1
0
Tuesday 14 Dec 2021 19:05

دہشتگرد اب بچوں کو پڑھائیں گے؟؟

دہشتگرد اب بچوں کو پڑھائیں گے؟؟
تحریر: ابو فجر لاہوری

راقم نے گذشتہ ماہ چھبیس نومبر کو "اسلام ٹائمز" پر کالم بعنوان "کالعدم سپاہ صحابہ اور تحریک لبیک کا سیاسی اتحاد، خفیہ ہاتھ کی نئی سازش؟" لکھا تھا۔ کالم میں راقم نے جس سازش کو بے نقاب کیا تھا، اس کی تصدیق سپیکر پنجاب اسمبلی اور کالعدم سپاہ صحابہ کے سہولت کار چودھری پرویز الہیٰ نے کر دی۔ راقم نے لکھا تھا کہ "خاکم بدہن کہ مستقبل میں پاکستان میں ایک خون ریز موسم دکھائی دے رہا ہے۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے ایک اکلوتے ایم پی اے نے جتنا کام کیا ہے، وہ بڑی بڑی سیاسی جماعتیں بھی نہیں کرسکیں۔ یکساں قومی نصاب کے نام پر ایک ایسا نصاب ملک میں نافذ کر دیا گیا ہے، جس میں بنو اُمیہ کو ہی "اسلام کے وارث" بنا کر پیش کیا گیا ہے، جبکہ اسلام کے حقیقی رہنماوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ اب اسی مشن کے تحت معاویہ اعظم کے ہی اصرار پر تعلیمی اداروں میں قرآن مجید کی لازمی تعلیم کا بل پاس کروا کر یہ نظام بھی نافذ کر دیا گیا ہے۔ اب اس نظام کی آڑ میں کالعدم جماعتوں کے تمام کارکنوں کو سکولوں میں بطور "قاری" بھرتی کروایا جائے گا۔

کالعدم جماعتوں کے یہ ارکان بطور قاری اساتذہ کے سٹیٹس میں ہوں گے اور سکولوں میں جو تعلیم دیں گے، اس میں فرقہ واریت اور تعصب کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔ یہ قاری حضرات جو نفرت بچوں کے اذہان میں پیدا کریں گے، اس کے نتائج انتہائی بھیانک ہوں گے۔ پوری نسل کو فکری طور پر منتشر کر دیا جائے گا اور ایسی منتشر الذہن قوم معرض وجود میں آئے گی، جو صرف اور صرف لڑائی جھگڑے کے سوا اور کچھ نہیں کرے گی۔ کچھ لبرل مفکرین نے سکولون میں قرآن کی تعلیم کی اس سازش کو بے نقاب بھی کیا تھا، لیکن ان پر فتوے لگا دیئے گئے کہ یہ تو قرآن کے دشمن ہیں، یہ اسلام کے دشمن ہیں۔ حالانکہ پرویز ہود بھائی جیسے لوگوں نے اس سازش کا ادراک کرتے ہوئے ہی اس کی مخالفت کی تھی۔ آج اس سازش کے مختلف پہلو سامنے آرہے ہیں۔ اب معاویہ اعظم اور ٹی ایل پی کا اتحاد ملک کے امن کیلئے کیا نتائج دے گا، اس کا منظرنامہ بھی بہت جلد سامنے آجائے گا۔ تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو، کیونکہ یہ تو اقتدار میں آرہے ہیں اور جو ان میں سے نہیں، وہ اپنی بقاء کیلئے سوچیں۔"

اس سازش کی تصدیق کرتے ہوئے سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الہیٰ نے دنیا نیوز کے کے پروگرام "نقطہ نظر" میں مجیب الرحمان شامی سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں قرآن کی تعلیم کیلئے الگ سے اساتذہ بھرتی کئے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ سکولوں میں قرآن کی تعلیم کو مانیٹر کیا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ سکولوں میں قرآن کی تعلیم دی جا رہی ہے یا نہیں۔" چودھری پرویز الہیٰ اور ان کیساتھ ان کی جماعت مسلم لیگ قاف کے کچھ ارکان، کالعدم سپاہ صحابہ کے ایم پی اے معاویہ اعظم کیساتھ مل کر مشترکہ طور پر تکفیری ایجنڈے کو نافذ کرنے میں مصروف ہیں۔ ان کی سرگرمیاں انتہائی مشکوک ہیں، یہ لابی پنجاب میں ایسے قانون نافذ کرتی جا رہی ہے، جس کے مستقبل میں بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ اس حوالے سے غیر جانبدار اداروں، علماء کرام اور زعمائے ملت کی ذمہ داری ہے کہ ان قوانین پر نظر رکھیں اور ان کے نفاذ کی کوششیں ناکام بنائیں۔ بالخصوص پنجاب میں ملت جعفریہ کیلئے ایسی ایسی رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں کہ وہ ترقی میں آگے نہیں بڑھ سکے گی۔

جس طرح سابق صدر ضیاء الحق نے دیوبندی مسلک کیلئے محکمہ اوقاف کی تمام مساجد کے دروازے کھول دیئے تھے کہ دیوبندی ہی خطیب تعینات ہوسکتا ہے اور وہ قانون تاحال نافذ ہے، اس کے اثرات یہ ہوئے کہ دیوبندی علماء دینی مدارس سے فارغ ہوتے ہی کسی نہ کسی سرکاری مسجد میں سرکاری ملازم (خطیب، امام) بھرتی ہو جاتے ہیں، اس پالیسی سے شدت پسند دیوبندیوں نے فائدہ اُٹھایا اور سن اسّی کی دہائی میں انہی خطیبوں کو کالعدم سپاہ صحابہ کے مفادات کیلئے استعمال کیا گیا اور جو خطیب سپاہ صحابہ کے آلہ کار بننے سے انکار کر دیتے تھے، انہیں قتل کرکے الزام مخالف فرقہ پر دھر دیا جاتا تھا۔ اب ایک بار پھر معاویہ اعظم وہی ضیائی پالیسی لئے میدان میں اُترا ہوا ہے۔ راقم نے اپنے پہلے کالم میں اسی سازش کو بے نقاب کیا کہ اب شدت پسند افراد اور متنازع مولویوں کو سرکاری سکول میں بھرتی کیا جائے گا۔ اس سے بچوں میں شدت پسندی بڑھے گی، ظاہر ہے کہ یہ مولوی بچوں کو جو تعلیم دیں گے، اس میں مخالفین کیلئے نفرت ہی سکھائی جائے گی اور یہ سب کچھ اسلام و قرآن کے نام پر کیا جا رہا ہے۔

شیعہ اور سنی مکاتب فکر کے علماء کو سوچنا ہوگا کہ یہ وہیں قبیلہ ہے، جنہوں نے حضرت علیؑ کیساتھ جنگوں میں قرآن نیزے پر بلند کرکے دھوکہ دیا تھا اور آج اسی فکر والے قرآن کی تعلیم کی آڑ میں دھوکہ دینے کیلئے میدان میں آگئے ہیں۔ ان کی اس سازش کا ادراک کرتے ہوئے انہیں نہ روکا گیا تو ہمارے تعلیمی ادارے میدان جنگ بن جائیں گے۔ بچوں میں نفرت کی یہ فصل ہمیں ایسے ہی کاٹنی پڑے گی، جس طرح ضیاء الحق کے نام نہاد مجاہدین نے پاکستان میں امن و امان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ ہمارا ملک اب کسی بھی خانہ جنگی کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس لئے شیعہ سنی علماء و زعما اس سازش کا ادارک کرتے ہوئے اس کا سدباب کریں۔ اس کا ایک حل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن کی تعلیم دینے والے اساتذہ کا کوٹہ مقرر کیا جائے، جس میں شیعہ، سنی اور دیوبندی مسالک کے افراد کا کوٹہ ہو۔ اس سے یہ ہو گا کہ صرف ایک مکتب فکر کے استاد بھرتی نہیں ہوں گے، بلکہ دیگر مسالک کے علماء کو بھی موقع ملے گا۔ اس حوالے سے ذمہ داران کو سوچنا ہوگا۔ بصورت دیگر ملک نئی فرقہ وارانہ جنگ کیلئے تیار ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 968515
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

الطاف حسین
Iran, Islamic Republic of
1996ء کے دوران مجھے طالب علمی کا زمانه یاد آیا، جب ایک قاری نما شخص کبھی کبھی ہماری کلاس لینے آتا تھا اور دو بار اس نے نعوذ بالله، امام علی (ع) اور امام زمانه (ع) کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ جب اس سے پوچھا که کہاں سے یہ باتیں لے کر آتے ہو تو بھانه بنانے لگا کہ خود شیعہ کی کتاب میں پڑھی ہیں۔ خدا کی لعنت ہو ان ملاعین پر۔
ہماری پیشکش