1
Thursday 16 Dec 2021 20:56

خطے میں امریکی اتحادیوں کا ایران کی جانب جھکاو

خطے میں امریکی اتحادیوں کا ایران کی جانب جھکاو
تحریر: علی احمدی
 
افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء نے کافی چیزیں تبدیل کر دی ہیں اور مزید کافی چیزیں تبدیل ہو جائیں گی۔ دس دن پہلے متحدہ عرب امارات کے قومی سلامتی کے مشیر نے ایران کا دورہ کیا اور اب سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے خلیج تعاون کونسل کے اجلاس کے بعد ایران سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ خواہش خلیج تعاون کونسل کے تمام رکن ممالک کی مشترکہ خواہش بنتی جا رہی ہے۔ گذشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات کے فرمانروا کے سفارتی مشیر انور قرقاش نے اس بات کی تصدیق کی کہ اماراتی حکومت نے امریکہ کی درخواست پر ملک میں چین کی تنصیبات کی تعمیر روک دی ہے۔ یہ تنصیبات درحقیقت چین کا ایک خفیہ فوجی اڈہ تھا جس کی تعمیر امریکی دباو کے نتیجے میں تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔
 
متحدہ عرب امارات کی قومی سلامتی کے مشیر شیخ طحنون بن زاید کے دورہ ایران کے ساتھ ہی اس ملک میں چین کی فوجی تنصیبات کی تعمیر روک دیے جانے پر مبنی خبر کا شائع ہونا ظاہر کرتا ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے تقریباً ساڑھے تین ماہ بعد خطے میں گہری تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ خاص طور پر یہ کہ حال ہی میں امریکہ کے معروف اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے بعض باخبر ذرائع کے بقول لکھا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے امریکہ کو ایف 35 جنگی طیارے، ڈرون طیارے اور دیگر فوجی سازوسامان کی خرید پر مبنی 23 ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ منسوخ کر دینے کی دھمکی دی ہے۔ کل ہی متحدہ عرب امارات کے حکام نے اس خبر کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ اتحادی ممالک خطے میں امریکہ کے کردار کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو چکے ہیں۔
 
اب سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان کے حالیہ موقف نے امریکہ پر اس کے اتحادی ممالک کے ختم ہوتے اعتماد کو مزید عیاں کر دیا ہے۔ فیصل بن فرحان نے منگل کے روز اس بات کی تصدیق کی کہ خلیج تعاون کونسل کے حالیہ اجلاس میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ ایران کے بارے میں بھی گفتگو انجام پائی ہے۔ انہوں نے سعودی عرب کی جانب سے ایران کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی خواہش کی خبر دیتے ہوئے کہا: "ہم تہران کی جانب سے تعاون کے منتظر ہیں۔ ہم ویانا مذاکرات کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔" یہ موقف خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے سربراہان کی جانب سے جاری کردہ بیانیے میں بھی دہرایا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خلیج تعاون کونسل خطے میں امریکہ کی غیر موجودگی میں اپنی سکیورٹی کو یقینی بنانے کیلئے متبادل راہ حل تلاش کرنے میں مصروف ہے۔
 
سعودی حکومت نے کئی ماہ پہلے سے ایران کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات شروع کر کے اس کام کا آغاز کر دیا تھا جبکہ متحدہ عرب امارات کے حکام بھی اسی سمت میں قدم بڑھا رہے ہیں۔ منگل کے دن خبرساں ادارے رویٹرز نے امریکہ کی جانب سے مشرق وسطی خطے میں اپنا کردار کم کر دینے کے باعث پیدا ہونے والے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "متحدہ عرب امارات ایک ہی وقت میں اتحادی سپر پاور کے طور پر واشنگٹن، نئے دوست کے طور پر اسرائیل اور پرانے حریف کے طور پر ایران کے ساتھ اعلی سطحی سفارتی تعلقات برقرار کرنے کیلئے کوشاں ہے۔" اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے: "ابوظہبی علاقائی سطح پر بھاری اخراجات کے ہمراہ فوجی ٹکراو سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے کیونکہ ایسی صورت میں اس کی تجارتی اور سیاحتی جاہ طلبی کو بھی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔"
 
خطے کے تبدیل ہوتے حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران سے خوشگوار تعلقات استوار کرنے کی خواہش صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تک محدود نہیں ہے۔ مصر کے سفارتکاروں نے اخبار العربی الجدید سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حال ہی میں سعودی عرب کی درخواست پر خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک اور مصر کے درمیان گفتگو اور مذاکرات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے جس کا مقصد علاقائی طاقتوں کے بارے میں ان ممالک اور مصر کے نقطہ نظرات میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔ ان علاقائی طاقتوں میں سرفہرست ترکی اور ایران قرار پائے ہیں۔ یہ دو ملک خطے میں بعض عرب ممالک کے حریف طاقتیں شمار کئے جاتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نہ صرف انقرہ اور تہران بلکہ مصر سے بھی قربتیں بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
 
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے بھی اپنے ایک کالم میں لکھا ہے: "ایران سے خوف اور مشرق وسطی میں امریکہ کے کردار میں کمی اس بات کا باعث بنے ہیں کہ حریف طاقتیں ایکدوسرے کے قریب آنے لگیں۔" کالم میں مزید کہا گیا ہے: "مشرق وسطی کے ممالک کے سفارتکار کہتے ہیں کہ افغانستان سے امریکہ کا اچانک فوجی انخلاء اور اس کی خارجہ پالیسی چین کی جانب مڑ جانے کے باعث وہ خطے میں اپنے ان حریف ممالک سے گفتگو کر رہے ہیں جن سے سالوں دور رہے ہیں اور اس کی وجہ خطے میں درپیش مسائل میں جو بائیڈن کی مدد پر عدم اعتماد ہے۔" وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق قطر ترکی اور سعودی عرب کے سربراہان مملکت کے درمیان ملاقات انجام دینے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔
خبر کا کوڈ : 968834
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش