0
Saturday 18 Dec 2021 12:45

سعودی عرب میں انقلاب

سعودی عرب میں انقلاب
تحریر: تصور حسین شہزاد

سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان نے اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شاہ سلمان کو مکمل طور پر غیر فعال کر دیا گیا ہے، بعض غیر مصدقہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ محمد بن سلمان نے والد کو قید میں ڈال دیا ہے اور خود ہی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز کی ریاض میں کسی غیر ملکی عہدیدار کیساتھ آخری ملاقات مارچ 2020ء میں ہوئی تھی، جبکہ ان کا آخری بیرون ملک کا سفر جنوری 2020ء میں سلطان قابوس کی موت پر تعزیت کیلئے عمان کا دورہ تھا۔ سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز 86 برس کے ہیں۔ وہ سعودی عرب میں حالیہ اصلاحات کے بھی خلاف ہیں، جبکہ اس وقت ریاست میں اصلاحات کے ذریعے تیزی سے تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں اور خطے میں بھی حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں 36 سالہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان صدارتی اجلاسوں، عالمی وفود اور معززین کے استقبال سمیت مملکت کے تمام کاموں کی انجام دہی اپنے ہاتھوں میں لے چکے ہیں۔

اگرچہ شہزادہ محمد جون 2017ء میں تخت کے وارث کے طور پر اپنی تقرری کے بعد سے ہی ڈی فیکٹو لیڈر تصور کیے جاتے ہیں، لیکن رواں ماہ کے اوائل میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون سے ملاقات اور خلیج تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس کی قیادت نے ان کے عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے۔ سعودی حکام شاہ سلمان کی اہم مواقعوں پر عدم موجودگی اور غیر حاضری کی وجہ تو نہیں بتا رہے، البتہ وضاحتیں دیتے ہوئے یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز خیریت سے ہیں، تاہم وہ معاملے کی نزاکت کے پیش نظر احتیاط برت رہے ہیں۔ سعودی حکام کی جانب سے شاہ سلمان کی عدم موجودگی کا جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ ماسک پہننے میں بے چینی محسوس کرتے ہیں اور لوگوں سے ہاتھ ملانے اور گرمجوشی سے سلام کرنے کا رجحان رکھتے ہیں، اس لیے انہیں کورونا وبا سے محفوظ رکھنے کیلئے اضافی احتیاط برتی جا رہی ہے۔ کہتے ہیں جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے۔ محمد بن سلمان نے نہ صرف اپنے والد بلکہ اور بہت سے سعودی شہزادوں کو قید میں ڈال رکھا ہے۔ جو بھی ان کے اقتدار کیخلاف آواز اٹھاتا ہے، خواہ وہ اقتدار کی غلام گردشوں سے تعلق رکھنے والا  ہے یا عالم ہے، اس کے مقدر میں قید لکھ دی جاتی ہے۔

کچھ ذرائع نے تو یہ بھی بتایا ہے کہ محمد بن سلمان کی سکیورٹی پر موساد کے اہلکار تعینات ہیں اور رموز سلطنت چلانے کیلئے ان کو مکمل مشاورت بھی موساد کی جانب سے ہی فراہم کی جا رہی ہے۔ وہ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں، اس میں موساد کی رائے لازمی جزو کے طور پر شامل ہوتی ہے۔ حالیہ شاہ سلمان کی قید بھی اسی سلسلہ کی کڑی سمجھی جا رہی ہے۔ محمد بن سلمان وہی ہیں، جنہوں نے صرف تنقید کرنے پر سعودی صحافی جمال خاشقجی کو ترکی میں قتل کروا دیا تھا۔ اس واقعہ نے پوری دنیا میں ان کی اصلیت کو بے نقاب کر دیا تھا، لیکن سعودی عرب میں میڈیا آزاد نہ ہونے سے ان کیخلاف کوئی بھی آواز سامنے نہیں آتی۔ کوئی عالم دین ان کے اقدامات کو ہدفِ نتقید بنائے تو چند لمحوں میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا ہے۔ سعودی حکام بھی اپنی ’’نوکری‘‘ بچانے کیلئے ایم بی ایس کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں۔

موساد کا جاسوسی نیٹ ورک پورے سعودی عرب میں موجود ہے۔ جس کے ذریعے پَل پَل کی خبریں محمد بن سلمان کو دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی بغاوت پنپنے سے پہلے ہی کچل دی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں ’’نیوم سٹی‘‘ کا قیام، فحش رقص و سرود کی محافل، سینماز، جوا خانے، فحاشی و عریانی کے نئے مراکز، یہ ساری چیزیں اسلام کے تو خلاف ہیں ہی، مگر ایم بی ایس انہیں جدیدیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ یہ ساری چیزیں موجود ہوں گی تو دنیا سعودی عرب کی جانب راغب ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ گستاخ رسول ملک فرانس کے صدر کو سعودی عرب بلا کر اعزاز سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ محمد بن سلمان اسرائیل کیلئے بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی پروازوں کو سعودی عرب سے گرزنے کی اجازت دینا، اس بات کی غمازی ہے کہ وہ اسرائیل کو جلد ہی تسلیم کر لیں گے۔ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کو مغربی رنگ میں رنگنے کی متعدد پالیسیاں جاری کی ہیں، جن سے شاہ سلمان نالاں تھے۔ خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا، اظہار رائے پر مکمل اور سخت پابندی، غیر ملکی بالخصوص مغربی ممالک کے سیاحوں کیلئے ویزے کی شرائط میں تبدیلی اور نرمیاں سمیت دیگر معاملات قابل ذکر ہیں۔

محمد بن سلمان کے ان اقدامات کیخلاف اُمت مسلمہ میں بھی تشویش پائی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بھی علماء کرام ایم بی ایس کے ان اقدامات کی مذمت کر رہے ہیں، جبکہ سعودی عرب کے نمک خوار ابھی تک خاموش ہیں کہ وہ کس طرح مذکورہ غیر اسلامی اقدامات کی مذمت کریں۔ ان کیلئے ایم بی ایس کے یہ اقدامات سانپ کے منہ میں چھپکلی کی طرح ہیں، نہ نگل سکتے ہیں اور نہ اُگل سکتے ہیں۔ وہ شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ حمایت کریں تو دینی اقدار پر زد پڑتی ہے، اور مخالفت کریں تو خرچہ پانی بند ہونے کا خطرہ ہے۔ بہرحال، زمینی حقائق یہ ہیں کہ سعودی عرب میں بادشاہت کا تاج ایک ایسے شخص نے زبردستی اپنے سر سجا لیا ہے، جو نہ صرف آل سعود بلکہ اسلام کیلئے بھی خطرہ ہے۔ محمد بن سلمان کے یہ اقدامات اس جانب اشارہ ہیں کہ سعودی عرب میں بہت جلد انقلاب اٹھنے کو ہے، جو اس سارے منظر نامے کو ملیا میٹ کرکے سعودی عرب کو دوبارہ اس کا اسلامی تشخص لوٹا دے گا اور وہ دن بہت قریب ہے، کعبے میں بہت جلد مجاہد کی اذان آنیوالی ہے۔
خبر کا کوڈ : 969058
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش