QR CodeQR Code

شہدائے گمنام۔۔۔ آخر کب تک؟(2)

28 Dec 2021 18:30

اسلام ٹائمز: اگر پاکستان سے کچھ لوگ حرم اہلبیت کے دفاع کیلئے گئے تو یہ اُنکا بنیادی حق تھا، کیونکہ پاکستان سے لوگ داعش کیلئے جا رہے تھے، حرمِ سیدہ زینب کو خطرات تھے اور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اگر حرم ثانی زہراء کو خطرہ ہوا تو ہمیں اپنی زندگیوں کی پروا نہیں ہے۔ پاکستان سے چند لوگ حرم کے دفاع کیلئے گئے تو کیا 2011ء سے اب تک پاکستان میں ایک بھی سانحہ ہوا؟ دس سالوں سے کیا یہ لوگ ملکِ عزیز کیلئے تھریٹ بنے ہوں؟ یا ان افراد نے پاکستان میں کسی جگہ کوٸی حملہ کیا ہو؟ تو ایسا ہرگز نہیں ہے اور ایسی کوٸی سادہ سی بھی مثال نہیں ملتی۔


تحریر: سویرا بتول

ہم اکثر و بیشتر اپنی تمام تر مصروفیات سے صرف نظر کرتے ہوٸے شہداٸے مدافعینِ حرم پر قلم ضرور اٹھاتے ہیں۔ کجا اِس کہ اس اہم موضوع پر قلم اٹھانے پر بہت سارے احباب ناراض بھی ہوٸے، طعن و تشنیع سے نوازا گیا، کردار کشی جیسا پست حربہ استعمال کیا گیا مگر ہم تمام تر بادِ مخالف کے باوجود معاشرے کے خواص کو اس اہم موضوع کی کی طرف متوجہ کرتے رہے ہیں اور اپنا الہیٰ فریضہ سمجھتے ہوٸے  شہداٸے اسلام کی قربانیوں اور فلسفہ شہادت کو بیان کرتے رہے ہیں۔ ہمیں اس موضوع پر لکھتے ہوٸے ایک مدت گزر گئی ہے، اس مدت کے درمیان جن تجربات کا مشاہدہ کیا، وہ بہت تلخ ہیں۔ خاص طور پر شہداٸے زینبیون پر لکھی گئی اپنی کتاب کے لیے در در کی خاک چھاننی پڑی، خلوص پر شک کیا گیا، یہاں تک کہا گیا کہ آپ کسی خاص ہدف کے تحت لکھ رہی ہیں، بلاشبہ یہ الفاظ، یہ تہمتیں، جگر چھلنی کر دیا کرتیں تھیں، مگر اس سب عرصہ میں ہر لمحہ شہداٸے زینبیون کے معجزات اور کرامات کا بغور مشاہدہ کیا۔

شہداٸے زینبیون کی مظلومیت کا ادراک بھی قریب سے ہوا، یہ مشکل لمحات ناقابلِ بیان ہیں۔ اگر ارادے پختہ ہوں اور مدافع ولایت جناب سیدہ کا لطف و کرم شاملِ حال ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔ یہ مکتب اس قدر یتیم ہے کہ یہاں حق بات کہنے والا ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے، اُس کے خلوص کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، شہداء کے گمنام کتبے ہماری بےحسی اور نام نہاد مصلحت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم آج تک زینبیون کے حوالے سے ریاست سے دو ٹوک موقف حاصل نہیں کرسکے۔ آج بھی مدافعینِ حرم کے اہل خانہ کو ہراساں کیا جاتا ہے، اس موضوع کو اس قدر حساسیت کی نظر کر دیا گیا کہ شہادت شہادت کا راگ الاپنے والے مدافعین کا نام سنتے ہی بدک جاتے ہیں۔ دنیا کے ہر موضوع پر لب کشاٸی کرنے والوں کی زبانیں مدافعین کا نام سنتے ہی چپ کا روزہ رکھ لیتی ہیں۔

ایک عزیز ہستی کا پیغام موصول ہوا کہ حالات خراب ہیں، آپ ان دنوں مدافعین پر مت لکھیے۔ ہمارا عاجزانہ اور معصومانہ سوال ہے کہ شیعیانِ علی کے لیے کب حالات سازگار ہوٸے ہیں؟ کن ادوار میں ہم نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہیں کیں؟ ہماری تکفیری کے فتوے جاری کیے گئے، ہمارا خون مباح قرار دیا گیا۔ اس ملک کے بانی کو شیعہ شناخت کی بنا پر کافر اعظم کہا گیا۔ ہر فیلڈ میں ماہر شخصيات کو چن چن کر ٹارگٹ کلنگ کرکے مارا گیا۔ ہم نے کبھی ریاست کے خلاف اقدامات نہیں کیے، ہمیشہ پرامن طور پر احتجاج کیا، مگر پھر بھی ہمیں بلیک میلر کہا گیا۔ شب و روز ہمارے گلے کاٹے گئے، بیلنس پالیسی کے نام پر ہمارے جوانوں کو شب کی تاریکیوں میں سالوں لاپتہ کیا گیا، ہم نے کبھی جوابی لشکر نہیں بناٸے، مگر آج بھی ہمارے جوانوں کو ہراساں کرنا، مدافعین کے اہل خانہ کو ایذا پہنچانا، انہیں غدارِ وطن کہہ کر اپنے ملک واپس نہ آنے دینا، ثابت کرتا ہے کہ شیعیانِ علی پر زمین تنگ کی جا رہی ہے اور یہ سلسلہ مدتوں سے جاری ہے۔

زینبیون کے اہلِ خانہ کو واپس وطن آنے کی اجازت نہ دینے پر ہزاروں تاویلات پیش کی جاتی جاتی ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ نوجوان فلاں پروجیکٹ کے لیے خطرہ ہیں تو کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ شہداء فلاں پریذیڈنٹ کو بچانے کی جنگ میں گئے اور کبھی اس کو سکیورٹی کے لیے تھریٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لیکن اس بارے میں یہ نہیں سوچا جاتا کہ دسیوں سال سے وہ پودا جسے امریکہ سے لیکر عرب ریالوں اور عجم ٹیکنالوجیز اور اسلحہ کے ساتھ لیس ہو کر دسیوں سال جہاد کے نام پر پرورش دی گئی اور جس کے ہاتھ ہزاروں مسلمانوں کے خون میں رنگین ہیں، وہ اپنی اتنی عظیم تعداد اور اتنے عظیم وساٸل کے باوجود نہ تو کسی اسٹیٹ کے لیے سکیورٹی تھریٹ بن سکی اور نہ کسی سی پیک کو اس سے خطرہ ہوسکا تو کیونکر چند ایک ایسے جوان جو اپنی حمیت دینی اور فریضہ شریعی کی اداٸیگی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دے گئے اور آج کی یزیدیت کے کالے منصوبوں کو ناکام بنا گئے، وہ کسی ملک کے لیے کیسے سکیورٹی تھریٹ ہوسکتے ہیں؟ جبکہ وہ درحقیقت پوری دنیا کو واحشی داعشیوں کے سکیورٹی تھریٹ سے نجات دلوانے والے حقیقی ہیروز ہیں۔

اگر پاکستان سے کچھ لوگ حرم اہل بیت کے دفاع کے لیے گئے تو یہ اُن کا بنیادی حق تھا، کیونکہ پاکستان سے لوگ داعش کے لیے جا رہے تھے، حرمِ سیدہ زینب کو خطرات تھے اور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اگر حرم ثانی زہراء کو خطرہ ہوا تو ہمیں اپنی زندگیوں کی پروا نہیں ہے۔ پاکستان سے چند لوگ حرم کے دفاع کے لیے گئے تو کیا 2011ء سے اب تک پاکستان میں ایک بھی سانحہ ہوا؟ دس سالوں سے کیا یہ لوگ ملکِ عزیز کے لیے تھریٹ بنے ہوں؟ یا ان افراد نے پاکستان میں کسی جگہ کوٸی حملہ کیا ہو؟ تو ایسا ہرگز نہیں ہے اور ایسی کوٸی سادہ سی بھی مثال نہیں ملتی۔یہ چند لوگ تھے، لیکن یہ تاثر دیا گیا کہ بیشتر پاکستانی شیعہ شاید اسی امر کو انجام دینے مگن ہیں۔ البتہ ہمارے دل و جذبات ان سب مدافعین حرم کے شہداء کے ساتھ ہیں، جنہوں نے اسلام کی حمیت کی حفاظت کی اور بلاشبہ سیدہ زینب کے حرم کی حفاظت شیعہ سنی مسلمانوں کے نزدیک اہم ترین منصب اور فرض قرار دیا جاتا ہے۔ اب یوں مدافعین حرم کے اہل خانہ کو وطن واپس نہ آنے دینا اور ہمارے جوانوں کو لاپتہ کر دینا نہایت تشویشناک صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ سلسلہ کب رکے گا، آخر کب تک۔؟


خبر کا کوڈ: 970798

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/970798/شہدائے-گمنام-آخر-کب-تک-2

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org