0
Wednesday 29 Dec 2021 21:32

ہندو انتہاء پسندوں کی مسلمانوں کو قتل عام کی دھمکی

ہندو انتہاء پسندوں کی مسلمانوں کو قتل عام کی دھمکی
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

بھارت میں ہندوؤں کے چند اہم ترین مذہبی شہروں میں سے ایک "ہری دوار" ہے، جہاں گذشتہ دنوں ایک نام نہاد "دھرم سنسد" کا انعقاد کیا گیا، جس میں ہندو انتہاء پسند بھگوا لیڈروں نے شرکت کی۔ دھرم سنسد میں حال ہی میں مرتد ہونے والے وسیم رضوی، جس کا نیا نام جیتندر نارائن تیاگی رکھا گیا ہے، اس سمیت رسوائے زمانہ یتی نرسنگھا نند، ہندو رکشا سینا کے سوامی پرمود آنند گری، سوامی آنند سروپ سمیت درجنوں لوگ شامل تھے۔ اس نام نہاد دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف نہ صرف بیہودہ الفاظ استعمال کئے گئے بلکہ کھلے عام ان کی نسل کشی کی ترغیب دی گی اور ہندوؤں سے اپیل کی گئی کہ وہ ہندو مذہب کی حفاظت کے لئے ہتھیار اٹھا لیں اور جتنا زیادہ ہوسکے، مسلمانوں کا قتل عام کریں۔ سوشل میڈیا پر اس "دھرم سنسد" میں ہونے والی نفرت اور تشدد آمیز تقاریر کے وائرل ہونے کے بعد پورے بھارت میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سخت ردعمل سامنے آیا، لیکن اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت اور وزارت داخلہ کے مرکزی وزیر امت شاہ کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔

بعد از خرابی بسیار "ہری دوار" ضلع کے جوالا پور قصبہ کے باشندہ گل بہادر خان کی رپورٹ پر شہر کوتوالی میں وسیم رضوی یعنی جیتندر نارائن تیاگی کے خلاف نامزد ابتدائی رپورٹ درج کی گئی، باقی سب کو نامعلوم کے خانہ میں رکھا گیا۔ اس سلسلہ میں استفسار پر ضلع پولیس سربراہ نے بتایا کہ بقیہ نامعلوم لوگوں کا نام تفتیش کے دوران ثبوت ملنے پر شامل کر لیا جائے گا۔ یہ مقدمہ تعزیرات ہند کی دفعہ 153(الف) کے تحت درج کیا گیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ اس میں نہ تو دفعہ 506 قتل کی دھمکی کو شامل کیا گیا ہے اور نہ ہی دیگر سخت دفعات کو۔ معمولی سی باتوں پر قومی سلامتی قانون (این ایس اے) اور ’’یو اے پی اے‘‘ کے تحت سیاسی اور نظریاتی مخالفین خاص طور پر مسلمانوں کو ان سخت دفعات کے تحت گرفتار کرکے برسوں انہیں بنا ضمانت جیل میں سڑانے والی پولیس قانون، آئین اور انسانیت کے خلاف کئے جانے والے اس جرم کو اتنے ہلکے میں لے رہی ہے، اس سے ریاست اتراکھنڈ کی حکومت کی مرضی اور منشاء صاف ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

اسی یتی نرسنگھا نند نے دہلی میں پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس کرکے ایسی ہی بیہودہ باتیں کی تھیں، لیکن امت شاہ کے تحت آنے والی دہلی پولیس نے معمولی دفعات میں رپورٹ درج کرکے اپنے فرض سے سبکدوشی حاصل کر لی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت ہی نہیں بلکہ تشدد پر اکسانے کی حرکتوں کو حکومت اور میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کی سرپرستی حاصل ہے اور یہ سب کچھ برسر اقتدار لوگوں کی مرضی اور منشاء کے عین مطابق ہو رہا ہے۔ اگلے چند مہینوں میں اترپردیش کے ساتھ اتراکھنڈ اسمبلی کا الیکشن بھی ہونا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی کے پاس مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ترویج کے علاوہ اور کوئی حربہ بچا نہیں ہے، جس سے وہ عوام سے ووٹ مانگ سکے۔ اتراکھنڈ میں بی جے پی کی حالت کتنی پتلی ہے، اس کا اندازہ اسی سے کیا جا سکتا ہے کہ پانچ برسوں میں اسے تین بار اپنا وزیراعلٰی بدلنا پڑا اور آج بھی اس کی حالت اتنی ہی خستہ و خراب ہے۔

اتراکھنڈ جو کبھی اترپردیش ہی کا حصہ تھا، وہاں کی سیاست کا اثر اترپردیش پر بھی پڑنا لازمی ہے، اس لئے وہاں آئین اور قانون کی اس خلاف ورزی کو ٹھنڈے پیٹوں نہ صرف برداشت کیا جا رہا ہے بلکہ اس کی درپردہ حوصلہ افزائی بھی کی جا رہی ہے، لیکن اس خطرناک فرقہ وارانہ کھیل سے بھارت کو کتنا نقصان ہو رہا ہے، اس کی فکر حکمراں جماعت اور اس کے حکمرانوں کو نہیں ہے، ان کی نظر میں سیاسی فائدہ ہی سب کچھ ہے۔ آج ملک کو خانہ جنگی کے دہانہ پر کھڑا کیا جا رہا ہے، جمہوریت کو انبوہ گردی اور قانون کی حکمرانی کو اکثریت کی من مانی میں تبدیل کیا جا رہا ہے، آج کی مہذب، قانون کی حکمرانی اور حقوق انسانی کے تئیں حساس دنیا میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے، خاص طو پر حقوق انسانی کی پامالی کو اب کسی بھی ملک کا اندرونی معاملہ کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا ہے۔

حکومت، حکمراں جماعت اور اس کے نظریات کے حامی لوگوں کو ان بیانوں اور اس مجرمانہ چشم پوشی سے بھلے ہی کوئی فرق نہ پڑتا ہو، لیکن عالمی سطح پر بھارت کی زبردست بدنامی ہو رہی ہے اور دنیا کے جن ممالک میں مذہبی آزادی خطرہ میں ہے، ان ملکوں میں بھارت کو بھی شامل کر لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر 90 فیصد لوگوں نے ان اشتعال انگیز فرقہ وارانہ بیانوں کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ مودی حکومت کی سرد مہری کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے۔ یہاں تک کہ سنگھی نظریات کے حامی بھی اگر مگر کے ساتھ ہی سہی ان بیانوں کو ناقابل قبول بتا رہے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ان عناصر کے خلاف ابتدائی رپورٹ درج کرانے سے لے کر آخری مرحلہ تک جذبات کے برعکس حکمت عملی اور مستقل مزاجی کے ساتھ مقدمہ لڑا جائے تو انہیں سخت سے سخت سزا دلوائی جا سکتی ہے، لیکن یہ مستقل مزاجی کہیں دکھائی نہیں پڑتی۔ ضلعی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک ایسے سیکولر وکلاء کی کمی نہیں ہے، جو ایسے لوگوں کے خلاف پوری طاقت اور صلاحیت سے مقدمہ لڑ سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔

اترپردیش میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران 22 نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ پولیس نے حکومت کے اشارہ پر بربریت کا ننگا ناچ کھیلا۔ اس معاملہ کی ابتدائی رپورٹ تک نہیں درج ہوئی۔ کانگریس نے 700 صفحات پر مشتمل ثبوتوں کے ساتھ اس کی شکایت قومی حقوق انسانی کمیشن میں درج کرائی تھی، جس پر کمیشن نے حکومت اترپردیش کو نوٹس بھی جاری کیا تھا، لیکن تب سے کسی نے اس معاملہ کی پیروی نہیں کی اور کمیشن میں وہ درخواست دھول کھا رہی ہے۔ آج ایک وقت کے سیکولر بھارت میں نماز کی ادائیگی کا مقام تنازع کا معاملہ بنا ہوا ہے، کرسمس کے موقع پر شرانگیزی کی جا رہی ہے، مسلمانوں کے قتل عام کی بات کھلم کھلا کہی جا رہی ہے اور امن پسند شخصیتوں کو بھی بخشا نہیں جا رہا ہے۔ رائے پور کے "دھرم سنسد" میں مہاتما گاندھی کے لئے بھی توہین آمیز الفاظ کا استعمال اور مہاتما گاندھی کے قاتل رام گوڈسے کی تعریف اس کی ایک اور مثال ہے۔

اگر مان لیا جائے کہ بھارت سبھی بھارتیوں کا ہے تو پھر مسلمانوں کے قتل عام کی بات ہری دوار کے "دھرم سنسد" میں نہیں کی جاتی اور جب اس طرح کی بات کہہ دی گئی تھی تو مناسب کارروائی کرکے یہ اشارہ دیا جاتا کہ تشدد کے لئے ہمارے ملک میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہری دوار کی مقامی پولیس کا یہ بیان آیا تھا کہ وہ حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، مگر نظر رکھنا اور کارروائی کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ کیا یہ سمجھا جائے کہ ہری دوار کے "دھرم سنسد" میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے ملزمان کے خلاف خاطر خواہ کارروائی نہ کرنے سے اس طرح کی سوچ رکھنے والے لوگوں کا حوصلہ بڑھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہریانہ کے گروگرام میں کرسمس کے دعائیہ اجلاس کی مخالفت کی گئی۔ بی جے پی یوتھ مورچہ کے قومی صدر اور رکن پارلیمان تیجسوی سوریہ نے کہا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو واپس ہندو مذہب میں منتقل کرایا جانا چاہیئے۔

ہری دوار میں منعقدہ دھرم سنسد میں باقاعدہ بھگوا آئین بھی پیش کیا گیا اور ایک ہندو انتہاء پسند لیڈر تو اپنی ہرزہ سرائی میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے کہا کہ اگر میرے پاس بندوق ہوتی تو میں ناتھو رام گوڈسے بن جاتا اور سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کو قتل کر دیتا۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جس سماج میں تشدد ہوتا ہے، فرقے وارانہ فساد ہوتا ہے، وہاں پر تمام ترقیاتی سرگرمیاں ٹھپ ہو جاتی ہیں اور ملک آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے چلا جاتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ابھی تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے اس طرح کی اشتعال انگیزیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ کے پولیس سربراہ نے یہ کہہ کر اپنا پلا جھاڑ لیا کہ اس سلسلے میں ابھی تک ان کے پاس کوئی شکایت نہیں آئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 970749
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش