0
Monday 20 Dec 2021 01:16

جماعت اسلامی کا سندھ حکومت کے نئے بلدیاتی قانون کیخلاف کراچی بچاﺅ مارچ

جماعت اسلامی کا سندھ حکومت کے نئے بلدیاتی قانون کیخلاف کراچی بچاﺅ مارچ
ترتیب و تدوین: ایس حیدر

جماعت اسلامی کے تحت پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے نئے بلدیاتی قانون، شہری اداروں پر قبضے کے خلاف اور کراچی کے ساڑھے تین کروڑ عوام کے مسائل کے حل اور جائز و قانون حق کیلئے اتوار کو ایم اے جناح روڈ پر مزار قائدؒ تا تبت سینٹر عظیم الشان کراچی بچاﺅ مارچ منعقد کیا گیا، جس میں شہر بھر سے ہزاروں کی تعداد میں عوام، خواتین، مختلف شعبہ ہائے زندگی و طبقات اور اقلیتی برادری سے وابستہ افراد، مزدور تاجر و صنعتکار، علما کرام، اساتذہ کرام، وکلا، ڈاکٹرز، انجینئرز، طلبا، بچوں، بزرگوں و نوجوانوں نے شرکت کی اور اہل کراچی کی حق تلفی اور سندھ حکومت کی کراچی دشمنی لسانیت و عصبیت کی سیاست کو مسترد کرتے ہوئے 31 دسمبر کو سندھ اسمبلی پر دھرنے کا اعلان کیا گیا۔ ایم اے جناح روڈ پر تبت سینٹر تا مزار قائد تا حد نگاہ شرکاء کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ کراچی بچاؤ مارچ سے جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر سراج الحق، امیر کراچی حافظ نعیم الرحمان، نائب امیر کراچی ڈاکٹر اسامہ رضی اور ڈپٹی سکریٹری کراچی عبدالرزاق خان نے بھی خطاب کیا۔ سراج الحق نے مرکزی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی پاکستان اہل کراچی کے ساتھ ہے اور حقوق کراچی تحریک میں ان کی پشت پر ہے، جس طرح گوادر کے لوگوں نے جدوجہد کے ذریعے اپنا حق لیا، اسی طرح کراچی کے عوام کی اس جدوجہد و اس تحریک سے کراچی کے عوام کو بھی ضرور ان کا حق ملے گا اور کوئی ان کے حق پر ڈاکا نہیں ڈال سکے گا۔

سراج الحق نے کہا کہ میں ان لوگوں کو پیغام دیتا ہوں کہ جنہوں نے اس شہر کو لوٹا اور عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کیا، ان کےیلئے پیغام ہے کہ اگر کراچی کے عوام کو ان کا حق نہیں دیا گیا اور مطالبات پورے نہیں کیے گئے، تو ہم کراچی سے چترال تک گلی گلی کوچے کوچے کراچی کا مقدمہ لڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی پورے ملک کی ماں ہے، اگر یہ شہر توانا اور مضبوط ہوگا تو پورا ملک مضبوط ہوگا، بدقسمتی سے موجودہ اور ماضی کی حکومتوں اور پیپلز پارٹی، (ن) لیگ اور پی ٹی آئی سمیت تینوں حکمران پارٹیوں نے کراچی کا خون چوسا ہے اور اس جرم میں سب حکومتیں شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے عوام ایک جائز اور قانونی اور آئینی جدوجہد کر رہے ہیں، ان کو تعلیم صحت، روزگار، ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی اور گیس چاہتے ہیں، ان کی حق تلفی کو اب ختم ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے حقوق اور مسائل کے حل کیلئے آج حافظ نعیم الرحمان کی قیادت میں ان کی ٹیم اور کارکنان عوام کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، یہ عوامی جدوجہد ضرور کامیاب ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اندر جرنیلوں اور نام نہاد سیاسی حکومتیں اقتدار میں رہیں، لیکن عوام کے حالات نہیں بدلے، ملک کے اندر سارے تجربات ناکام ہوگئے ہیں، اب صرف اور صرف اسلامی نظام اور نبیؐ مہربان کی سنت پر عمل کرنے سے ہی حالات بہتر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی ایک دن عالم اسلام کا قائد شہر ضرور بنے گا، یہاں کے در و دیوار روشن ہوں گے، مسائل ضرور حل ہوں گے۔

مرکزی امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ افسوس کہ کراچی کے عوام سے جن جماعتوں نے ووٹ لیے ان کیلئے کچھ نہیں کیا، اپنے بنک بیلنس بنائے اور کاروبار بڑھائے، پیپلز پارٹی 14 سال سے حکومت کر رہی ہے، یہ کراچی میں کیا بلکہ اندرون سندھ کیلئے بھی کچھ نہیں کر سکی، تھر کے علاقوں میں ہزاروں بچے بھوک سے مر رہے ہیں، اس پارٹی اور اس کی حکومت نے عوام کے ساتھ انصاف نہیں کیا، ان کی شوگر ملوں اور کاروبار میں تو اضافہ ہوا لیکن کراچی اور اندرون سندھ کے عوام کو کچھ نہیں ملا۔ سراج الحق نے کہا کہ کراچی کے لوگ سندھ کو 95 فیصد ٹیکس دیتے ہیں، تو پھر اس شہر کو ان کا حق کیوں نہیں دیا جاتا، سندھ حکومت نے لاڑکانہ، سکھر، شکارپور سمیت اندرون سندھ کے شہروں کیلئے کچھ نہیں کیا اور کراچی کو بھی تباہ و برباد کر رہی ہے، سندھ حکومت اگر کراچی کے مئیر کو صرف جھاڑو دینے والے اختیارات دے گی تو پھر ایسے مئیر کا کیا فائدہ، سندھ حکومت لندن، استنبول، قاہرہ کے مئیر کے اختیارات اور کارکردگی اور ان شہروں کے حالات دیکھیں، جب کراچی کے شہر کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے اور سارے اختیارات وزیراعلیٰ کے پاس ہوں گے، تو مسائل کس طرح حل ہوں گے، وزیراعلیٰ سندھ جواب دیں کہ جب وہ کہتے ہیں ہم اکثریت میں ہیں، تو اس کے ذریعے وہ جمہوری رائے اور سوچ کو بلڈوز کیوں کرتے ہیں، بلدیاتی اداروں کو مالی، انتظامی اور سیاسی اختیارات دینے پر کیوں تیار نہیں ہوتے۔

امیر کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ کراچی بچاؤ مارچ میں عوام کا سمندر یہ اعلان کر رہا ہے کہ وڈیرے اور جاگیرداروں کی سوچ اور تسلط نہیں چلنے دیا جائے گا اور سندھ حکومت کو کالا قانون واپس لینا پڑے گا، کراچی کے عوام اپنا حق لے کر رہیں گے، 14 سال سے پیپلز پارٹی حکومت کر رہی ہے، لیکن کراچی سمیت پورے سندھ کے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جمہوریت کی بات کرتے ہیں لیکن وراثت اور وصیت کے نام پر پارٹی چلائی جا رہی ہے، پیپلز پارٹی کی اس آمرانہ سوچ اور جمہوریت دشمن طرز عمل سے ملک 1971ء میں دولخت ہوا اور پھر یہی لوگ 1972ء میں لسانی بل لے کر آئے، آج وزیراعلیٰ سندھ اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ریاست اور عوام کو دھمکی دیتے ہیں اور نفرت، عصبیت اور علیحدگی کے بیج بو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کراچی کے عوام ایم اے جناح روڈ پر اعلان کرتے ہیں کہ کراچی اور سندھ میں لسانی سیاست کو آج دفن کرتے ہیں، لسانی سیاست اب نہ ایم کیو ایم کی چلے گی اور نہ پیپلز پارٹی کی۔ انہوں نے کہا کہ جب 2012ء اور 2013ء میں پیپلز پارٹی سے بلدیاتی اختیارات چھینے گئے اور وسائل وڈیروں اور جاگیرداروں کے حوالے کیے گئے تو ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ وفاقی و سندھ حکومت میں شامل تھی اور آج مگر مچھ کے آنسو بہا رہی ہے،  ایم کیو ایم جواب دے کہ آج کس منہ سے کراچی کیلئے بات کر رہی ہے، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے کراچی سے ووٹ لیے، لیکن آج یہ کراچی دشمن پالیسیوں اور اقدامات کر رہی ہیں۔

حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے وفاق میں 32 بل منظور کروائے، لیکن بااختیار شہری حکومتوں کے قیام کا ایک بل کیوں منظور نہیں کروایا، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی جواب دیں کہ کیوں جعلی مردم شماری کو منظوری دی گئی، آج ایک بار پھر نئی مردم شماری کے نام پر کراچی کے عوام کو دھوکا دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو خیرات نہیں مسائل کا حل چاہئے، حکمران 162 اور 1100 ارب کے پیکجز سے دھوکے دینے کا سلسلہ بند کریں، ہمیں کراچی سرکلر چاہیے، کے فور منصوبہ مکمل چاہئے، ماس ٹرانزٹ پروگرام پر پورا عملدرآمد ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کے نام پر بھی کراچی کے عوام کو دھوکا دیا جا رہا ہے، بالائی سطح پر غلط بریفنگ دے کر سب کو گمراہ کیا جا رہا ہے، ہم وفاقی و صوبائی حکومتوں اور مقتدر حلقوں سے بھی سوال کرتے ہیں کہ جواب دیں کہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کیلئے کتنے فیصد حصے پر عمل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کٰے عوام ہر قسم کی جدوجہد کرنے پر تیار ہیں، 31 دسمبر کو پہلے مرحلے پر سندھ اسمبلی پر ایک زبردست دھرنا ہوگا، وزیراعلیٰ سے کہتے ہیں کہ اس سے قبل کالا قانون واپس لے لیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی ٹیکس کی مد میں ہزاروں ارب روپے دیتا ہے، لیکن اس کے جواب میں اس کو کچھ نہیں دیا جاتا، کراچی کیساتھ حق تلفی ناانصافی اور ظلم و زیادتی کا یہ سلسلہ اب نہیں چلنے دیا جائے گا، جمہوریت کے نام پر غیر جمہوری رویے آمرانہ اور جاگیردانہ سوچ اور وڈیرہ شاہی تسلط قائم نہیں ہونے دیا جائے گا۔

سندھ حکومت کے نئے بلدیاتی قانون کیخلاف کراچی بچاﺅ مارچ کی جھلکیاں: 
٭مارچ میں نوجوان، بزرگ، طلبا و اساتذہ، محنت کش اور مزدوروں سمیت شہر کے ہر طبقے اور زبان بولنے والے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد جوق در جوق شریک ہوئے، مارچ میں خواتین کے ساتھ چھوٹے بچے بھی شریک تھے۔
٭ایم اے جناح روڈ پر تبت سینٹر تا مزار قائدؒ تا حد نگاہ شرکاء کے سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔
٭مارچ کا آغاز 3 بجے دن ہوا۔ تلاوت کلام پاک قاری منصور نے کی، نعت رسول مقبول عبدالشکور نے پیش کی اور حافظ ساجد نے ”نکلا ہے کراچی نکلا ہے، حق لینے کراچی نکلا ہے، کالے قانون کے خلاف کراچی نکلا ہے“ ترانہ پڑھا۔
٭مارچ کے شرکاء نے مثالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا اور منتظمین کی ہدایت کے مطابق سڑک کے ایک ٹریک پر خواتین اور دوسرے پر مرد موجود تھے۔
٭ایم اے جناح روڈ پر بڑی تعداد میں جماعت اسلامی کے جھنڈے اور ”حقوق کراچی تحریک“ کے مطالبات اور سندھ حکومت کے نئے بلدیاتی قانون کے خلاف بڑے بڑے بینرز آویزاں کیے گئے تھے۔
٭ایم اے جناح روڈ پر جگہ جگہ مارچ کے شرکاء کیلئے خیر مقدمی بینرز بھی لگائے گئے تھے۔
٭امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن اور دیگر رہنماؤں کی قیادت میں ایم اے جناح روڈ پر جاری مارچ کے دوران پر کئی مقامات پر گل پاشی بھی کی گئی۔
٭ٹریفک کنٹرول اور سیکورٹی کیلئے بڑی تعداد میں نوجوانوں کی ذمہ داری لگائی گئی تھی، جنہوں نے زرد رنگ کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھیں اور ان پر ”حق دو کراچی کو“ نمایاں طور پر تحریر تھا۔
٭کالا قانون نامنظور کے بینر ہوا میں لہرائے گئے، جے آئی یوتھ کے نوجوان ریلی کو منظم کرتے رہے، زرد ٹی شرٹ ”حق دو کراچی“ مارچ کا اسکواڈ قیادت کرتا رہا۔
٭مارچ کے شرکاء مختلف گاڑیوں میں سوار تھے، جن میں سینکڑوں موٹر سائیکلوں، کاریں، سوزوکیاں، کوچز، بسیں، ہائی روف، ہائی ایس اور رکشے وغیرہ شامل تھے۔
٭موٹر سائیکل پر سوار نوجوان مارچ میں آگے آگے چلتے رہے، شرکاء نے بڑی تعداد میں جماعت اسلامی کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔
٭قائدین کے خطاب کیلئے ایک بڑا اسٹیج تیار کیا گیا تھا، جس پر ایک طویل بینر لگایا گیا تھا، بینر پر نمایاں طور پر ”کراچی پر قبضہ کا کالا قانون واپس لو“ جبکہ دائیں اور بائیں جانب ’’حق دو کراچی کو‘‘ تحریر تھا۔
٭جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر سراج الحق کی اسٹیج آمد پر ان کا زبردست استقبال کیا گیا اور پُرجوش نعرے لگائے گئے۔ سراج الحق نے حافظ نعیم الرحمٰن اور دیگر رہنماؤں کے ہمراہ ہاتھ ہلا کر اظہار یکجہتی کیا اور نعروں کا جواب دیا۔
٭قائدین کی تقاریر سننے کیلئے تبت سینٹر سے مزار قائدؒ تک بڑے پیمانے پر ساؤنڈ سسٹم کا انتطام کیا گیا تھا۔
٭زرد رنگ کے گیس کے غبارے بھی ہوا میں چھوڑے گئے، جن پر تحریر تھا کہ ”کالا قانون نامنظور، حق دو کراچی کو، مسائل کا حل صرف جماعت اسلامی‘‘ تحریر تھا۔
٭نمائش چورنگی پر مرکزی استقبالیہ کیمپ لگایا گیا تھا، جبکہ خواتین کے حصے میں بھی الگ سے ایک کیمپ لگایا گیا تھا۔
٭اسٹیج سے وقتاً فوقتا ً نعرے لگائے جاتے رہے، جن کا شرکاء نے پُرجوش انداز میں جواب دیا۔
٭میڈیا کے نمائندوں ،کیمرہ مینوں اور فوٹو گرافروں کیلئے خصوصی انتظام کیا گیا تھا۔
٭مارچ میں شریک کئی گاڑیوں اور سوزوکیوں پر بھی ساؤنڈ سسٹم لگایا گیا تھا، جن سے مسلسل ”حق دو کراچی کو، بدلو کراچی کو، اٹھو آگے بڑھو کراچی“ کے حوالے سے ترانے اور نظمیں چلتی رہیں اور نعرے بھی لگائے جاتے رہے۔
٭ مارچ کی کوریج کےیلئے پرنٹ میڈیا و الیکٹرانک میڈیا کی ٹیمیں، DSNG'S کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا کے نمائندے اور کیمرہ مین و فوٹو گرافرز بھی موجود تھے۔
٭سوشل میڈیاپر لائیو کوریج کیلئے بھی مختلف ٹیمیں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں۔
٭ریلی میں الخدمت کی موبائیل ڈسپینسریاں اور ایمرجنسی سروس وین بھی موجود تھیں۔
٭مرکزی نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اسد اللہ بھٹو نے مارچ کے اختتام پر دعا کرائی۔
خبر کا کوڈ : 969313
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش