0
Wednesday 5 Jan 2022 18:03

2021ء کشمیر کی سرحدی بستیوں کیلئے امن کا سال رہا

2021ء کشمیر کی سرحدی بستیوں کیلئے امن کا سال رہا
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

بھارت اور پاکستان کے درمیان گزشتہ برس کے اوائل میں ہی مقبوضہ کشمیر کے سرحدوں پر سیز فائر معاہدے پر عمل در آمد پر اتفاق ہونے کے باعث 2021ء سرحدی بستیوں کے لوگوں کے لئے کسی حد تک امن اور سکون کا سال رہا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جموں و کشمیر کے سرحدوں پر 2020ء کے دوران بھارت اور پاکستان کی فوج کے درمیان گولہ باری کے تبادلے کے زائد از پانچ ہزار واقعات رونما ہوئے تھے۔ یہ ان سرحدوں پر گزشتہ پندرہ برسوں کے دوران سب سے زیادہ تعداد میں ہونے والی جنگ بندی خلاف ورزیاں تھیں۔ بھارت اور پاکستان نے ڈی جی ایم او سطح کی ایک میٹںگ کے دوران لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ اس سے متصل سبھی سیکٹروں میں 24 اور 25 فروری 2021ء کی شب سے سیز فائر اور دیگر سمجھوتوں پر عمل کرنے پر اتفاق ظاہر کیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان 2003ء میں سیز فائر معاہدہ طے پایا تھا لیکن اس کے باوصف سرحدوں پر طرفین کے درمیان ایک دوسرے کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر گولہ باری کے تبادلے کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری رہتا تھا جس کے نتیجے میں سرحدوں کے آر پار بے تحاشہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔

بھارت کی پاکستان کے ساتھ 3 ہزار 3 سو 23 کلو میٹر طویل سرحد ملتی ہے جس میں سے 221 کلو میٹر بین الاقوامی سرحد ہے جبکہ جموں و کشمیر میں پڑنے والی 740 کلو میٹر لمبی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2021ء کے وسط تک جموں و کشمیر کے سرحدوں پر پاکستان کی طرف سے  سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کے صرف 664 واقعات رونما ہوئے جبکہ دراندازی کی بھی 28 کوششیں ہوئیں۔ مذکورہ اعداد و شمار کے مطابق سال رواں یعنی 2021ء کے دوران سرحدوں پر 15 دراندازوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ چار فوجی جوان بھی اپنی زندگیاں کھو بیٹھے۔ 2019ء میں سرحدوں پر سیز فائر کی خلاف ورزی کے 3 ہزار 2 سو 89 واقعات رونما ہوئے تھے جن میں 1 ہزار 5 سو 65 واقعات ماہ اگست کے بعد پیش آئے تھے۔ بھارتی حکومت کے ذرائع کے مطابق 2021ء کے دوران سرحدی بستیوں میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں امن و سکون برقرار رہا ہے اور کوئی بھی عام شہری سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کا نشانہ نہیں بنا۔ سرحدی بستیوں کے لوگوں کا بھی ماننا ہے کہ 2021ء کے دوران برسہا برس کے بعد انہیں امن و چین نصیب ہوا۔ انہوں نے کہا کہ امسال ہم کئی برسوں کے بعد اچھی طرح سے اپنا کام کاج بھی کر سکے اور ہمارے بچے بھی بغیر کسی خوف و خطر کے کام کرنے یا کھیلنے کی غرض سے باہر جا سکے۔

ادھر بھارتی فورسز نے 2021ء کے دوران سرحدوں پر بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود برآمد کرنے کے علاوہ کروڑوں روپے مالیت کی منشیات بھی ضبط کرنے کا دعوٰی کیا۔ شمالی کشمیر کے ضلع کپوارہ میں ایل او سی پر 14 اپریل کو دس کلو منشیات برآمد کی گئی جس کی بین الاقوامی بازار میں قیمت قریب 50 کروڑ روپے تھی اور اس کے بعد 25 جون کو شمالی مقبوضہ کشمیر میں ہی لائن آف کنٹرول پر دو الگ الگ آپریشنز کے دوران جنگی ساز و سامان کے علاوہ 30 کروڑ روپے مالیت کی ہیروئن برآمد کی گئی۔ ماہ ستمبر میں بھارتی فوج نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول پر امسال سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیوں کی سطح صفر پر آگئی ہے تاہم سرحد کے اس پار بیٹھے عسکری پسندوں نے دراندازی کرنے کی کچھ کوششیں کیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2021ء میں ایل او سی پر ضلع پونچھ اور اوڑی کے نوشہرہ سیکٹر میں دراندازی کی کوششوں کے دوران 15 عسکری پسند مارے گئے جبکہ بھارتی فوج کے چار جوان بھی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سال گزشتہ شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں ایل او سی پر سیز فائر معاہدے کی 28 خلاف ورزیاں ہوئی تھیں جن کے نتیجے میں چار فوجی جوان اور پانچ عام شہری جان بحق ہوئے تھے جبکہ کپوارہ میں ایل او سی پر سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کے 16 واقعات پیش آئے تھے جن میں پانچ عام شہری اور 12 فوجی جوان از جان ہوئے تھے۔

بھارتی حکومت کی طرف سے سرحدی سیاحت کو فروغ دینے کی ایک کڑی کے طور پر 2021ء کے دوران کئی سرحدی سیاحتی مقامات کو دریافت کیا گیا اور سیاحوں کی بڑی تعداد ان مقامات پر پہنچی، 2021ء کے دوران سرحدوں پر چھائی رہنے والی خاموشی سے جہاں سرحدی بستیوں کے لوگ خوش نظر آ رہے ہیں، وہیں بعض لوگ ان خدشات کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ اس امن و چین کی فضا کی عمر کہیں کم نہ ہو۔ انہوں نے بھارتی حکومت کی طرف سے ان کی بستیوں میں بنکر بنانے کی پہل کی سراہنا کی تاہم یہ بھی کہا کہ ان کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہیئے کیونکہ کسی بھی وقت سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کے واقعات دوبارہ رونما ہونا شروع ہو سکتے ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے مکینوں نے کہا کہ آج تک وہ اس کشیدگی کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان اٹھا چکے ہیں، جہاں کئی لوگ مارے گئے وہیں کئی زخمی ہوکر معذور بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مالی طور پر بھی نقصان ہوا ہے اور سب سے بڑا نقصان بچوں کی تعلیم کا متاثر ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی علاقوں میں غریب آبادی بستی ہے جن کے بچے اضلاع کی سطح پر پہنچ کر تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور انہیں یہاں بھی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سال 2018ء اور 2019ء ان کیلئے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کے بجائے سرحد پر امن قائم کیا جائے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ 2021ء ہی کی طرح 2022ء میں بھی سیز فائر معاہدے کی پاسداری کی جائے۔
خبر کا کوڈ : 970748
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش