0
Thursday 9 Dec 2021 12:54

شدت پسندی کیخلاف پوری قوم ایک پیج پر آگئی

شدت پسندی کیخلاف پوری قوم ایک پیج پر آگئی
تحریر: ابوفجر لاہوری

سانحہ سیالکوٹ نے پوری قوم کو متفکر کر دیا ہے۔ اس حوالے سے جہاں عوام میں تشویش پائی جا رہی ہے وہیں حکومت اور دیگر ادارے بھی فعالیت دکھا رہے ہیں۔ علماء کی جانب سے بھی جہاں واقعہ کی مذمت کی گئی ہے وہاں کسی ایک نے بھی اس سانحہ کی تائید نہیں کی بلکہ تمام کے تمام مکاتب فکر اور مذاہب اس معاملے میں ایک پیج پر دکھائی دیتے ہیں۔ تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام متفق ہیں کہ ایسی شدت پسندی کا سدباب کیا جائے۔ آرمی کی جانب سے حالیہ کور کمانڈر کانفرنس میں واضح کیا گیا کہ تشدد پسندانہ اور دہشتگردانہ عناصر کیلئے قطعی تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔ اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے ٹویٹ میں کہا گیا کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں خطے کی صورتحال اور ملکی سلامتی سے متعلق امور پر غور وخوض کیا گیا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کسی بھی خطرے کی صورتحال میں مسلح افواج کو چوکنا و مستعد رہنے کا حکم دیا۔ آرمی چیف نے افغانستان کی بگڑتی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ ملک کی مسلسل اور بروقت انسانی امداد نہ صرف دوست ممالک کے امن و خوشحالی بلکہ خطے کے امن و استحکام کیلئے بھی بہت ضروری ہے۔ کانفرنس میں سیالکوٹ واقعہ کے تناظر میں شدت پسندی کیخلاف غیر لچکدار اور صفر برداشت پالیسی اختیار کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں ملکی سلامتی، خطے کی صورتحال، افغانستان میں تغیر پذیر حالات پر مشاورت بلاشبہ نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ عسکری قیادت کے درمیان ان امور پر مشاورت اور فیصلہ سازی کے بعد یقینی طور پر ملک کے دفاع، قومی سلامتی اور خطے کے حالات کے پیش نظر دفاعی و سٹریٹیجک امور پر پیشرفت کی جاتی ہے۔ ان مقاصد کیلئے ویسے بھی قومی قیادت باقاعدگی سے مشاورت کرتی رہتی ہے۔

قومی سطح پر سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان قومی سلامتی سے متعلق مختلف معاملات معمول اور قاعدے کے تحت باقاعدہ زیر بحث رہتے ہیں۔ اس تناظر میں باعث اطمینان امر یہ ہے کہ مسلح افواج اور ان کی قیادت ملکی استحکام، سرحدی دفاع اور علاقائی امور کے تناظر میں تمام ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے ہمہ وقت مستعد رہتی ہیں۔ گزشتہ روز ہونیوالی کور کمانڈر کانفرنس میں بھی ملکی و سرحدی دفاع اور قومی سلامتی کی حفاظت کیلئے افواج پاکستان کے تربیتی و پیشہ وارانہ امور پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ اس ساری صورتحال کے پس منظر میں البتہ تازہ ترین کور کمانڈر کانفرنس میں شدت پسندانہ اور دہشتگردانہ عناصر کیلئے سخت گیر رویہ اختیار کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا وہ نہ صرف غیر معمولی بلکہ زمینی حقائق کی بنیاد پر نہایت اہم حیثیت کا حامل ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں طویل عرصے سے جاری سیاسی، معاشی، انتظامی اور قانونی رویوں کے نتیجے میں معاشرتی زندگی کئی قسم کے خطرناک مسائل کا شکار ہو چکی ہے۔

ملک میں موجود نظام عدل کی خامیوں، سیاسی سطح پر بدانتظامی، بدنظمی اور بدعنوانی کی کیفیات اور قانون کے نفاذ میں موجود خامیوں کے باعث معاشرے میں فرقہ واریت، نفرت، تشدد، عدم برداشت، طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں رونما ہونیوالے افسوسناک رویے خطرناک شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ سیالکوٹ میں توہین مذہب کے نام پر غیر ملکی کو انتہائی سفاکیت کیساتھ موت کا نشانے بنانے اور اس کی لاش کے بے رحمی سے آگ لگا دینے والا واقعہ دراصل انہیں بھیانک رویوں میں سے کسی ایک کا نتیجہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب، مکتبہ فکر، نظریہ اور فلسفہ انسانیت کی توہین اور انسانیت سوز سوچ کے تحت انسانوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام میں تو دوٹوک الفاظ میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے لیکن تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی آڑ میں عدم برداشت اور نفرت کا دھندہ کرنیوالے چند مخصوص عناصر نے اسلامی تعلیمات کی حقانیت کو مسخ کرنے میں سازش شروع کر رکھی ہے۔

یہ مٹھی بھر عناصر حقیقت میں انتہائی بزدل اور خوفزدہ ہیں، اپنی بزدلی اور خوف کے زیراثر ہی یہ لوگ انتہاپسندی، عدم برداشت اور نفرت و تعصب کا گھٹیا دھندہ کرتے ہیں۔ موقع ملنے پر یہ عناصر سیالکوٹ جیسے واقعات کی شکل میں معاشرے کو یرغمال بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان مٹھی بھر شر پسندوں نے طویل عرصے سے سادہ لوح لوگوں کو جذباتی بنیادوں پر بلیک میل کر رکھا ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ آہستہ آہستہ ان عناصر کی انتہاء پسندانہ سوچ لوگوں کے ایمان و عقیدہ کو یرغمال بنا کر معاشرے میں شدت پسندی کے رویوں کو بڑھاوا دینے کا باعث بن رہی ہے۔ سیالکوٹ کے واقعہ نے جہاں پورے ملک کو غمزدہ کیا ہے وہیں عوام سے قومی قیادت تک شدت پسندی سے بیزاری کی سوچ کو بھی مضبوط کیا ہے۔

پاکستان کے عام شہری، علمائے کرام، سیاسی و فوجی قیادت میں یہ احساس شدت سے پیدا ہوا ہے کہ مذہب سمیت کسی بھی جذباتی معاملے پر شدت پسندی کے تحت احتجاج کی لہر پیدا کر کے معاشرے کو بدامنی، انتشار، افتراق کے حوالے کرنیوالوں کو روکنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان، وزیراعظم عمران خان، ملک کی سیاسی، سماجی و دینی قیادت کی طرف سے واضح الفاظ میں شدت پسندوں کیخلاف ہرممکن اقدامات پر اتفاق کا اظہار کیا جا چکا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی اسی بات پر کلی اتفاق کیا گیا ہے کہ شدت پسندانہ اور دہشتگردانہ کارروائیوں میں ملوث عناصر کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں مجموعی طور پر یہ صورتحال ملک کے اندر ایسا واضح موقع پیدا کررہی ہے کہ جس کے ذریعے پورے معاشرے کو شدت پسندی کی نذر کرنے پر تلے ہوئے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کی سیاسی و فوجی قیادت، نظام عدل کے ذمہ داران، قانون نافذ کرنیوالے ادارے اور فکری علمی قائدین ایسا مشترکہ اور جامع حکمت عملی کو پوتی قوت سے اختیار کریں کہ جس کی مدد سے نہ صرف شدت پسندی و دہشتگردی بلکہ اس کا باعث بننے والی وجوہات اور سوچ کو بھی شکست فاش دی جا سکے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک طرف شدت پسند اور عدم برداشت پر یقین رکھنے والے عناصر کو انجام تک پہنچایا جائے تو دوسری طرف ایسی فکری، علمی، معاشی، قانونی بنیادیں استوار کی جائیں جو معاشرے سے غربت، جہالت، پس ماندگی، ناانصافی کی شکل میں موجود ان اسباب کا خاتمہ کریں جو بالآخر شدت پسندی، نفرت، تنگ نظری اور عدم برداشت کی شکل میں تیار ہونیوالی خاردار فصل سے لوگوں کی زندگی کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 967628
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش