1
1
Tuesday 21 Dec 2021 03:25

ثقافتی ٹوپی اور وزیراعظم کا دورہ بلتستان

ثقافتی ٹوپی اور وزیراعظم کا دورہ بلتستان
تحریر: اختر شگری

عصر حاضر میں تھرما میٹر سائنس کی ایک اہم ایجاد ہے، ابتدا میں اسے ’’کو تھرموسکویس‘‘ کہا جاتا تھا، یہ جسم کا درجہ حرارت معلوم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جس طرح تھرما میٹر کی مدد سے جسم کا ٹمپریچر بغیر کسی مشقت کے چیک کیا جاتا ہے، اسی طرح ثقافت و فرہنگ بھی وہ قیمتی آلات ہیں، جس کے ذریعے سے ہمیں کسی بھی قوم، ملک اور مذہب کی شناخت اور پہچان آسانی سے ہوتی ہے، کیونکہ وہاں کے آداب و رسوم، رہن سہن، چال و چلن، خوبی و بدی، عبادات و معاملات مختلف شکل میں تہذیب و تمدن کی شاخیں ہیں۔ لہذا کسی بھی مذہب کی پہچان مذہبی تہذیب و تمدن ہے۔ ہمارا دین اسلام ہے، لہذا ہمیں مغربی کلچر سے دوری اور اسلامی کلچر کی پاسداری کی ضرورت ہے، تاکہ ہماری پہچان اسلامی اصول و ضوابط کے عین مطابق ہو۔

اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے علاقے کا مجموعی کلچر اسلام کے عین مطابق ہے، مگر افسوس کے ساتھ آج کچھ مغربی این جی اوز کی مدد سے چند مفاد پرست شیطان صفت انسان میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے مغربی کلچر کو فروغ دینے کی ناکام سازشیں کر رہے ہیں۔ ہمارے علاقے کے لوگوں کی ثقافت میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنی شادی بیاہ میں سفید چادر اور ٹوپی شوق سے پہنتے ہیں اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اسی لیے ہم اپنے مہمانوں کو بھی وہی ٹوپی و چادر پہناتے ہیں، کیونکہ گھر میں مہمان کا آنا باعث خوشی و رضامندی خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور اللہ رب العزت نے بھی ہمیں قرآن مجید میں مہمان نوازی کا درس دیا ہے۔ ہمارے ہاں مہمانوں کا شاندار استقبال ہوتا ہے، کیونکہ یہ ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی سیاسی و مذہبی لیڈر ہمارے ہاں تشریف لاتے ہیں، ان کا شاندار استقبال بھی ہوتا ہے اور خوب مہمان نوازی بھی کی جاتی ہے۔

کمال کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے دلوں میں بھی ہم سے محبت اقتدار کی کرسی سنبھالنے تک کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوتی ہے۔ اسی لیے سیاسی نمائندے اور حکمران الیکشن سے قبل گلکت بلتستان کا دورہ ضرور کرتے ہیں۔ ان دوروں میں سیاسی نمائندے ہماری مہمان نوازی، ٹوپی اور چادر کے تحفے، پرخلوص ٹھاٹھیں مارتا ہوا عوامی سمندر دیکھ کر جذباتی ہو جاتے ہیں۔ اللہ جانے یہ اس ٹوپی کا اثر ہے یا چادر کا جادو، وہ سٹیج سنبھالتے ہی گلے پھاڑ پھاڑ کر ہماری تعریفیں اور اعلانات کرنے لگتے ہیں۔ جوش و جذبے کے ساتھ کبھی ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر عبوری صوبہ بنانے کی قسمیں کھاتے ہیں تو کبھی گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا آرڈر جاری کرتے ہیں، کبھی سابقہ حکمرانوں کے ظلم و زیادتیاں یاد کرکے مگر مچھ کے آنسو بلتی سفید چادر سے صاف کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، تو کبھی گندم کی سبسڈی دگنی کرنے کی بات کرکے عوامی واہ واہ و تالیوں کی گونج میں بلتی ٹوپی اور تاج سر پر رکھے جھومنے کی ایکٹنگ کرتے ہیں۔

ان کی تقریریں سن کر تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ اگر اس نے گلگت بلتستان کی تقدیر بدلنے کی قسم کھائی ہے تو دورے میں اتنی دیر کیوں کی تھی، ہمارے حکمرانوں کے سراب کی مانند جھوٹے اعلانات سے تو ایسا لگتا ہے کہ آج نہیں تو کل ضرور گلگت بلتستان پاکستان کا پانچواں صوبہ بنے گا اور گلگت بلتستان کے ساتھ خلوصِ اتنا کہ اقتدار کی کرسی سنبھالنے سے قبل ہی عبوری صوبے کا آرڈر جاری ہوگا، گندم سبسڈی دگنی نہیں تگنی ہوگی، دیگر ضروریات زندگی کی فراوانی ہوگی، ذہین طلبہ کے لیے تو ملک کے دوسرے صوبوں کی یونیورسٹیوں میں کوٹہ تو آسانی سے ملے گا ہی، اس کے علاؤہ گلگت بلتستان میں میڈیکل و انجینئرنگ کالجز کا قیام فوری عمل میں لایا جائے گا۔ راولپنڈی اسلام آباد سے سکردو تک موٹروے بنے گا اور ریل کی پٹریاں بچھائی جائیگی۔

مگر دکھ اس بات کا ہے کہ اقتدار کی کرسی سنبھالتے ہی ہمارے سیاستدانوں کے اعلانات "کھودا پہاڑ نکلا چوہا" کا مصداق بن جاتے ہیں۔ ہماری ساری قربانیاں دریا برد کر دی جاتی ہیں، نہ عبوری صوبہ بنتا ہے، نہ آئینی حیثیت ملتی ہے، نہ کشمیر کی سی سہولیات ملتی ہیں، جبکہ ہمارے آباء و اجداد نے پاکستان کی آزادی کے بعد 1948ء میں ڈوگرہ راج سے بغاوت کرکے آزادی کے لیے باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔ اس زمانے میں پاکستان کا دارالحکومت کراچی تھا۔ اس وقت گلگت بلتستان کی آزادی کے رہنماؤں نے حکومت پاکستان کو ڈوگرہ راج سے آزادی میں مدد کے لیے خطوط بھی لکھے تھے، مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی تھی تو گلگت بلتستان کے  غیور عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت پتھروں، ڈنڈوں، خود ساختہ ہتھیاروں اور اپنے زور بازو سے آزادی کی جنگ لڑی اور اللہ کی فضل و کرام سے کامیابی حاصل کی۔

حکومت پاکستان نے تو پہلے ہمارا الحاق آزاد کشمیر کے ساتھ کر دیا تھا، لیکن بعد میں معاہدہ کراچی کے تحت آزاد کشمیر کی انتظامیہ نے گلگت بلتستان کو پاکستان کے حوالے کر دیا اور 1970ء سے وہ شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جانے لگا اور ایک طویل عرصہ تک انگریز سامراج کے بنائے ہوئے بدنام زمانہ ایف سی آر نامی قانون کے تحت اس علاقے کو چلایا گیا۔ اس طرح گلگت بلتستان کے غیور عوام کو پاکستان کے قانون کے مطابق تحفظ مل سکا اور نہ ہی کشمیر جتنے حقوق مل پائے۔ آخرکار حکومت نے گورنر اور وزیراعلیٰ کا عہدہ دے ہی دیا، مگر قانونی اعتبار سے وہ آئینی حقوق حاصل نہیں ہوئے، جو ملک کے دیگر صوبوں کو حاصل ہیں۔ پہلے یہاں پر "اسٹیٹ سبجیکٹ رول" نام کا قانون نافد تھا، جس کے تحت یہاں صرف مقامی لوگوں کو ہی سرکاری ملازمتیں ملتی تھیں، سیاسی عہدے رکھنے اور جائیداد خریدنے کا حق صرف مقامی لوگوں کو حاصل تھا۔ لیکن سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اسے بھی ختم کر دیا گیا۔

گلگت بلتستان والوں کے معیار زندگی کو دیکھیں تو پورے خطے میں صحت، سیاحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں، جبکہ دہی علاقوں میں بچوں کے لیے سکول اور صحت کے مراکز بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پورے خطے میں ایک میڈیکل کالج یا انجنیئرنگ کی تعلیم کا ادارہ نہیں ہے۔ لہذا وزیراعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ آپ نے اپنی تقاریر میں گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا جو وعدہ کیا ہے، اس پر عمل کریں۔ ہمیں امید بھی ہے کہ آپ اپنے دور حکومت میں ہمارے اس خواب کو حقیقت میں بدل دینگے اور گلگت بلتستان کو 74 سالہ محرومیوں سے نکال کر پاکستان کا پانچواں صوبہ بنائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 969517
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
Very excellent
ہماری پیشکش