1
Sunday 19 Dec 2021 19:45

یمن جنگ اور ظالمانہ عالمی نظام

یمن جنگ اور ظالمانہ عالمی نظام
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی
 
26 مارچ 2015ء کے دن عالمی طاقتوں کے حمایت یافتہ سعودی اتحاد کی جانب سے یمن کے خلاف شروع کی جانے والی فوجی جارحیت اب تک جاری ہے۔ یہ جنگ عالمی سطح پر مسلط ظالمانہ قوانین اور اقوام متحدہ سے لے کر سلامتی کونسل تک اور امریکی، یورپی، سعودی اور دیگر عرب حکومتوں اور خطے میں عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل تک ظالمانہ اداروں کی عکاس ہے۔ گذشتہ سات برس سے یہ جنگ ایسے مظلوم عوام کے خلاف جاری ہے جو عالمی انسانی امداد کے اداروں کے بقول شدید بھوک، افلاس اور بیماری سے روبرو ہیں۔ عالمی تحقیقات اداروں کی رپورٹس کے مطابق یمن کے 70 فیصد سے زائد شہری اگلی بار کھانا ملنے کے بارے میں مطمئن نہیں ہوتے اور انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں کھانا نصیب ہو پائے گا یا نہیں؟
 
ایسی جنگ جس میں اب تک جاں بحق ہونے والے صرف بچوں اور خواتین کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ ہے۔ یہ خواتین اور بچے بغیر کسی جرم کے قتل کر دیے گئے ہیں جو جنگ میں شرکت کرنے کی طاقت بھی رکھتے۔ اس جنگ میں یمن کے 80 فیصد صحت کے مراکز، ڈسپنسریاں اور اسپتال تباہ ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ اور یورپ کی اسلحہ بنانے والی کمپنیاں یمن جنگ کے دوران اب تک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے 300 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے انجام دے کر اسلحہ وہاں پہنچا چکی ہیں۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ یمن کے خلاف جنگ واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفارتخانے سے سابق سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کے سرکاری اعلان سے شروع ہوئی تھی۔
 
ابھی دو ہفتے پہلے ہی امریکہ نے 650 ملین ڈالر مالیت کے ہوا سے ہوا میں مار کرنے والے میزائل سعودی عرب کو فراہم کئے ہیں جبکہ تین دن پہلے امریکہ کی قومی سلامتی کونسل میں مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے امور کے کوآرڈینیٹر برٹ میک گرک نے کہا: "اس اسلحہ اور فوجی سازوسامان کی فروخت امریکہ کی خارجہ سیاست اور قومی سلامتی کو مضبوط بنائے گی۔" اسی طرح یمن کے امور کیلئے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے ٹیموٹی لینڈر کنگ نے بھی ان میزائلوں کی فروخت کی وضاحت دیتے ہوئے کہا: "یمنی فورسز نے 2021ء میں سعودی عرب پر 375 فضائی حملے انجام دیے تھے جن کے باعث سعودی عرب میں پیٹریاٹ میزائل بہت کم ہو گئے ہیں۔" میک گرک نے کہا: "سعودی عرب اس وقت حوثیوں کے دس حملوں میں سے نو کا بچاو کرتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ عدد دس تک پہنچ جائے۔"
 
2)۔ اقوام متحدہ کی تشکیل 1948ء میں ہوئی اور وہ انیسویں صدی میں چار یورپی طاقتوں پر مشتمل تھی اور اس کی بنیاد 1815ء میں ویانا معاہدے پر استوار تھی۔ ویانا کانگریس کے بیانیے میں کہا گیا تھا کہ فرانس کے سربراہ نیپولین کی جنگیں ختم ہونے کا اطمینان حاصل ہو جانے کے بعد ان کی توجہ چار ممالک یعنی پروشیا، برطانیہ، روس اور آسٹریا کی برتری محفوظ بناتے ہوئے دنیا کو کنٹرول کرنے پر مرکوز ہو جائے گی۔ اقوام متحدہ درحقیقت ویانا معاہدے کا اصلاح شدہ نسخہ تھا جس میں دوسری عالمی جنگ کے اتحادیوں نے اپنے مفادات کی روشنی میں دنیا کو کنٹرول کرنے کیلئے سلامتی کونسل جیسا ادارہ تشکیل دیا تھا۔ اس ادارے کی 73 سالہ فعالیت کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر ابھرنے والے مسائل میں اس نے ویانا معاہدے کے تحت ہی عمل کیا ہے۔
 
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یمن کے خلاف سعودی جارحیت آغاز ہونے کے 18 دن بعد اجلاس تشکیل دیا اور یہ تاخیر بذات خود بلاوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی خلاف ورزی تھی۔ کیونکہ یمن اقوام متحدہ کا رکن ملک ہے اور چارٹر میں واضح طور پر رکن ممالک کے خلاف جنگ روکنے کی کوشش کو اس ادارے کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں سلامتی کونسل نے قراداد نمبر 2216 منظور کی۔ یہ قرارداد اس لحاظ سے بہت عجیب تھی کہ اس کی روشنی میں سلامتی کونسل نے نہ صرف جنگ کے ایک فریق کی حمایت کا اعلان کیا بلکہ یمن کے خلاف جاری ظالمانہ محاصرے کو جاری رکھنے پر بھی تاکید کی اور حتی انسانی امداد کے حامل سامان کا بھی یمن میں داخلہ ممنوع کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ ایسی حالت میں کیا گیا جب اقوام متحدہ بخوبی آگاہ تھی کہ یمن کی جنگ طولانی ہو گی اور یمنی عوام بھوک اور افلاس کا شکار ہو جائیں گے۔
 
3)۔ یمن کے خلاف جارح قوتوں نے اپنی تحقیقات کی بنیاد پر اعلان کیا تھا کہ یہ جنگ زیادہ سے زیادہ ایک ماہ تک جاری رہے گی اور اس پر تقریباً 50 ارب ڈالر کے اخراجات آئیں گے۔ لہذا جنگ کے 27 دن بعد "فیصلہ کن طوفان" کی جنگ بندی کا اعلان کر دیا گیا۔ اس سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی شدید لاعلمی اور زمینی حقائق سے عدم آگاہی ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن کیا امریکہ اور مغربی ممالک بھی اس حقیقت سے لاعلم تھے کہ یہ ایک طویل جنگ ثابت ہو گی؟ موجودہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہیں، بلکہ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے۔ اس کا ایک ثبوت برطانیہ اور فرانس کی جانب سے سلامتی کونسل میں قرارداد نمبر 2216 کی بھرپور حمایت کرنا ہے۔ اس قرارداد کا مقصد یمن میں اسلامی مزاحمت کی مکمل نابودی تھا۔
خبر کا کوڈ : 969279
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش