2
0
Monday 13 Dec 2021 00:17

پیپلز پارٹی کیخلاف محاذ، ایم کیو ایم کے بعد پی ٹی آئی بھی میدان میں، کراچی میں اسٹیک ہولڈرز کانفرنس

پیپلز پارٹی کیخلاف محاذ، ایم کیو ایم کے بعد پی ٹی آئی بھی میدان میں، کراچی میں اسٹیک ہولڈرز کانفرنس
رپورٹ: ایم رضا

پاکستان تحریک انصاف کے تحت سندھ کے بلدیاتی نظام کے خلاف منعقدہ کراچی اسٹیک ہولڈرز کانفرنس کے شرکاء نے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے نئے بلدیاتی نظام کو مسترد کر دیا ہے اور اسے کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بلدیاتی قانون آئین سے متصادم ہے، اس قانون کے ذریعے بلدیاتی نمائندوں اور اداروں کے اختیارات کم کر دیئے گئے ہیں، کانفرنس اس عزم کا اعادہ کرتی ہے کہ اس قانون کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر جدوجہد کی جائے گی، سندھ کے اسٹیک ہولڈرز اس بلدیاتی قانون کی واپسی تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، اس قانون کے خلاف 19 دسمبر کو عوامی احتجاج کیا جائے گا، اس کانفرنس میں مشترکہ طور پر مطالبہ کیا گیا کہ سندھ حکومت اس قانون کو فوری واپس لے، تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے، جو نئے بلدیاتی قوانین کا مسودہ تیار کرے، نئے بلدیاتی قانون میں بلدیاتی اداروں اور نمائندوں کو آئین کے آرٹیکل 140 کے تحت اختیار دیئے جائیں۔ ان خیالات کا اظہار سیاسی، مذہبی جماعتوں، تاجر تنظیموں، سماجی رہنماؤں اور دیگر نے پاکستان تحریک انصاف کے تحت سندھ حکومت کے نئے بلدیاتی نظام کے خلاف مقامی ہوٹل میں منعقدہ کراچی کی آل اسٹیک ہولڈرز کانفرنس میں کیا۔

کانفرنس میں سیاسی جماعتوں کے علاہ ایف پی سی سی آئی، کراچی چیمبرز، این جی اوز اور دیگر نمائندہ تنظیمیں شریک ہوئیں۔ کانفرنس میں جماعت اسلامی، ایم کیو ایم پاکستان، جی ڈی اے، مسلم لیگ قاف، پاکستان سنی تحریک، پاکستان عوامی تحریک، مجلس وحدت مسلمین سمیت دیگر جماعتیں مدعو کی گئی تھیں۔ کانفرنس میں سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ، معاون خصوصی محمود مولوی، کراچی کے صدر خرم شیر زمان، فردوس شمیم نقوی، آفتاب صدیقی، پی ٹی آئی اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی کانفرنس میں موجود تھے۔ کانفرنس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا۔ کانفرنس سے وفاقی وزیر اسد عمر، حلیم عادل شیخ، خرم شیر زمان، فردوس شمیم نقوی، وسیم اختر، محمد حسین، طارق حسن، ڈاکٹر سلیم حیدر، محمد علاؤالدین، حنیف موٹلانی، عتیق میر، فیصل گلزار، زبیر فضل، بلال غفار اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ سندھ میں جو مکانی نظام پہلے موجود تھا، اس پر میں اور وزیراعظم پٹیشن پر دستخط کندہ ہیں، جو سپریم کورٹ میں موجود ہے، سیاست چند خاندانوں کے قبضے میں ہے، وہ چاہتے ہیں کہ وہ مالدار ہوں اور تمام اختیار ان کے پاس ہوں، عوام کو اختیار نہیں دیئے گئے تو مسائل حل نہیں ہونگے، اسلام آباد میں ماسٹر پلان کے تحت کام ہو رہا ہے، وہاں میئر کو اختیارات حاصل ہیں، شہر کو چلانے والے اختیارات میئر کے پاس ہیں، ہم ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کرنے کے لئے تیار ہیں، وفاق کے کام کراچی میں چل رہے ہیں، وزیراعلی نے اختیارات کی منتقلی کا وعدہ پورا نہیں کیا، سندھ کے لئے یہ فیصلے کا وقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آج لائحہ عمل بنانا ہے، یہ مسئلہ کسی سیاسی جماعت کا نہیں، اس نظام کے ذریعے حکمران آجاتے ہیں اور امیر سے امیر تر ہو جاتے ہیں، چہرے نہیں نظام کو بدلنا ہوگا، ایسا نظام ہونا چاہیئے کہ جو منتخب ہو، وہ مجبور ہو کام کرنے کے لئے۔ دو ہزار تیرہ کا بلدیاتی قانون آئین کے مطابق نہیں، اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے، جب تک عوام بااختیار نہیں ہوگی، ملک کے بنیادی مسائل حل نہیں ہونگے۔

پی ٹی آئی سندھ کے صدر اور اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ نے کہا کہ اسمبلی میں قواعد کے مطابق ہمیں سندھ حکومت نے جواب نہیں دیا، سندھ حکومت نے چور بازاری سے بل پاس کیا، اسمبلی کا رول 99 کہتا ہے کہ اگر کوئی بل لایا جائے تو اسے اسٹینگ کمیٹی میں بھیجا جاتا ہے، ایک روز قبل واٹس ایپ پر ایجنڈا بھیجا جاتا ہے، اگلے دن ٹیبل پر بھی کوئی ایجنڈا نہیں رکھا گیا، ہمیں بل کا جائزہ لینا تھا، تاکہ ترمیم جمع کرائی جاسکے، قانونی نقطوں کو نظر انداز کیا گیا، ہمیں احتجاج کیلئے اکسایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ علی بابا چالیس چور کا ٹبر ہے، غیر قانونی عمل سے بل کو پاس کرایا گیا، اصل بیماری یہ بلدیاتی ایکٹ ہے، اس ایکٹ میں تمام اختیارات چھین لئے گئے، ٹینکر سے شہر کو پانی ملتا ہے، مگر نلکے سے نہیں۔ حلیم عادل شیخ نے کہا کہ سندھ کے ہسپتالوں میں کتوں کی ویکسین نہیں ہے، 13 سالوں میں 8 ہزار نو سو ارب روپے آئے، خرچ 13 سو ارب ہوئے، آئین کا سیکشن 7 کہتا ہے مقامی حکومت ریاست کا درجہ رکھتا ہے، ڈیولیشن کا مطلب ہے کہ نچلی سطح تک اختیار پہنچے، 2013ء کا ایکٹ آئین کے متصادم ہے، سندھ حکومت خوف پھیلا کر سندھ کے گوٹھوں کو بھی تباہ کرچکی، ایلوپیتھک علاج کرکے پی پی کو سندھ سے نکالیں گے اور زعفرانی نظام سے سندھ کے لوگوں کی جان چھڑائیں گے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماء وسیم اختر نے کہا کہ آج سب لوگ وہی بات کر رہے ہیں، جو میں چار سال قبل کر رہا تھا، میں جیل سے الیکشن جیت کر نکلا تھا، میں 40 ایف آئی آرز کے ساتھ باہر نکلا، پورا کراچی آج میری طرح رو رہا ہے، بحیثیتِ میئر میں نے 4 سال بڑا مشکل عرصہ گزارا، وزیراعلیٰ ملاقات کے لئے لالی پاپ دیتے تھے، نہر خیام وزیراعلیٰ سندھ نے بننے نہیں دی، انہوں نے کچھ کرنا ہوتا تو لاڑکانہ اور نوابشاہ آج بنے ہوئے ہوتے، 1200 ارب روپیہ انہیں 13 سال سے مل رہا ہے، ان سے کوئی پوچھے یہ 12 سو ارب کہاں جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مراد علی شاہ نے کہا ہم منارٹی میں ہیں، ان کے لیڈر نے ایسٹ پاکستان کو مجارٹی میں تبدیل کیا، ناظم آباد نے آپ کو پینٹ پہننا سکھایا ہے، 71ء میں وڈیروں نے رشوت کے پیسوں سے گھر خریدے، پیپلز پارٹی اس شہر اور ملک کی دشمن ہے، 309 ارب سے زیادہ ٹیکس یہ شہر دیتا ہے، باہر ممالک میں تمام اختیارات میئر کے پاس ہوتے ہیں، سیاسی جماعتیں تمام اسٹیک ہولڈر اب ایک پیج پر ہیں۔

ایم کیو ایم کے رہنماء محمد حسین نے کہا کہ آرٹیکل 140 بتاتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کیسے ہونے چاہیئے، پی پی کو کیا علم نہیں کہ بلدیاتی نظام کیسے چلایا جاتا ہے، لاڑکانہ نوڈیرو کے حالات خراب ہیں، نہ وہاں ایم کیو ایم ہے اور نہ پی ٹی آئی، وہاں کے لوگوں کو پی پی کیخلاف نکلنا چاہیئے، کراچی سے خدمت کا ووٹ لیں، تعصب کا نہیں، سپریم کورٹ نے بھی کہا کہ کراچی کا نظام تباہ کر دیا گیا، جب تک لوگ گھروں سے نہیں نکلیں گے، تب تک نظام تبدیل ہونا ناممکن ہے۔ جی ڈی اے کے رہنماء سردار عبد الرحیم نے کہا کہ اگر پی پی سندھ کی جماعت ہوتی تو لاڑکانہ میں کتے کی ویکسین ہوگی، تھرپارکر میں ایسے بچے نہیں مرتے، اس بل سے پورے سندھ کے حقوق سلب کئے جائیں گے، ہم سندھ بھر میں اس بل کے خلاف آپ کے ساتھ ہیں، جی ڈی اے کی پالیسی ہے، متحدہ سندھ مضبوط پاکستان، آرٹیکل 140 کے تحت جمہوریت کے 3 درجے ہیں، تیسرے درجے کو بے توقیر کر دیا گیا، یہ آئینی بحران پیدا کیا گیا ہے، مئیر کو معاشی طور پر بے اختیار کر دیا گیا، سندھ حکومت کی مرضی کے بغیر مئیر ٹیکس اکٹھا نہیں کرسکتا، مئیر کام کیسے کریگا، ہم سندھ بھر میں پی ٹی آئی کا ساتھ دیں گے۔

مسلم لیگ قاف کے رہنماء طارق حسن نے کہا کہ میئر بے اختیار ہوگا تو وہ میئر نہیں، ہمیں یہ جنگ لڑنی پڑے گی۔ مہاجر اتحاد تحریک کے ڈاکٹر سلیم نے کہا کہ اس شہر کے عوام سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز ہیں، یہاں آبادی کا ہی اصل اسٹیک ہے، 70 سالوں میں پی پی نے ایسا کوئی کام نہیں کیا، جس کی وجہ سے انہیں ووٹ دیا جائے، پی پی سے فلاح کی کوئی امید نہیں ہے، پی ٹی آئی کو لوگوں نے ووٹ دیا ہے، پی ٹی آئی کو 3 سال گزر گئے ہیں، عوام ماضی کی حکمرانوں سے مایوس ہوئے اور پی ٹی آئی کو ووٹ ملا، ہم نے اصل وزیراعظم لیاقت علی خان کو دیکھا، قائد اعظم نے کراچی کو دارالخلافہ مقرر کیا، ہم پی ٹی آئی سے مایوسی کے خاتمے کی درخواست کرتے ہیں، سندھ حکومت کا متنازع بل کراچی کو غلام بنانے کی کوشش ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کراچی کے سیکرٹری جنرل علامہ شیخ محمد صادق جعفری نے کہا کہ پیپلز پارٹی بلدیاتی الیکشن کرانا نہیں چاہتی، آئین اور قانون کو پامال کیا جاتا ہے، 2001ء کا نظام بہتر تھا، 2013ء میں ترمیم کی گئی لیکن اس بار جو ترمیم کی گئی، اس میں حد کردی گئی۔

حد یہ ہے کہ موت زندگی کا اختیار بھی سندھ حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے، سندھ پہلا صوبہ ہے، جہاں کام کرنے کی تنخواہ اور نہ کرنے کی رشوت لی جاتی ہے، کراچی میں مصنوعی مہنگائی پیدا کی گئی ہے، مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کیخلاف کارروائی نہیں کی جاتی، ہم پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم رہنماء نے کہا کہ کراچی کے مسائل کراچی کے رہنے والے جانتے ہیں، بلدیاتی حکومت کو بااختیار ہونا چاہیئے، ہم چاہتے ہیں کہ کراچی کا فنڈ کراچی پر خرچ کیا جائے، ہم سب اس ملک کی بقاء کیلئے نکلیں گے، نظام سے متعلق ایک کمیٹی بنائی جائے، جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے لوگوں کی نمائندگی ہو۔ سماجی رکن زبیر فضل نے کہا کہ جو یکجہتی نسلہ کے متاثرین کیساتھ دکھائی گئی، وہ گجرنالہ، سرکلر ریلوے اورنگی نالے کے متاثرین کیساتھ نہیں دکھائی گئی، لیاری ایکسپریس کی تعمیر کے بعد رہائشیوں کو رقم دی گئی، سیاسی جماعتوں کی مرضی کے بغیر قبضے نہیں ہوتے، ہم چاہتے ہیں کہ عام آدمی کی بات کی جائے، چاہتے ہیں کہ بلدیاتی معیاد ختم ہونے کے بعد 3 ماہ میں الیکشن کروائے جائیں۔

آل تاجر اتحاد کے صدر عتیق میر نے کہا کہ کراچی شہر پر حکومت سندھ جن کی طرح چپکی ہوئی ہے، کراچی کیلئے ایک مخلصانہ آواز کی ضرورت ہے، سندھ حکومت چاہتی ہے کہ نہ خود کچھ کرو، نہ کرنے دو، بلدیاتی ایکٹ بندر بانٹ کی وجہ سے تبدیل ہوا، ادارے کو ادارے کے سامنے کھڑا کر دیا گیا، ایک کچرا اٹھانا چاہتا ہے تو دوسرا روک دیتا ہے، آل اسٹیک ہولڈرز کانفرنس کراچی کے عوام کے درد کیلئے بلائی گئی ہے، اگر کراچی کیلئے آواز نہ اٹھائی گئی تو آنے والی نسلیں بھی معاف نہیں کریں گی۔ سائٹ ایسوسی ایشن کے عبدالرشید نے کہا کہ کراچی میگا سٹی ہے، جس کی آبادی صحیح نہیں بتائی جاتی، ہمیں کراچی سے کے پی اور پنجاب میں کاروبار منتقل کرنے کا کہا جاتا ہے، کراچی کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا گیا ہے، ہم اس تحریک میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے قیصر قادری نے کہا کہ سائیں سرکار کو دنیا کے نظام کا علم ہے، ایسا نہیں کہ انہیں کچھ معلوم نہیں ہے، اٹھارویں ترمیم کی آڑ میں کراچی کے ساتھ ناانصافی ہوئی، سائیں سرکار کو بتانا ہے کہ جو جس شہر کا باسی ہے، وہ مسائل حل کرسکتا ہے، سندھ حکومت بتائے کہ بدین، لاڑکانہ، تھر کیلئے کیا کیا، ہمارا ایک پلیٹ فارم پر آواز بلند کرنا ضروری ہے۔

جے یو آئی کے مفتی حماد اللہ نے کہا کہ کراچی وہ شہر ہے، جس نے عزت اور شان دی، لیکن کراچی کو کسی نے کچھ نہیں دیا، ہر سیاسی جماعت اور سماجی تنظیموں سے درخواست کروں گا کہ کراچی کیلئے بہترین اقدامات کریں، ہم اس ملک سے بہت پیار کرتے ہیں، ہمیں پی ٹی آئی کراچی کے مسئلے پر جب آواز دیگی، ہم پی ٹی آئی کے ساتھ یکجا کھڑے ہوں گے۔ نمائندہ کے سی سی آئی اے کیو خلیل نے کہا کہ ملک کی تعمیر و ترقی میں تاجر برادری ریڑھ کی ہڈی ہے، ہم سندھ کو 95 فیصد ریونیو دیتے ہیں، پی ٹی آئی وفاق کی نمائندہ جماعت ہے، کے پی کے اور پنجاب سے آئے لوگوں کو اکسایا جا رہا ہے کہ کراچی سے کاروبار ختم کیا جائے، ٹان ٹیکسز لگائے جاتے ہیں، وہ ٹیکس کہاں خرچ کیا جاتا ہے، ہمارے ساتھ زیادتی کی انتہاء ہو رہی ہے۔ تاجر اتحاد کے رہنماء شرجیل گوپلانی نے کہا کہ ہماری بچیوں کو یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ملتا، ڈالر لینے کے آفیشل شناختی کارڈ جمع کرایا، آفیشل ڈالر خریدنے پر ایف آئی اے کا نوٹس آیا، ہم اس ملک میں ٹیکس دیتے ہیں، ہماری فیکٹریوں کے باہر قبضے ہوئے ہیں، کراچی کے لوگوں کیساتھ ناروا سلوک نہیں کیا جا رہا ہے، درخواست کروں گا کہ ایف آئی اے کو لگام دی جائے۔ بوہرا کمیونٹی کے یوسف خان نے کہا کہ بلدیاتی قانون کے ذریعے بلدیاتی نظام کو بااختیار بنایا جائے، کراچی شہر کیلئے تحریک انصاف جو اقدامات اٹھا رہی ہے، ہم ساتھ ہیں، بلدیاتی مسائل ہر گھر کا مسئلہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 968175
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
یہ سب چور ہیں۔
Pakistan
سب سے پہلے تو ان سے یہ پوچھا جائے کہ کراچی کا امن کونسے سال سے تباہ ہونا شروع ہوا۔ وہ کونسی لسانی سیاسی جماعتیں تھیں، جنہوں نے چند جائز شکایات کو بنیاد بنا کر مظلوم لوگوں کی ہمدردی سمیٹی اور بعد ازاں اسی مظلوم عوام اور اس مظلوم شہر پر غیروں سے زیادہ مظالم ڈھائے۔
کراچی کے بڑے صنعتکار یا کاروباری شخصیات کراچی سے سرمایہ فیصل آباد منتقل کرنے پر مجبور ہوئیں۔
یہ کراچی کے اردو زبان یا دیگر مہاجرین پر مظالم ڈھانے والوں میں پہلا نمبر ایم کیو ایم ہی کا ہے، خواہ آج یہ کتنے ہی نئے عنوانات یا گروہ کی صورت میں سیاست کر رہی ہیں۔ کیا الطاف، کیا آفاق اور کیا مصطفیٰ کمال۔ بلدیہ ٹائون فیکٹری میں آگ لگانے والے کون؟؟
پی ٹی آئی کا چیئرمین موجودہ وزیراعظم یہ تو خود ان کے خلاف موقف رکھا کرتا تھا، اب یو ٹرن لے چکا ہے۔ جھوٹ بول کر عوام کو بے وقوف بنانا یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیئے۔
کراچی کے مسائل کی بنیادی ذمے داری انہی پر ہے، جو کراچی کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ہیں۔
یہ بلدیاتی صوبائی وفاقی تینوں حکومتوں میں اقتدار میں پی پی پی سے زیادہ مدت اقتدار میں رہے ہیں۔
وزیراعظم بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا گیا، بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا، جبکہ الطاف پارٹی کو این آر او دیا گیا۔ کہنے کی حد تک دیگر نام بھی تھے، لیکن آج تک دیگر مقدمات میں پیشیاں بھگت رہے ہیں اور ایم کیو ایم وفاقی حکومت کے ساتھ شریک اقتدار یے۔ مشرف کے ساتھ بھی وفاق میں شریک اقتدار تھی، پی پی کے ساتھ بھی اور تاحال۔
مصطفیٰ کمال کبھی تبلیغی جماعت کے چلے پر ہوتا ہے اور کبھی لسانیت کی سیاست پر۔ یہ کونسا چلن ہے؟؟
کراچی نے ایم کیو ایم کے حصے کا مینڈیٹ پی ٹی آئی کو دے دیا ہے اور یہ پی ٹی آئی کے ساتھی اور اتحادی ہیں تو اب کیا پرابلم ہے؟! مشرف سے پہلے کا بلدیاتی نظام جنرل ضیاء کے دور سے نافذ رہا۔ مشرف کے بعد وہی جنرل ضیاء والا ہی انتظام ہے۔ ٹائون کی جگہ اضلاع، الطاف کی ایم کیو ایم کیا ضلع شرقی، غربی، وسطی، جنوبی والے کراچی ڈویژن میں جنم لینے والی جماعت نہیں ہے کیا؟؟ بلا وجہ عوام کو نفرت پر کیوں اکسا رہے ہیں۔
ہماری پیشکش