0
Tuesday 28 Dec 2021 01:30
شہید سید ذوالفقار علی نقوی

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
تحریر: ارشاد حسین ناصر

نوے کی دہائی میں فرقہ واریت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، اس دہائی میں پاکستان میں بڑے بڑے نامور لوگ ہم سے جدا ہوئے ہیں، بہت سے ان مٹ نقوش ہیں، جو اس عشرے نے ہماری تاریخ پر چھوڑے ہیں، ان نقوش کو مٹانا یا بھلانا شاید ممکن نہیں۔ یوں تو کسی بھی شخص کا چلا جانا اس کے خاندان کیلئے بہت گراں ہوتا ہے، مگر کچھ لوگ جو اجتماعی کردار کے حامل ہوتے ہیں، ان کی جدائی یقیناً اس کے اثرات بھی ان کے اجتماعی کردار کے طرح زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے شہید سیّد ذوالفقار حسین نقوی کا نام بھی ایسے ہی افراد ملت میں ہوتا ہے، جن کی کمی اور جدائی کو اب بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی اور ملت کیلئے خدمات ہمارے آج کے قومی ورکرز اور اجتماعی جدوجہد کرنے والوں کیلئے ایک نمونہ کے طور پر پیش کی جا سکتی ہے۔ شہید سیّد ذوالفقار حسین نقوی نے 4 دسمبر 1945ء لاہور کے مضافات میں واقع موضع چندرائے کے سادات کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ آپ کے والد سیّد علی حسین شاہ ایک صاحب تقویٰ اور علم دوست انسان تھے۔ ان کا سلسلہ نسب اوچ شریف کے سادات سے جا ملتا ہے۔

شہید ذوالفقار حُسین نقوی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان تھے۔ وکالت سے پہلے وہ محکمہ آثار قدیمہ میں سپرینٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے۔ آپ 1990ء میں تنظیمی مصروفیات کی بناء پر سرکاری نوکری سے استعفیٰ دیکر اپنے پیشے سے منسلک ہوگئے اور اپنی زندگی ملت کی خدمت کیلئے مکمل طور پر وقف کر دی۔ اصل میں شہید کو اجتماعی جدوجہد کے شعور، لوگوں کے درد و مسائل اور علماء کی صحبت نے سرکاری نوکری چھوڑنے کے فیصلہ میں بہت مدد کی۔ آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جو انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینی رضوان اللہ تعالٰی کی شخصیت سے بے حد متاثر تھے۔ انقلاب اسلامی اور امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی شخصیت کا سحر تھا، جس کی بدولت 1980ء میں آپ نے اس وقت کے قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین اعلیٰ اللہ مقامہ کی آواز پر لبیک کہا اور ان کی عظیم الشان قیادت میں اس الہیٰ کارواں میں شامل ہوگئے، جو ملت تشیع پاکستان کے حقوق کی خاطر میدان عمل میں اترا۔ آپ نے اپنی تنظیمی سرگرمیوں کا آغاز ایک عام کارکن کی حیثیت سے کیا۔ اپنی خداداد تنظیمی صلاحیتوں کی بدولت درجہ بدرجہ ضلعی، ڈویژنل، صوبائی اور مرکزی سطح پر اپنی مثالی خدمات سے قائدین اور کارکنان کے دلوں میں گھر لیا۔

تنظیمی سفر کے دوران آپ کو قائد مفتی جعفر حسین اعلیٰ اللہ مقامہ، شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی علیہ الرحمہ، محسن ملت علامہ سید صفدر حسین نجفی اعلیٰ اللہ مقامہ اور علامہ سید کرامت علی نجفی اعلی اللہ مقامہ جیسی شخصیات کی معیت اور رفاقت کا شرف حاصل رہا۔ ان شخصیات سے قربت کے باعث ہمیشہ فیض یاب ہوتے رہے۔ لاہور کی دو عظیم علمی و تدریسی درسگاہوں جامعہ المصطفیٰ اور جامعہ بقیہ اللہ کی بنیاد اور قیام میں آپ نے بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ دونوں مدارس آج بھی ان آبائی علاقے میں موجود ہیں، اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں آپ کی خدمات کو کبھی فراموش نہ کیا جائے گا۔ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی عوامی تحریک کے درمیان اعلامیہ وحدت پر دستخط ہوں یا ملی یکجہتی کونسل کا قیام، ایسے سنگ ہائے میل کا ذکر شہید ذوالفقار حسین نقوی کے ذکر کے بغیر نامکمل رہے گا۔ ملی یکجہتی کونسل جب پہلی بار بنائی گئی تو لاہور میں پنجاب کے سیٹ اپ میں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہے، جس کی وجہ سے اس وقت کے شیعہ سنی قائدین کیساتھ بھی ان کا گہرا تعلق اور ربط پیدا ہوا، جو آخری دم تک قائم رہا۔

1994ء میں پنجاب یونیورسٹی میں آئی ایس او پاکستان کے طلباء نے مجلس کا اہتمام کیا تو یونیورسٹی پر قابض گروہ کی یلغار اور حملے میں تین افراد مارے گئے، کئی زخمی ہوئے، اس واقعہ کے بعد کافی عرصہ تک یہ کشیدگی برقرار رہی اور کافی بعد تک حالات انتہائی کشیدہ رہے۔ امامیہ طلباء پر نامزد ایف آئی آر ہوئی تو انہیں پولیس کو پیش کیا گیا، پولیس اور انتظامیہ سے روابط کا کام شہید ذولفقار علی نقوی ہی انجام دیتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر ہمارے اس وقت کے قائدین روزانہ اجلاس کرتے تھے، اس تناؤ اور کشیدگی کو کم کرنے کیلئے جہاں دیگر لوگ اور عوامل کارفرما رہے، وہیں شہید ذولفقار نقوی نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ یہ کیس بالآخر باہمی صلح اور دیت کی ادائیگی کیساتھ اپنے انجام کو پہنچا۔ اس سارے معاملے میں شہید ذولفقار نقوی کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ آپ نوجوانان ملت کے ساتھ ہمیشہ پدرانہ شفقت کا اظہار فرماتے اور ان کی مشکلات دور کرنے میں خصوصی دلچسپی لینے سے کبھی گریز نہ کرتے۔

شہید انتہائی خوش الحان تھے اور انتہائی خوبصورت انداز میں ذاکری بھی کرتے۔ اکثر تنظیمی پروگرامز میں تنظیمی دوستوں کی فرمائش پر اپنے مخصوص انداز میں ذکر اہلبیت علیہم السلام کیا کرتے۔ عزاداری کے ساتھ آپ کا لگاؤ اس حد تک تھا کہ جہاں کہیں بھی مجلس اور جلوس میں رکاوٹ ڈالی جاتی تو آپ اپنی تمام تر مصروفیات ترک کرکے وہاں پہنچتے اور عزاداری کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے ساری توانائیاں صرف کرتے۔ 4 جون 1989ء کو آپ نے امام خمینی رضوان اللہ کے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ جو شہید اپنی زندگی کا ناقابل فراموش موقع قرار دیتے ہیں۔ بہشت زہراء تہران میں یہ شرکت شہید کی ڈائری میں تحریر ہے۔ شہید اسے اپنے لئے ایک سعادت سمجھتے تھے۔ امام چہارم سید سجاد علیہ السلام کی سنت کی میں ادائیگی شہید نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔

حکومت جو ہمیشہ اہل تشیع کو فرقہ پرستوں اور دہشت گردوں کیساتھ ملا کر زیادتی کرتی ہے، اسی بیلنس پالیسی کے تحت فروری 1995ء میں آپ کی نظربندی کے احکامات جاری کئے۔ 22 رمضان المبارک کی رات تھی، جب افطار کے بعد آپ کو آپ کے گھر سے گرفتار کرکے کوٹ لکھپت جیل میں نظربند کر دیا گیا۔ آپ کی نظر بندی کے دوران ڈاکٹر صاحب کو شہید کر دیا گیا۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سب کیلئے محبوب تھے، سید ذولفقا علی نقوی کیلئے بھی وہ ایک محبوب اور عزیز ترین شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شہادت کی خبر انہیں جیل میں ہی دی گئی، جو ان کیلئے بہت گراں تھی کہ جیل میں کوئی ہمنوا اور غمگسار نہ تھا۔

بالآخر 31 دسمبر 1996ء کا دن بھی آن پہنچا۔ لشکر یزید کے گماشتے چند رائے کے باہر ان کے راستے میں ایک پل پر گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جونہی آپ کی گاڑی وہاں پہنچی، چاروں طرف سے اندھا دھند فائرنگ کردی گئی۔ آپ اپنے جواں سال فرزند شہید عمار حیدر نقوی کے ہمراہ سیدالشہداء اور جناب علی اکبر علیہ السلام کی بارگاہ میں سرخرو ہو کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے۔ اس حملے میں کل پانچ افراد شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے، ان میں ذوالفقار حسین نقوی، سید عمار حیدر نقوی، اہلسنت دوست چیئرمین حاجی محمد شریف، ڈرائیور لیاقت علی، گن مین الیاس حسین متعدد گولیاں لگنے سے شہید ہوئے۔ اس سانحہ کی ایف آئی آر تھانہ کوٹ لکھپت 363/96 درج ہے۔ شہید نے پسماندگان میں دو بیٹے، چھ بیٹیاں اور بیوہ چھوڑے۔ شہید کی نماز جنازہ میں اتحاد بین المسلمین کا فقیدالمثال نظارہ دیکھنے کو ملا۔ جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے بھی شرکت کی اور تعزیتی خطاب کیا۔

شہید ذوالفقار حُسین نقوی اپنے خطابات میں اکثر مندرجہ ذیل اشعار پڑھا کرتے تھے۔ انہی اشعار میں ان شہداء کا پیغام بھی ہے اور انہی میں شہداء کے راستے کا تعین اور آنے والی نسلوں کیلئے عملی زندگی کی دعوت بھی ہے۔
ہری ہے شاخِ تمنا ابھی جلی تو نہیں
دبی ہے آگ جگر کی مگر بجھی تو نہیں
جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی
کٹی ہے بر سرِ میداں مگر جھکی تو نہیں

سال کا اختتام ہوتا ہے تو ہمیں یہ دن کبھی نہیں بھولتا کہ اسی آخری سورج نے ہم سے سید ذوالفقار علی نقوی کو ان کے صاحبزادے عمار حیدر اور رفقاء سمیت چھین لیا، جن کے جانے کا دکھ تازہ کرتا ہے۔
اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
رویئے کس کیلئے، کس کس کا ماتم کیجئے
خبر کا کوڈ : 970658
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش