1
Monday 27 Dec 2021 00:11

امریکہ اور میزائل ٹیکنالوجی میں جاری سعودیہ چین تعاون

امریکہ اور میزائل ٹیکنالوجی میں جاری سعودیہ چین تعاون
تحریر: سید رحیم نعمتی
 
سعودی عرب اور چین کے درمیان میزائل ٹیکنالوجی کے شعبے میں جاری تعاون کوئی نئی بات نہیں ہے اور اس بارے میں سی این این کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے تقریباً تین سال پہلے سے دونوں ممالک میں جاری اس تعاون سے مطلع ہیں اور حتی اس بارے میں انٹیلی جنس رپورٹس سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک بھی پہنچی ہیں لیکن انہوں نے اسلحہ کی تجارت کو نقصان پہنچنے کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر یہ رپورٹس امریکی کانگریس میں جانے سے روک دی تھیں۔ لیکن اب یوں دکھائی دیتا ہے کہ جو بائیڈن کی سربراہی میں موجودی امریکی حکومت نہ صرف اس مسئلہ پر زیادہ سنجیدگی سے غور کر رہی ہے بلکہ اسے اس بارے میں تشویش بھی ہے لہذا سعودی عرب اور چین میں جاری اس تعاون کو روکنے کی راہیں تلاش کر رہی ہے۔
 
 امریکہ کی جانب سے سعودی عرب اور چین کے درمیان میزائل ٹیکنالوجی کے شعبے میں جاری تعاون کو ختم کرنے کیلئے انجام پانے والی کوششیں خطے میں ایک نیا چیلنج رونما ہونے کا باعث بنی ہیں جسے سعودی عرب کا میزائل چیلنج کہا جا رہا ہے۔ اس چیلنج کا سب سے پہلا نتیجہ جس نے ہر چیز سے زیادہ امریکہ کو پریشان کر دیا ہے وہ سعودی عرب میں چینی ساختہ میزائلوں کی پیداوار ہے۔ اس سے پہلے سعودی عرب چین سے میزائل درآمد کر رہا تھا لیکن اب سعودی عرب میں ہی چینی میزائل تیار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ بیلسٹک میزائل ہیں جن میں جوہری ہتھیار حمل کرنے کی قابلیت رکھنے والے میزائل بھی شامل ہیں۔ مئی 2014ء میں "سیف عبداللہ" نامی ایک فوجی پریڈ منعقد ہوئی جس کے آخر میں چین کا جوہری میزائل EDF-2 بھی دکھایا گیا تھا۔
 
اس سے واضح ہو گیا کہ سعودی عرب کو چین کے جوہری میزائلوں تک بھی رسائی حاصل ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ واشنگٹن کی پریشانی سعودی عرب کی جانب سے چین سے میزائل خرید کر اپنے ملک میں ذخیرہ کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ وہ ایک حد تک امریکہ کی مرضی کے مطابق بھی ہے کیونکہ اس کی نظر میں یہ اقدام ایک طرح سے خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی میزائل طاقت کو بیلنس کرنے کا باعث ہے۔ لیکن امریکہ کو زیادہ پریشانی اور تشویش اس وقت شروع ہوئی جب اسے معلوم ہوا کہ چینی میزائل سعودی عرب میں تیار کئے جا رہے ہیں۔ یہ اقدام امریکہ کی نظر میں بہت خطرناک ہے اور حتی خطے میں اس کے مطلوبہ طاقت کے توازن سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔
 
درحقیقت امریکہ نے ہمیشہ سے خطے میں اسرائیل کی فوجی برتری پر زور دیا ہے اور خود کو اس کا ضامن قرار دیا ہے۔ امریکہ خطے کے عرب ممالک کو اسلحہ فروخت کرتے وقت بھی اپنی سیاست خارجہ کے اس اہم  اصول کو مدنظر رکھتا ہے۔ چین کی جانب سے بیلسٹک میزائلوں جیسے اسٹریٹجک اسلحہ کی مارکیٹ میں داخل ہونا امریکہ کی نظر میں خطے میں طاقت کا توازن بگڑنے کا سبب قرار پا سکتا ہے اور اس کا نتیجہ خطے کی باگ ڈور اس کے ہاتھ سے نکل جانے کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے امریکی نیوز چینل سی این این پر 23 دسمبر کے دن سعودی عرب کے علاقے الدوادمی میں میزائل تیار کئے جانے پر مبنی رپورٹ شائع ہونے کے بعد بائیڈن حکومت نے اہم اعلان کیا ہے۔
 
امریکی حکام نے اعلان کیا ہے کہ وہ تمام ایسی کمپنیوں کو سزا دیں گے جنہوں نے چین سے میزائل ٹیکنالوجی سعودی عرب منتقل ہونے میں سہولت فراہم کی ہے۔ اس خبر کو امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کو وارننگ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ وارننگ اس وارننگ کی حد تک ہے جو امریکہ نے متحدہ عرب امارات کو دی تھی اور اس کے نتیجے میں اس خلیجی ریاست میں زیر تعمیر چینی فوجی اڈہ بند کر دیا گیا تھا۔ ابھی دیکھنا ہو گا کہ سعودی عرب کو دی جانے والی امریکی وارننگ کا نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا اور سعودی حکمران بھی امریکی دباو کے تحت چین کے ساتھ میزائل ٹیکنالوجی کے شعبے میں جاری تعاون روک دیں گے یا نہیں؟ موجودہ حالات میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ سعودی عرب اور چین دونوں کیلئے یہ مسئلہ اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔
 
گذشتہ چند سالوں کے تجربات کی روشنی میں سعودی حکام امریکہ پر ماضی کی طرح اندھا اعتماد نہیں کر سکتے اور چین سے اسٹریٹجک اسلحہ کے شعبے میں تعاون کا فیصلہ ایک بنیادی یو ٹرن ہے جس میں امریکی وارننگ یا چند پابندیوں کے باعث تبدیلی ممکن نہیں۔ دوسری طرف چین بھی شدت سے ایسے علاقوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے درپے ہے جو امریکہ کا پنڈال سمجھے جاتے ہیں۔ چین اس حکمت عملی کے ذریعے امریکہ کو مشرق میں اپنی سرحدوں کی جانب آگے بڑھنے سے روکنا چاہتا ہے۔ لہذا سعودی عرب کا میزائل چیلنج امریکہ اور چین کے درمیان ٹکراو کا ایک نیا میدان بن چکا ہے اور سعودی عرب اس ٹکراو کا فائدہ اٹھا کر دونوں جانب سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ چیلنج صرف تین ممالک تک محدود نہیں رہے گا بلکہ خطے اور دنیا کے دیگر کھلاڑی بھی اس میں شامل ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 970448
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش