0
Friday 24 Dec 2021 16:17

بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا!

بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا!
تحریر: تصور حسین شہزاد

بھارتی گاؤں میں جب کوئی انسان ایک نومولود بچی کو کھیت میں پھینک گیا تو نہ صرف ایک کتیا نے اس کا پہرہ دیا بلکہ خود اس کے ننھے منے کتوروں نے مکمل برہنہ بچی کے بدن سے اپنا جسم مس کرکے اسے حرارت پہنچائی۔ کتوں کی اس رحم دلی کی خبر نے دنیا کے ہر دردمند انسان کا دل موم کر دیا ہے، کیونکہ انسانوں نے اس بچی کو سخت سردی میں بے لباس پھینک دیا تھا، تو کتے اور اس کے پلوں نے ساری رات اسے گرمی پہنچا کر مرنے سے بچایا۔ چھتیس گڑھ ریاست کے ضلع مونگیلی کے ایک گاؤں سری ستال کے کھیت میں بچی کو پھینکا گیا تھا۔ اس بچی کے تن سے آنول نال کا ایک ٹکڑا بھی جڑا ہوا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اسے آوارہ کتوں نے بھنبھوڑنے کی بجائے زندگی بخشی۔ صبح ہوئی تو بچی کے رونے کی آواز سے کسان اس کی طرف متوجہ ہوئے اور بچی تک پہنچے تو وہ زندہ تھی اور اس پر کوئی خراش تک نہ تھی۔

اہل دیہہ کے مطابق ان کا خیال ہے کہ مادہ کتیا نے رات بھر بچی کا حفاظتی پہرہ بھی دیا ہے۔ بعد ازاں گاؤں کے بزرگوں نے پولیس سے رابطہ کیا اور بچی کو ہسپتال پہنچایا گیا, جہاں ڈاکٹرز نے بچی کو مکمل تندرست قرار دیا ہے۔ پولیس افسر اے ایس آئی چنتا رام بنجاور اسے فوری طور پر مقامی ہسپتال لے گیا اور طبی معائنے کے بعد اس کا نام اکن کشا رکھا گیا ہے۔ اب پولیس نے بچی کے لواحقین کی تلاش شروع کر دی ہے۔ اغلباً ضیاء الحق ہنگامہ کا یہ شعر ہے کہ
”ایک کتا دوسرے کتے سے یہ کہنے لگا
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا”

ہنگامہ صاحب کا یہ شعر انسانیت کے منہ پر ایسا زبردست تھپڑ ہے کہ انسان نظریں اٹھانے کے قابل نہیں رہتا۔ دنیا میں انسان کے کرتوت دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ انسانیت انسان سے رخصت ہوچکی ہے۔ سانحہ سیالکوٹ سے ذرہ پیچھے جائیں اور صرف اپنے اردگرد کے واقعات کا جائزہ لیں، تو شرم کے مارے اپنے انسان ہونے پر افسوس ہوگا۔

کہیں حوا کی بیٹی کی تذلیل، کہیں اپنے ہی نومولود کو کوڑے کے ڈھیر پر ڈالنے کا واقعہ، کہیں کم سن بچوں کیساتھ زیادتی و بد فعلی، کہیں خواتین کیساتھ ریپ، کہیں ہجوم کے ہاتھوں بیگناہوں کی موت، کہیں جلوسوں کی املاک پر چڑھائی، کہیں بلوے میں مار کھاتے اور جانیں دیتے پولیس اہلکار، کہیں مساجد میں نماز پڑھتے نمازیوں کی لاشیں، کہیں درباروں پر بم دھماکوں میں اڑتے زائرین، کہیں سکولوں میں دہشتگردوں کی گولیوں سے مرجھاتے پھول دکھائی دیں گے تو کہیں بھائی کے ہاتھوں بھائی کی لاش گرتی نظر آئے گی۔ پھر حضرت انسان نے یہیں بس نہیں کی، بلکہ دہشت گرد ہوں یا شرپسند، ایک موقع پر آ کر انسان نے اسے کلین چٹ بھی دیدی کہ چلیں غلطی ہوئی تو کیا ہوا، انسان ہی تو ہیں نا، چلیں اس غلطی کو بھی معاف کیا۔

یہ کیسے جفاکار ہیں کہ انہیں قتل کے بعد ہی توبہ یاد آتی ہے؟ انسان کو تو اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا تھا۔ لیکن یہ کیا، انسان تو اپنے ہی رب کے فیصلے کیخلاف ایسے بھاگ رہا ہے، گویا رب کا فرمایا بھی غلط ثابت کرنے کے درپے ہے۔؟ افسوس کہ قدرت نے انسان کو بڑا رتبہ دیا، لیکن اس نے اس رتبے کی قدر نہیں کی۔ اشرف المخلوقات آج ارزل المخلوقات بن چکا ہے۔ چارلی چپلن نے ایک بار کہا تھا کہ ایک سیب گرا اور قانون کشش ثقل دریافت ہوا، افسوس کہ ہزار انسان گرے مگر انسانیت دریافت نہ ہوسکی۔ افسوس کہ انسان کی عظمت اور پاکیزگی معدوم ہوچکی ہے۔ معبد انسانیت کا تقدس پامال ہوچکا ہے اور ستم تو یہ ہے کہ ہم اسے یونہی سرسری لے رہے ہیں۔

کہتے ہیں کہ شعور کی ایک سطح وہ ہے، جہاں انسان بدکلامی کا جواب بدکلامی سے دیتا ہے، اینٹ کے جواب میں پتھر دے مارتا ہے، شعور کی دوسری سطح وہ ہے جہاں انسان بدکلامی کے جواب میں خاموشی اختیار کرتا ہے اور بدکلامی کرنیوالوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے، شعور کی ایک تیسری سطح بھی ہے، اس میں انسان نہ صرف یہ کہ اپنے جذبات پر قابو پاتا ہے بلکہ برے اخلاق کا جواب بہترین اخلاق سے دیتا ہے اور شعور کی یہی تیسری سطح ہے، جو بدترین دشمن کو بہترین دوست میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ ہم انسانی تاریخ کے انتہائی بدقسمت موڑ پر کھڑے ہیں۔ گھور اندھیرے آنکھوں میں چبھنے لگے ہیں۔ تاریکیاں دل و دماغ تک اترنے لگی ہیں۔ انسانیت جو خداوند کی الوہیت کی روح ہے، اپنے جسم کو ڈھانپے دشت میں کھڑی ہے۔ انسانیت آج زخموں سے چور چور ہے، اس کے جسم سے خون رِس رہا ہے، وہ کراہ رہی ہے، غم و الم کے مارے رو رہی ہے۔

انسانی جذبات و احساسات تقریباً تمام دنیا کے لوگوں کے ایک جیسے ہی ہیں، کچھ تھوڑا بہت لوگوں کے رہن سہن میں تغیر ہوتا رہتا ہے، مگر اس کی رفتار بہت سست ہوتی ہے، انسان تو ہر گھر میں پیدا ہوتے ہیں مگر انسانیت کہیں کہیں پیدا ہوتی ہے۔ اس موقع پر آپ ضرور یہ سوال اٹھائیں گے، بھلا انسان اپنے آپ کو کس طرح بدل سکتا ہے۔ کیا فطرت میں اتنی لچک ہے؟ میرا جواب یہ ہے کہ ماحول کے سانچے بدلنے کیساتھ انسانی فطرت بھی بدلتی رہتی ہے۔ یہی عمل ابھی لاتعداد صدیوں تک جاری رہے گا۔ انسان اپنے معاشرے کو بدلنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ وہ عقل و شعور کا مالک ہے۔ مثالی معاشرے کو قائم کرنے میں کئی صدیاں اور لگ جائیں لیکن انسان کو اپنی کامیابی کا یقین ہے۔ ہم اگر اپنے معاشرے کو بدلنا چاہتے ہیں تو آغاز اپنی ذات سے کریں، اگر آپ نے اپنے آپ کو نہ بدلا، تو پھر کتوں کو یہ کہنے کا حق ضرور دیں کہ
”بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا”
خبر کا کوڈ : 970069
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش