1
0
Sunday 12 Dec 2021 18:51

سندھ کا موجودہ بلدیاتی نظام، ایم کیو ایم پاکستان کی آل پارٹیز کانفرنس

سندھ کا موجودہ بلدیاتی نظام، ایم کیو ایم پاکستان کی آل پارٹیز کانفرنس
رپورٹ: ایم رضا

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے زیر اہتمام سندھ کے موجودہ بلدیاتی نظام کے عنوان سے منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ کانفرنس کی صدارت کے فرائض ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کی جبکہ اس موقع پر ایم کیو ایم کے دیگر رہنما عامر خان، سید امین الحق، وسیم اختر، کنور نوید اور فیصل سبزواری سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ کراچی کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ اے پی سی سے اپنے خطاب میں جی ڈی اے سے عرفان اللہ مروت نے کہا کہ جب تک نچلی سطح پر تیسری سطح کی گورنمنٹ کو اختیارات نہیں دیئے جائیں گے اس وقت تک الیکشن کرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ہم عوام کے اربوں روپے لگاکر الیکشن تو کروا دیتے ہیں لیکن جب تک بلدیاتی گورنمنٹ کو اختیارات منتقل نہیں کئے جائیں گے تب تک الیکشن کروانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، کیا الیکشن صرف دنیا کو دکھانے کیلئے ہوتے ہیں، یہاں پر کچرا اٹھانے کا اختیار بھی چیف منسٹر کے پاس ہے تو عوام کیا اب کچرا اٹھانے کیلئے بھی درخواست لیکر لائن میں لگ کر چیف منسٹر کے پاس جائیں گے، اس شہر کو کوئی اوون نہیں کرتا اور جو اوون کرتے ہیں انہیں کام نہیں کرنے دیا جاتا، نالوں کے اردگرد مکانات توڑے جا رہے ہیں، سندھ حکومت کے کس منسٹر کا بھائی جگہیں خرید تا پھر رہا ہے یہ ہم سب کے علم میں ہے، غریب کے مکانات گرائے جارہے ہیں اور اب اپنی مرضی کا کالا قانون لاکر اپنی حکومت کو مزید مضبوط کرنے کی سازش کر رہے ہیں، ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے اور آج کی اس آل پارٹیز کانفرنس میں پیش ہونے والے مشترکہ اعلامیہ کی ہم حمایت کرتے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے مفتاح اسماعیل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اٹھارویں ترمیم کے بعد شہروں کو با اختیار کرنے میں ناکام رہی، لاڑکانہ میں سڑک بننے کا فیصلہ کراچی میں اور یہاں کا فیصلہ لاڑکانہ سے نہیں ہونا چاہیئے، سندھ میں 350 ارب کے ADP کا بجٹ نظر نہیں آتا، اگر ہم سسٹم کو بہتر کریں تو بہتری آئے گی، این ایف سی ایوارڈ مالیاتی تقسیم کا ایک بہترین فارمولہ ہے، اگر اسی فارمولے کو استعمال کریں تو بہتر صورتحال ہو سکتی ہے، ڈویژنز کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے وہی کام پیپلز پارٹی کو صوبائی مالیاتی کمیشن میں کرنا چاہیئے، ہر ڈویژن کو مالیاتی طور پر اختیار 80 فیصد آبادی اور 20 فیصد غربت پر دیں، پیسوں کے ساتھ اختیار یا اتھارٹی نچلی سطح پر جانی چاہیئے، ساری اتھارٹی اگر وزیراعلیٰ کے پاس ہو تب کبھی انصاف نہیں ہوگا، اسلام آباد سے کراچی کے چیف منسٹر ہاؤس میں اختیار لا کر باقی سندھ کو نہ دینا زیادتی ہے، ایسا کالا نظام برطانیہ کے نو آبادیاتی نظام میں تھا تاکہ مقامی آبادی پر کنڑول رکھا جا سکے، ہماری گزارش یہ ہے کہ 80 فیصد مسائل نچلی سطح تک اختیارات کو منتقل ہونے چاہیئے تاکہ عوام کو تمام تر صورتحال آسانی سے فراہم کی جاسکیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے وفاقی وزیر اسد عمر نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا آئین بہترین سوچ اور مثبت حکمت عملی کے ساتھ بنایا گیا، اس پر عملدرآمد ایک بنیادی مسئلہ ہے، مفتاح اسماعیل نے بھی اسی بات کی نشاندہی کی، اختیارات اور وسائل صوبوں کی سطح پر نہیں منتقل ہورہے، ضرورت سے زیادہ وسائل وفاق سے صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں، صوبوں کے اختیارات و وسائل میں اضافے کے بعد بھی ڈویژن اور ڈسٹرکٹ میں نہیں ہوئے، اگر آپ سندھ میں رہتے ہیں تو بنیادی حکومت کے بے اختیاری آپ کا بھی مسئلہ ہے، خیبر پختون خواہ کا بلدیاتی نظام نسبتا بہتر نظام ہے، سندھ کا موجودہ بلدیاتی نظام بدترین نظام ہے، ہم اور متحدہ قومی موومنٹ عدالتوں میں اس قانون کے خلاف موجود ہیں، جب تک آئین کے آرٹیکل 140 اے کے مطابق اختیارات منتقل نہیں کریں گے معاملہ حل نہیں ہوگا۔ عوامی نیشنل پرٹی سندھ کے صدر شاہی سید نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری غلطیوں کی وجہ سے کراچی کے مسئلے کو درگزر کیا جس سے سب سے زیادہ نقصان اردو بولنے والوں کو ہوا۔

شاہی سید نے مزید کہا کہ اس شہر کی تعلیم تباہ حالی کا شکار ہوگئی، کراچی کی بزنس کمیونٹی کو نقصان پہنچایا، کاروباری آدمی اپنے کام کے لئے کہیں بھی جائے گا، دن کو تین بجے اور رات کو 11 بجے یہ شہر جاگتا رہتا تھا، اس شہر کی حلقہ بندی بھی غیر منصفانہ ہے اس شہر کو رحم کی ضرورت ہے، کراچی ہماری ماں کی طرح ہے، اس کراچی کو آپ امن اور بھائی چارہ دیں، ہم اٹھارویں ترمیم کے حمایتی ہیں لیکن لوگوں کو اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں ہوئے، ہم پاکستان پیپلز پارٹی سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے بڑوں کی روش اپنائیں، ہمیں راستہ بتائیں کہ ہم اپنے مسائل کے حل کے لئے کیا طریقہ اپنائیں، ملک کے معاشی حالات تکلیف دہ ہیں، کراچی کے مفاد کی بات کرنی چاہیئے، ہمیں کراچی نے بہت کچھ دیا ہے، ہمارے ذمے جو کام ہے وہ ہم کریں گے، ایم کیو ایم پاکستان کو خراج تحسین کہ انہوں نے سب کو ایک چھت کے نیچے جمع کیا، یہاں آپ نے بلایا ہمیں تسلیم کیا، ہمارے پاس بہترین لوگ اور ٹیلنٹ موجود ہے، آج ہم سب کو مل کر نظام کو بہتر کرنے کیلئے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

جمیعت علماء اسلام (ف) سے اسلم غوری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں اٹھارہویں ترمیم کو اپنی جماعت کے ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جارہا ہے، سندھ کے اندرونی علاقوں میں صحت و تعلیم کی بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں اور اس نئے قانون کے بعد مزید ہنگامی صورتحال پیدا ہو جائے گی جس سے عوام کو شدید نقصان پہنچے گا، ہماری گزارش یہ ہے کہ وسائل کو نچلی سطح پر منتقل کریں تاکہ عوام کو تمام تر صورتحال آسانی سے فراہم کی جا سکے، سندھ کے عوام کے ساتھ 13 سال سے کرب میں مبتلا ہیں، ان تیرہ سالوں سے عوام کا خون چوسا جا رہا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کے جیلان شاہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کے مالیاتی معاملات کا آڈٹ بہت ضروری ہے ان کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، ان ترامیم سے مقامی حکومت کے اداروں میں شدید مالیاتی بحران آئے گا، این ایف سی کے فارمولے پر بہتر طور پر عملدرآمد سے مسائل حل ہونگے، آپ کے ایڈمنسٹریٹر کو اب گاربیج جمع کرنے کی اجازت نہیں بلکہ وہ قانون ساز نمائندے کریں گے، اس کالے قانون کو بدلنا چاہیئے اور اس سلسلے میں کورٹ میں ہر جماعت اپنی پٹیشن دائر کرے۔

پاکستان مسلم لیگ ق کے طارق حسن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کا شکرگزار ہوں کہ مجھے یہاں بلایا اور بولنے کا موقع دیا، لوگ منتخب ہوکر آتے ہیں معاملات کے حل کیلئے لیکن لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوسکتے جب تک اختیارات کی نچلے درجے منتقلی نہیں ہوگی، ابھی کچھ کام ٹاؤنز کو بحال کرنے کے لئے ہیں، سندھ بلڈنگ کی جگہ کراچی بلڈنگ کنڑول اتھارٹی کو بحال کیا جائے، کراچی کے میئر کے پاس سارے مقامی اداروں کے اختیارات ہونے چاہیئے، قانونی جنگ ساتھ مل کر لڑنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں مسلم لیگ ق آپ کے ساتھ مکمل طور پر کھڑی ہے، مقامی حکومت بغیر اختیارات کے بے کار ہے جب تک ان مسائل کا حل نہ ہو ہم اپنی کوششیں کرتے رہیں گے۔ جمیعت علما اسلام (سمیع الحق) کے حافظ احمد علی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقامی حکومت کا نظام ہمیشہ فوج کے دور میں مضبوط ہوا، مشرف کے دور کا بلدیاتی نظام دوبارہ نافذ کیا جائے، آج دوبارہ وزیراعلیٰ بہتری کی بات کرتے ہیں جبکہ کراچی کا حال تباہ ہے، بغیر اختیارات کے مقامی حکومت کے الیکشن کا انعقاد قومی خزانے پر نقصان ہے۔

مہاجر اتحاد تحریک کے ڈاکٹر سلیم حیدر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس بلدیاتی نظام کا مطالعہ نہیں کیا نہ ہی اسکی ضرورت ہے، اس معاملے پر وفاقی حکومت ناکام اور صوبائی حکومت بے حس ہے، آج حالت یہ ہے کہ میٹرک کے بعد سرکاری کالج میں داخلے کے لئے ڈومیسائل کی شرط ہے، ظلم و بربریت ہماری آنے والی نسلوں پر زمین تنگ کر رہی ہے، اس معاملے پر مجھے مایوسی ہوئی، جماعت اسلامی جیسی جماعت آج یہاں موجود نہیں، ایک بینر میں نے دیکھا کہ مفلوج بلدیاتی نظام، یہ مفلوج بلدیاتی نظام نہیں، مفلوج ہم اور آپ ہیں، مہاجر اتحاد تحریکوں کو اپنے مسائل کا حل خود کرنا ہوگا، ہمیں بلدیاتی اختیارات کے لئے ایک بڑی ریلی کا اعلان کرنا ہوگا، اس ریلی کو وزیراعلی ہاوس پر لے جا کر بیٹھنا ہوگا جب تک وزیراعلی باہر آکر قانون واپس نہ لے لے آپ کو اور ہم سب کو مل کر کھڑا ہونا ہوگا، کراچی کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا جبکہ اس کا اپگریڈیشن آف اسٹیٹس نہیں ہوگا۔ پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے بشارت مرزا نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں آج جو صورتحال ہے وہ سب کے لئے افسوس ناک ہے، ہم نہ صرف انکی اس ترامیم بلکہ 2013ء کے قانون کو بھی رد کرتے ہیں، ایم کیو ایم پاکستان کے مشترکہ اعلامیہ کی حمایت کرتا ہوں ہم اس شہر کی نمائندگی کر رہے ہیں ہم سب کو مل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان سنی تحریک کے فہیم الدین شیخ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے اس ترمیمی بل کو پاکستان سنی تحریک آمرانہ تصور کرتی ہیں اور اس لوکل گورنمنٹ ایکٹ کو مسترد کرتے ہیں اور جو آئین سے متصادم ہو، اس قانون کو ختم کرنا چاہیئے، ہمیں عدالتوں سے انصاف ملنے میں بہت دیر ہوگئی، میں ایم کیو ایم پاکستان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمیں کراچی کی بہتری کیلئے کی گئی اے پی سی میں بلایا اور ہم ایم کیو ایم پاکستان کے قرارداد کو اپنی جانب سے تسلیم کرتے ہیں اور اپنی جانب سے تمام تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کے علامہ صادق جعفری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوام اس قانون کے خلاف ہے، ہم مل کر اس شہر کے مسائل پر غور کریں گے جس سے دائمی امن قائم ہوگا اور ہماری جانب سے جتنی بھی مدد فراہم ہو سکے گی وہ اہم فراہم کرنے کیلئے تیار ہیں، شہر کراچی صحت، تعلیم اور روزگار سے محروم ہے، ہم اپنی جانب سے اس شہر کیلئے تمام تر کوششیں کرتے رہیں گے۔

پاکستان عوامی تحریک کے کامران راؤ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر اندرون سندھ کے ہسپتال سہولیات دے رہے ہیں تو آپ شہر کے ہسپتال لے لیں آپ کے اسکولوں اور ہسپتالوں میں وڈیرے اپنے جانور باندھتے ہیں، اندرون سندھ کی عوام زبوں حالی کا شکار ہے، سندھ کے ہاریوں اور کسانوں کو حقوق دینے سے یہ قاصر ہیں، جس موقع پر آپ کو ضرورت ہوگی ہم موجود ہوں گے۔ عام لوگ اتحاد پارٹی کے جسٹس ریٹائرڈ وجہیہ الدین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی ایشیا کا صاف ترین شہر تھا، میری نگاہ میں سب سے اہم بات اٹھارویں ترمیم ہے اب اس کو 11 سال ہوگئے لیکن صوبے تیار نہیں تھے، فنڈز کی خرد برد اور انتظامی خرابیاں پیدا ہوئیں، صوبے اور ڈسٹرکٹ کے درمیان بھی مالیاتی اختیار کی تقسیم کا انتظام موجود ہے، پچھلی مردم شماری میں دھاندلی کی، وزیراعلی سندھ کے دفتر میں دوسری عالمی جنگ کی طرح وار روم موجود تھا جو فیصلے کرتا تھا، سب سے پہلے اگلی مردم شماری کی شفافیت پر بات ہونی چاہیئے، پیپلز پارٹی بات کرنے پر اس لئے تیار ہوئی کہ انتخابات کا نتیجہ معلوم ہے، سال 2023ء میں بڑی سطح پر سندھ میں سیاسی تبدیلی آئے گی، آخر میں گزارش ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے کچھ سیکھیں، ناظم جوکھیو کی بیوہ کے ساتھ اس سندھ کی وڈیرہ شاہی نے ظلم کیا، یہ وڈیرہ شاہی سندھی زبان کی ترجمان نہیں نہ ہی عام مظلوم سندھی سے انکا کوئی واسطہ ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما و سابق گورنر سندھ محمد زبیر عمر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم لسانی بنیادوں پر سیاست نہیں کرنا چاہتے، ہم مہاجر ہیں اور ہمیں اس پر فخر ہے، موٹر وے اور میٹرو بس ترقی کی بنیادی ضروریات ہیں، پیپلز پارٹی اس بل سے کراچی کیا دوسرے شہر بھی نہیں بنا سکتی، پیپلز پارٹی کی نیت میں فتور ہے، اس سے معاملہ مزید خرابی کی جانب جائے گا، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی بہت ضروری ہے، ان قوانین پر عملدرآمد بہت ضروری ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کراچی کے صدر خرم شیر زمان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک اچھا فورم تیار ہے جس کو منطقی انتظام تک لے جانا ہے، بات صرف کراچی کی نہیں پورے صوبے کی ہے، لاڑکانہ سے سیہون سے نوابشاہ سے اور کراچی سے بہتر توقعات رکھنی چاہیئے، ہمیں ان تمام شہروں کے لئے مشترکہ بہتر نظام لانا چاہیئے۔ انہوں نے ڈھاکہ، نئی دہلی اور ممبئی کے مقامی حکومتوں کے قوانین سے کچھ نہیں سیکھا، کیا مئیر اب حالات میں کام کر سکتا ہے، ہم نے یہ دیکھا کہ چھوٹی سوچ والا قانون یہ لے کر آئے ہیں، کچرا اٹھانے کے اختیارات انہوں نے مئیر کو دیئے لیکن منیجنگ ڈائریکٹر ان کا ہوگا، آٹھ سالوں سے بنیادی مسائل میں الجھا ہوئے ہیں جبکہ ہمارا کام قانون سازی تھا۔
خبر کا کوڈ : 968165
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
سوال نمبر ایک تاج ملکہ برطانیہ المعروف یوکے کے شہری الطاف حسین نے وہاں سے بیٹھ کر ایم کیو ایم کی قیادت کی اور میئر یا ناظم مصطفی کمال اسی الطاف کا بھیجا ہوا کارندہ تھا۔ اسی طرح نواز شریف صاحب لاہور یا اسلام آباد میں رہتے ہوئے کراچی سے متعلق فیصلے کیا کرتے تھے۔ حتی پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کو ملک کے باہر رہتے ہوئے چلایا۔ بلدیاتی نظام 2001ء کونسی منتخب عوامی جمہوری حکومت نے منظور کیا تھا۔ پرویز مشرف کی جرنیلی حکومت کا قانون تھا، جس کے تحت کراچی میں جماعت اسلامی نے اور ایم کیو ایم نے دونوں نے بلدیاتی حکومت کی۔ منافقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے اس بلدیاتی نظام کی مخالفت کی تھی اور بعد ازاں اسی نظام کے تحت حکومت کی تھی۔
سال 1987ء سے کراچی شہر پر ایم کیو ایم الطاف کا راج رہا ہے، سال 2016ء تک الطاف کی قیادت میں۔
عشرت العباد ایم کیو ایم گورنر سندھ طویل ترین مدت جو پاکستانی تاریخ تو کیا شاید دنیا کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہو.
سال 2014ء سے آج تک پاکستان کی صدارت یعنی ممنون حسین تا عارف علوی کراچی سے ہے۔
یہ ڈرامہ مظلومیت اور محرومی کا مکر ختم ہونا چاہیئے۔
ہر عام پاکستانی ایک جیسے مسائل کا شکار ہے۔ منافقت ختم ہونی چاہیئے۔
ملک کے بقیہ تین صوبوں میں کونسا بلدیاتی نظام ہے؟ مرکزی حکومت تحریک انصاف کی ہے اور تحریک انصاف بھی بلدیاتی نظام کے وقت پرویز مشرف کی حامی تھی۔
عدل و انصاف کو اہمیت دی جانی چاہیئے۔
مروت صاحب کی اقتداری تاریخ بھی اہلیان کراچی اور اہل وطن کے سامنے آشکارا ہے۔
ہماری پیشکش