی کی سیاہ داستان سنا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قتل ریاست کی ان گمراہ کن پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جس کے تحت وطنِ عزیز میں ذاتی مفادات کی خاطر شدت پسندی اور دہشت گردی کا بیج بویا گیا، جو آج ایک تناور درخت بن چکا ہے، جس نے پورے معاشرے پر اپنا منحوس سایہ کر رکھا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک اس منحوس شجر کی جڑیں نہیں کاٹی جاتیں، اس وقت تک اس کی شاخوں کی کانٹ چھانٹ عبث ہے، کیونکہ جب تک جڑ سلامت ہے اس وقت تک یہ نئے برگ و بار پیدا کرتا رہے گا۔

علامہ سید جواد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں مذہبی عقیدت جنون کی حد تک پائی جاتی ہے لیکن یہ عقیدت حقیقت اور اقدار سے خالی ہے، عوام میں شعور کی شدید کمی ہے اور وہ دین کے مزاج سے آشنا نہیں اور جب دین اقدار سے عاری ہو جائے تو وہ محض مخالف پر برسانے کیلئے ایک کوڑا بن کر رہ جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رسول اللہ (ص) نے سب سے پہلے جاہل عرب معاشرے کو اقدار سے مزین کیا اور پھر ان تربیت یافتہ اور با اقدار لوگوں کو اُمت کے قالب میں ڈھالا، جن کی پہچان ان کی رواداری، حسنِ اخلاق اور بھائی چارہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ رسول اللہ (ص) کا دین انسانیت کا دین ہے، اس کی پہچان سلامتی اور رحمت ہے۔ بے قصور اور نہتے انسانوں کو اسلام کے نام پر زندہ جلانا رحمتِ دو عالم کا دین نہیں اور اس عمل کی ہر سطح پر مذمت کرنی چاہیئے۔

مولانا عاصم مخدوم کا کہنا تھا کہ 1990ء سے اب تک توہین رسالت قانون کے الزامات کی زد میں 18 سو لوگ آئے ہیں، ان میں 70 فیصد اہل تشیع، 5 فیصد اہلسنت اور تین فیصد مسیحی شامل ہیں۔ سیکولر افراد کی شرح اس معاملے میں زیرو ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیالکوٹ میں پوری انسانیت کا قتل ہوا، مسلمان یاد رکھیں کہ وہ بھی مسلمان نہیں، کیونکہ وہ ایک دوسرے کو کافر قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو باہمی وحدت کی ضرورت ہے، سیالکوٹ میں جو کچھ ہوا، مذہب کے نام پر ہوا اور صفائیاں علماء سے دلوائی جا رہی ہیں اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ مدارس والے ملوث ہیں۔ مولانا عاصم مخدوم کا کہنا تھا کہ اس کے اسباب ڈھونڈنا ہوں گے، اسباب کا علم ہوگا تو سدباب ہوگا، یہ سدباب علماء کو کرنا ہوگا، حکومت ایسے کام نہیں کیا کرتی۔

ڈاکٹر محمود غزنوی کا کہنا تھا کہ امن کیلئے تمام مکاتب فکر اور مذاہب کا یہاں جمع ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستانی قوم امن چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مٹھی بھر شرپسند عناصر کی فکری تربیت کرنا ہوگی، سیالکوٹ واقعہ میں نوجوان استعمال ہوئے ہیں، جن کی فکر میں شدت پسندی کے بیج بوئے گئے۔ تحریک انصاف کے رہنماء اعجاز چودھری کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ میں جو ہوا، یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، خدشہ ہے کہ ایسے واقعات آئندہ بھی ہوتے رہیں گے، سیالکوٹ واقعہ سے بھی بڑا واقعہ فیصل آباد میں ہوا۔ حکومت ہی ہر واقعہ کی ذمہ دار گردانی جاتی ہے۔ سیالکوٹ واقعہ کے تمام ملزمان گرفتار ہوچکے ہیں، ایک تھنک ٹینک بن چکا ہے، جو ایسے واقعات کے تدارک کیلئے اقدامات کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا نظام عدل برباد ہوچکا ہے۔ ہمارا معاشرہ وفات پا چکا ہے، یہاں قانون کے اوپر قانون ہیں اور وہ ماورائے عدالت واقعات ہیں، کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عدالتیں انصاف نہیں دیں گے، اسی لئے وہ اپنی عدالت لگا لیتے ہیں۔

تحریک منہاج القرآن کے رہنماء سہیل رضا قادری نے کہا کہ سیالکوٹ واقعہ کے بعد ملک میں ایک ہیجان کی کیفیت ہے، اس واقعہ کی ذمہ دار حکومت ہے، مذہب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہب سے زیادہ ہمارے رویئے قابل توجہ ہیں، جو افواہ پر بھی طوفان اٹھا دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا انتہائی خطرناک کام کر رہا ہے۔ تحریک انصاف علماء و مشائخ ونگ پنجاب کے صدر علامہ اصغر عارف چشتی کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات مذہب کی بدنامی کا باعث ہیں، فیکٹری ملازمین نے اپنے ذاتی مسئلہ کو مذہب کا رنگ دے کر قانون ناموس رسالت کا غلط استعمال کیا۔ اس قانون کو غلط استعمال کرنیوالے کی بھی یہی سزا ہونی چاہیے جو اس کے مجرم کی ہے۔

نائب امیر جماعت اسلامی فرید پراچہ کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی، کسی ایک نے بھی اس کی تائید نہیں کی۔ اس میں ایک مہمان نشانہ بنا، اس واقعہ میں سارے نوجوان ملوث تھے، ہماری نسل ہمارے ہاتھ سے نکل رہی ہے۔ بھارت ہجومی تشدد میں سب سے آگے تھا اور عالمی برداری کی عدالت میں کھڑا تھا کہ گائے کو ذبح کرنے یا چھڑی مارنے پر انسانوں کو جلا دیا جاتا ہے، مگر ہمارے اس ایک واقعہ نے ہمیں بھارت کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روز قیامت ایسے واقعات پر تمغے نہیں ملنے بلکہ پوچھ گچھ ہوگی، ہمیں قوم میں حقوق العباد کا شعور بیدار کرنا ہوگا۔ قانون کا احترام تب ہوگا، جب قانون کی حکمرانی ہوگی۔ جو واقعات ماضی میں ہوئے ان کا تدارک نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اسی سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو قتل کیا گیا، ملزم انجام کو نہیں پہنچے، سانحہ ساہیوال، سانحہ ماڈل ٹاون، سانحہ سرگودھا جہاں پیر نے کئی مریدوں کو قتل کر دیا، سانحہ کوٹ رادھا کشن ہوا، کوئی سدبات نہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس سے اپیل کرتے ہیں کہ نظام عدل کا جائزہ لیں۔ قوانین کی موجودگی میں برسوں کیس چلتے ہیں، سٹیکر پوسٹر لگانے کیلئے بھی قانون بنایا جائے کہ کسی کی اجازت کے بغیر کسی دیوار پر سٹیکر یا پوسٹر نہ لگایا جائے۔ نظام تعلیم کی اصلاح کی جائے، یکساں قومی نصاب علماء کی مشاورت سے تیار کیا جائے۔ فیکٹریوں میں فکری تربیت کیلئے خصوصی نشستیں رکھی جائیں اور لیکچرز کا اہتمام کیا جائے۔ سوشل میڈیا کو لگام دی جائے۔

جمعیت علمائے پاکستان کے رہنماء علامہ نعیم جاوید نوری نے کہا کہ جیسے حکمران ہوتے ہیں، ویسا ہی مزاج قوموں کا بھی بنتا ہے، اس حکومت نے دین کا بہت غلط استعمال کیا، اسی وجہ سے یہ تباہ کاریاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی شدت پسندی کے تدارک کیلئے قومی کمیشن بنایا جائے۔ سیالکوٹ واقعہ کے پونے گھنٹے بعد پولیس پہنچی، ادارے کہاں ہیں، ریاست مدینہ کا دعویٰ تو کیا گیا، لیکن کیسے بنے گی، یہ نہیں بتایا گیا۔ پیر برہان الدین ربانی اور پروفیسر حبیب اللہ شاہ بخاری نے کہا کہ مسائل کا ذمہ دار میڈیا بھی ہے، جو درست تصویر پیش نہیں کرتا، ہم جہاں مسلمان جمع ہوتے ہیں، وہاں ہندو، سکھ، عیسائی بھی ہمارے برابر بیٹھے ہیں، اتحاد اور بھائی چارے کی یہ تصویر میڈیا نہیں دکھائے گا،سندھ میں ایک سری لنکن فیکٹری مینجر کو شاندار کارکردگی پر ایوارڈ دیا گیا، لیکن میڈیا نے وہ نہیں دکھایا۔

پروفیسر محمد شہباز منج نے کہا کہ انتہاء پسندی کے اسباب و محرکات کو ماضی سے دیکھنا پڑے گا، ملی مجلس شرعی نے ممتاز قادری کی سزا کو قرآن و سنت کے خلاف قرار دیا تھا اور اسے ہیرو کہا تھا، ایسے لوگ اگر ہیرو بنا کر پیش کئے جائیں گے اور انہں جنت کی ٹکٹ دیدی جائے گی تو کوئی بھی اس جانب مائل ہو جائے گا۔ ہندو رہنماء پنڈت بھگت لال کھوکھر کا کہنا تھا کہ ذاتی انا کو مذہب کا رنگ دے دیا گیا، جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی واقعہ کو مذہب کا رنگ دے دیا جائے تو خونیں طوفان آتے ہیں، ایسے واقعات کا تدارک بالخصوص علماء کی ذمہ داری ہے۔ امامیہ آرگنائزیشن پاکستان کے سابق چیئرمین لال مہدی خان نے کہا کہ کمال انسانیت یہ ہے کہ انسانی اقدار کی پاسداری ہو، انسانیت کے تقاضوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہو تو یہ زوال ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیالکوٹ سانحہ میں انسانی اقدار کو پامال کیا گیا، جس کی وجہ جہالت ہے، جس پر جذباتیت کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں مکالمے کو بڑھانا ہوگا۔

ڈاکٹر شفاقت علی شیخ کا کہنا تھا کہ معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہے، یہاں قانون کی عملداری نہیں، افراد میں شعور کی بھی کمی ہے، قانون تو ہے، مگر اس کا شعور نہیں، قانون اور شعور برابر چلیں تو معاشرے میں مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ افرادِ معاشرہ کو شعور دیدیں، قانون پر عملداری یقینی بنا دیں، معاشرہ ٹھیک ہو جائے گا۔ پروفیسر اکبر علی الازہری نے کہا کہ ایسے واقعات مذہب کی بدنامی کا باعث ہوتے ہیں، علماء مل بیٹھیں اور ایک دوسرے کا احترام کریں، اس پیغام کو عوام تک بھی پہنچایا جائے، ہماری عدلیہ پاکستان کی بدنامی کیلئے کافی ہے، میڈیا شتر بے مہار ہے، اسے کنٹرول کرنا ہوگا۔ تحریک منہاج القرآن کے رہنماء ڈاکٹر علی وقار نے کہا کہ دینی اقدار سے عاری لوگ حرمت رسول کا جھنڈا لے کر نکلتے ہیں، ایسی فکر کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ خاموشی نیم رضا مندی ہوتی ہے، مذہب کو جذباتیت سے ہٹائیں، یہ دور عقلی اپروچ کا ہے، معاشرے کو قرآنی اصولوں پر کاربند کرنا ہوگا، ایسے اتحاد کا مظاہرہ مساجد میں بھی کریں۔

مسیح رہنماء عمانوئل کھوکھر نے کہا کہ غلط کو غلط نہ کہنا غلامی کی بدترین شکل ہے اور غلط کو غلط نہ سمجھنا جہالت ہے۔ ہم نے غلط کو غلط سمجھا اور غلط کو غلط کہا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کا کوئی قصور نہیں، یہ علماء کا قصور ہے، جہاں انصاف نہ ہو، وہاں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا کہ سری لنکا نے 35 ہزار آنکھیں پاکستان کو عطیہ کیں، آج اس ملک کو ہم نے کیا صلہ دیا۔ جمعیت اہلحدیث کے رہنماء عبدالغفور راشد اور علامہ ضیاء اللہ شاہ بخاری نے کہا کہ یہ فکری جنگ کا دور ہے، دشمن اپنے آپ کو کامیاب سمجھ رہا ہے، لیکن ہمیں مایوسی نہیں، فکری جنگ میں اصول ہوتا ہے، حملہ آور بن کر رہیں، دفاعی پوزیشن میں آئے تو ناکام ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج اس سیمینار میں پتہ چل گیا کہ قوم بیدار ہے، ہمارا معاشرہ اسلامی ہے، پاکستان آج بھی چیرٹی میں دنیا کے ٹاپ فور ممالک میں ہے، آج ہم نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان کے تمام مسالک اور مذاہب متحد ہیں۔

پیر خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ کا کہنا تھا کہ یہ بگاڑ اچانک نہیں آیا بلکہ اس کی بہت پہلے سے بنیاد رکھ دی گئی تھی، یہ شدت پسندی اس دور سے ہے، جب مناظرے ہوا کرتے تھے، ایک دوسرے کو کافر اور نجس قرار دیئے جانے سے اس کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سیالکوٹ واقعہ اور ایسے بگاڑ میں حکومتوں کا ہاتھ ہوتا ہے، حکومتیں اپنے مفاد کیلئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوفیاء کرام کی تعلیمات کو فروغ دے کر معاشرے کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے، صوفیا کے آستانوں پر بلاتفریق مذہب و مسلک لوگ آتے ہیں، صوفیاء کا دین تو انسانیت ہے اور جس میں انسانیت نہ ہو، وہ مسلمان ہی نہیں۔
خبر کا کوڈ : 967607
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش