1
Wednesday 15 Dec 2021 22:30

بلتستان کے قابل ِتقلید حوالے 

بلتستان کے قابل ِتقلید حوالے 
تحریر: مہر عدنان حیدر

میں ایک عرصے تک اپنی تقاریر میں پڑھتا تھا کہ تمام حمد اس رب ذوالجلال کے لیے، جس نے پھولوں کو مہک، چڑیوں کو چہک، شبنم کو تازگی، آبشاروں کو ترنم، شگوفوں کو گوداز، صحراؤں کو وسعت، دریاؤں کو گہرائی، پہاڑوں کو بلندی، ہواؤں کو رمز، شفق کو سرخی، ذروں کو چمک، ہیروں کو دھمک، باد صبا کو ٹھنڈک اور ہمیں در آل محمد ؑ جیسا کامل اکمل نمونہ ِنجات عطا فرمایا، مگر میں یہ تمام تشبیہات اور استعارات کو فقط پڑھتا تھا، نہ میں نے کبھی صحراؤں کی وسعت، پہاڑوں کی بلندی اور آبشاروں کا ترنم سنا تھا اور نہ ہی دیکھا تھا۔ مگر اب جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو میں یہ سب کچھ خدا کی قدرت سے دیکھ چکا ہوں اور اپنے محسوسات سے محسوس بھی کرچکا ہوں۔ یقیناً پڑھنے والوں کو اضطراب ہوگا کہ آیا کوئی ایسی جگہ بھی ہے، جہاں یہ سب کچھ ایک ساتھ پایا جاتا ہے۔؟

جی ہاں یہ تمام چیزیں بلتستان میں پائی جاتی ہیں۔ یہاں یہ وضاحت بھی کر دوں کہ میں یہاں گلگت کا ذکر بلتستان کے ساتھ اس لیے نہیں کر رہا کہ دونوں خطوں میں معمولی مماثلت تو ہے، مگر تہذیبی طور پر دونوں مختلف ہیں اور میرا موضوع بلتستان کی تہذیب ہے۔ بلتستان ایک ایسا پیارا خطہ ہے، جو قرآن مبین کی بعض آیات کی تفسیر ہے۔ خصوصاً جب لوگ حضرت محمد عربیؐ سے دریافت کرتے تھے کہ ہم مرنے کے بعد دوبارہ کس طرح زندہ ہوں گے تو جو جواب خدا نے کلام مبین میں دیا ہے، وہ یہ ہے کہ ان کی تخلیق سے بڑا کام کائنات کی تخلیق کا ہے اور وہ بھی منظم کائنات۔ ایک ایسی کائنات جس میں کوئی بے ترتیبی نہیں پائی جاتی۔ یقیناً اگر آپ کا بلتستان جانا ہو تو آپ کے پاس محسوس کرنے والی آنکھیں لازمی ہوں، کیونکہ آپ وہاں دعویٰ خالق کی حقیقت کا مشاہدہ کریں گے کہ انسان کی تخلیق سے بڑا کام کائنات کی تخلیق ہے۔

خصوصاً آبشاروں کی تخلیق اور پہاڑوں کی تخلیق ہے، جو انسان کی نظر سے بھی بلند ہیں۔ ان کے مقابلے میں انسان تو بس معمولی سی چیز ہے۔ خیر اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں کہ بلتستان ایک ایسا خطہ ہے، جہاں کے تہذیب و تمدن میں لوگوں کا خلوص قابل تقلید ہے۔ یقیناً جب آپ بلتستان جائیں گے تو آپ کو یہ فرق کرنا مشکل ہوگا کہ یہ علاقہ بہت خوبصورت ہے یا یہاں کے پُرخلوص لوگ زیادہ خوبصورت ہیں۔ خصوصاً جو خلوص یہاں پایا جاتا ہے، وہ کم از کم پاکستان میں اور کہیں بھی نہیں ملتا۔ لکھنے کو بلتستان کے لوگوں، بلتسان کی تہذیب پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے، مگر میں یہاں چند چیزیں جو ہمارے لیے نمونہ عمل بن سکتی ہیں، تحریر کر رہا ہوں۔ جس کا مقصد وہاں کے لوگوں کو خراج تحسین اور یہاں کے لوگوں کو باوقار تہذیب  سے روشناس کرانا ہے۔

اصول پرستی
کسی بھی معاشرے میں اصولوں پر عمل درآمد ہونا اس معاشرے کی بقاء کے لیے لازم ہوتا ہے۔ کوئی بھی مہذب معاشرہ اصولوں کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا، گویا ہر معاشرے کے کچھ نہ کچھ اصول ہوتے ہیں، جو وہاں کے لوگوں کے بارے میں نشاندہی کرتے ہیں کہ یہاں کے لوگ کس قسم کے ہیں، بلتستان کے بارے میں ویسے تو بہت کچھ سنا تھا، مگر میں یہاں وہی بیان کروں گا، جو میں نے خود دیکھا۔ "یہ عصر کا وقت تھا اور میں اسکردو  شہر میں قتل گاہ کے قریب قلعہ کا وزٹ کرکے واپس آیا تو دیکھا کہ بہت سے لوگ آپس میں اونچی آواز میں بات کر رہے ہیں۔ خیر میں بھی ان میں جاکر اجازت لے کر بیٹھ گیا۔ اس وقت تو مجھے معلوم نہ ہوا کہ مسئلہ کیا ہے، کیونکہ وہ بلتی زبان بول رہے تھے، مگر بعد میں جب میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ بھائی کیا مسئلہ ہوا ہے تو اس نے بتایا کہ یہ مارکیٹ کمیٹی کے افراد ہیں اور فلاں دکان دار کا جمعہ والے دن دوکان کا شٹر کھلا ہوا تھا، جس پر کمیٹی والے برہم ہیں۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ لوگ کبھی پنجاب کا چکر لگائیں تو ان کو معلوم ہوگا کہ یہاں بھی اعلیٰ درجے کے مسلمان بستے ہیں۔ خیر یہاں کے لوگوں میں خلوص اور مروت عام ملتی ہے۔ یہاں کا اجنبی بھی اپنا محسوس ہوتا ہے۔ اس معاشرے میں  دھوکہ دہی کا نام و نشان نہیں ہے۔

قابل تقلید اعلیٰ اقدار
ویسے شادی کی بنیادی رسومات تو تقریباً ایک سی ہیں، مگر جو رسومات پاکستان میں رائج ہیں، وہ اس قدر بھیانک ہیں کہ ان کو پورا کرتے ہوئے والدین کی زندگی ختم ہو جاتی ہے، پھر بھی لوگوں کی زبانیں بند نہیں ہوتیں۔ پاکستان میں عام طور پر شادی 30 سے 35 سال کی عمر میں کی جاتی ہے اور اگر خوش قسمتی سے کسی کی شادی 30 سال سے پہلے ہو جائے تو یہ ایک قسم کا کارنامہ سمجھا جاتا ہے، جبکہ بلتستان میں بالغ بچوں کو والدین مجبور کرتے ہیں، وہ جلد سے جلد شادی کریں۔ بلتستان وہ واحد سرزمین ہے، جہاں کاسٹ سسٹم یعنی برادری ازم نہ ہونے کے برابر ہے اور شادی عین شرعی اور دینی طریقے سے انجام پاتی ہے۔ یہاں 25 سال کے لڑکے کے لیے لازم ہے کہ وہ شادی شدہ ہو۔ والدین اس حوالے سے بڑے سخت نظر آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہاں خاندان کا سارا پس منظر بھی نظر آتا ہے۔ خاندان والے سب مل کر رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خطہ اخلاقی طور پر باکمال خصوصیات رکھتا ہے۔

بلتستان کی خوبصورتی
یہ ایک الگ موضوع ہے کہ یہاں کی تخلیقات کو دیکھ کر خالق کے حسین ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ جس طرح آپ ایک تخلیق سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس کا خالق یعنی تخلیق کار مصور کس طرح کا ہوگا، بالکل اسی طرح آپ آبشاروں کے ترنم، خوبصورت چشموں، بہتی ندیوں اور بے شمار پھولوں سے مزین وادیوں، آسمان سے گرتی ہوئی  برف اور اس برف سے درختوں سے گرتی ہوئی بوندوں سے خدا کی قدرت کا اندازہ کرسکتے ہیں۔ یہی نہیں یہاں کا موسم خزاں اور درختوں سے گرتے ہوئے پتے بھی محسوسات رکھنے والی آنکھوں کے لیے لطافت کا سبب رکھتے ہیں اور بہار کے موسم کا کیا تذکرہ کرنا کہ جب شجر اپنے کپڑے بدل رہے ہوں اور پھولوں سے پھل بننے کا عمل جاری ہو، گویا بلتستان جنت کی تخیلاتی صورت کا نام ہے۔

بلتستان کی تہذیب اور ثقافت
ثقافت اور تہذیب ہر قوم کو پیاری ہوتی ہے، اگر وہ اعلیٰ اقدار پر مشتمل ہو۔ بلتستان کی تہذیب بھی ان تہذیبوں میں شامل ہے، جو اعلٰی اقدار پر مشتمل ہیں۔ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی مقام پر لکھا ہوا پڑھا کہ "پردہ ہماری تہذیب کا حصہ ہے اور یہاں پر آنے والا ہماری تہذیب کی پاسداری کرے۔" یہ جملہ واقعی ایک اعلیٰ، بلند اور روشن فکر قوم کی عکاسی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر احترام اور تعظیم ہمیں عام طور پر زیادہ نظر آتی ہے۔ اگر آپ کا بلتستان جانا ہو تو آپ وہاں پر بزرگوں کو خوش حال پائیں گے، بنسبت پاکستان کے کہ ہمارے ہاں بزرگ فقط حسرت و یاس کی  علامت بنے ہوئے ہیں۔

امام حسین (ع) سے محبت
عزاداری امام حسین ہر زندہ ضمیر قوم کی حیات ہے اور ہر قوم عزائے حسین سے وہ طرز حیات لے سکتی ہے، جس سے انسان عزت سے زندگی جی سکتا ہے۔ بعض اوقات افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم عزاداری تو کر رہے ہیں مگر مقصد عزا نہ ہونے کے برابر ہے، یعنی کہ ہماری عزاداری ِحسینؑ میں روح نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہاں  ذاکروں کے ریٹ فکس نہیں ہوتے، بلکہ ہر دوسرا شخص عزادار ہے یا پھر ذاکر ہے۔ بلتیوں کا امام حسینؑ سے عقیدت کا یہ عالم ہے کہ یہ لوگ اپنی خوشیوں میں بھی خانوادہ اہلبیت کا غم مناتے ہے۔ سوز خوانی کا ایسا سلسلہ ہے، جس میں عقیدت حیات زندہ نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قوم ایک زندہ ضمیر قوم ہے۔

بلتستان کے مسائل
عام طور پر ہم مسائل میں بجلی، سڑکوں اور مہنگائی وغیرہ کو گنتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسائل کی عارضی قسم ہے۔ بلتستان میں بھی یہ مسائل پائے جاتے ہیں، مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت کو اب ان کی محرومیوں کا خیال آگیا ہے اور ان مسائل کو سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔ یہاں ایئرپورٹ بھی بن چکا ہے، جس سے لازمی طور پر بلتستان میں ترقی ہو رہی ہے۔ مگر سب سے بڑے مسائل جو بلتستان کو درپیش ہیں، وہ یہ ہیں کہ یہاں نئے لوگ آباد ہو رہے ہیں، جو یہاں کی تہذیب اور روایات سے نابلد ہیں، جس سے یہ خطرات بھی پیدا ہو رہے ہیں کہ بلتستان کی تہذیب میں تغیر اور تبدل پیدا ہوگا، جس کے بڑے بُرے اثرات مرتب ہوں گے اور دوسرا سب سے بڑا مسئلہ یہاں پر سیاست کی وجہ سے لوگوں کا تقسیم ہونا ہے، کیونکہ یہ خطہ پہلے امن، پیار اور محبت میں مشہور ہوا کرتا تھا، مگر جب سے سیاستدانوں نے یہاں قدم رکھا ہے، بلتستان کے لوگ بھی تقسیم ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ جس سے یہاں نفرت پیدا ہو رہی ہے۔ آخر میں، میں بلتستان کے دوستوں کا ممنون ہوں، جنہوں نے مجھے پیار اور محبت دیا۔
خبر کا کوڈ : 968688
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش