1
Thursday 30 Dec 2021 18:12

محمود عباس کی صہیونی وزیر جنگ کے در پر گدائی

محمود عباس کی صہیونی وزیر جنگ کے در پر گدائی
تحریر: محمود حکیمی
 
یہ پہلی بار نہیں کہ فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے وزیر جنگ بینی گانٹز سے ملاقات کی ہے۔ اگست کے آخر میں بھی ان دونوں نے ایکدوسرے سے ملاقات کی تھی اور اس موقع پر بینی گانٹز فلسطین اتھارٹی کے مرکز، رام اللہ آئے تھے۔ اس وقت کہا جا رہا تھا کہ وہ محمود عباس سے دوبارہ ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن نہ صرف یہ توقع نہیں کی جا رہی تھی کہ دوسری ملاقات اتنی جلدی انجام پائے گی بلکہ توقع یہ تھی کہ دوسری ملاقات اگلے سال انجام پائے گی۔ اسی طرح کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس، شہر راس العین میں اسرائیلی وزیر جنگ بینی گانٹز کے گھر جا کر ان سے ملاقات کریں گے۔
 
محمود عباس کا یہ اقدام نہ صرف بے سابقہ ہے بلکہ اسرائیلی وزیراعظم نیفتالی بینٹ کی جانب سے ان سمیت فلسطین اتھارٹی کے کسی بھی عہدیدار سے ملاقات سے واضح انکار کے تناظر میں ذلت آمیز بھی ہے۔ لہذا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محمود عباس نے اس حد تک ذلت کیوں برداشت کی ہے اور ان کے اس ذلت آمیز اقدام سے فلسطینیوں کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ بینی گانٹز کے گھر جانے میں محمود عباس کا حقیقی محرک بے چارگی ہے۔ رام اللہ میں فلسطینیوں کے رائے عامہ اور پالیسی سازی کے تحقیقاتی ادارے نے 21 ستمبر کے دن ایک سروے رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہر پانچ فلسطینی شہریوں میں سے چار شہری محمود عباس کا استعفی چاہتے ہیں۔
 
اس تحقیقاتی ادارے کے سربراہ خلیل شقاقی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ محمود عباس کی گذشتہ 17 سالہ سربراہی کے دوران یہ کسی بھی سروے میں ان کیلئے حاصل ہونے والے بدترین نتائج ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محمود عباس کے استعفی کا مطالبہ کرنے والے فلسطینی شہریوں کی 50 فیصد تعداد فلسطینیوں کی قیادت حماس کے سپرد کرنے کے حق میں ہے۔ اس سروے رپورٹ کے مطابق 45 فیصد شرکت کرنے والے افراد نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ فلسطین کی سربراہی حماس کو سونپ دینی چاہئے جبکہ صرف 19 فیصد افراد نے فتح کی سیکولر تنظیم اور اس کے سربراہ محمود عباس کو قیادت کے لائق قرار دیا ہے۔ یاد رہے اس سال موسم بہار میں فلسطین میں الیکشن منعقد ہونے تھے لیکن محمود عباس نے الیکشن موخر کرنے کا اعلان کر دیا۔
 
غاصب صہیونی ٹی وی کے چینل 17 نے بینی گانٹز اور محمود عباس کے درمیان انجام پانے والی ملاقات کے بارے میں رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی وزیر جنگ نے محمود عباس کو 100 ملین شیکل (صہیونی کرنسی) دینے کے علاوہ فلسطینی تاجروں کیلئے 600 تجارتی لائسنس، گاڑی کے ساتھ مقبوضہ فلسطین داخل ہونے کیلئے 500 اجازت نامے اور فلسطین اتھارٹی کے اعلی سطحی عہدیداروں کیلئے دسیوں دیگر اجازت نامے جاری کئے ہیں۔ نیفتالی بینٹ کی سربراہی میں غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر کو جاری رکھنے اور مقامی فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کی پالیسی اختیار کئے جانے کے تناظر میں محمود عباس کی جانب سے یہ مراعات حاصل کرنا انتہائی درجہ ذلت آمیز اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔
 
یہ چند تجارتی لائسنس اور مقبوضہ فلسطین میں داخل ہونے کے اجازت نامے نہ صرف فلسطینیوں کو ان کے آبائی گھر اور جائیدادیں واپس دلا سکتے ہیں اور نہ ہی غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر کیلئے مقامی فلسطینیوں کے آبائی گھروں کی مسماری اور نابودی کو روک سکتے ہیں بلکہ خود ان وعدوں کے پورا ہونے کی یقین دہانی بھی موجود نہیں ہے۔ یاد رہے کہ جس نے محمود عباس کو یہ تمام وعدے دیے ہیں وہ صہیونی وزیر جنگ ہے اور صہیونی وزیراعظم یا کوئی اور اعلی سطحی عہدیدار اس کا چیف ہونے کے ناطے ان تمام مراعات کو ختم کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ صہیونی وزیراعظم نیفتالی بینت کا جھکاو دائیں بازو کی جماعتوں کی جانب ہونے کے ناطے ایسا ہونے کا امکان بہت قوی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی معلوم نہیں کہ محمود عباس ان مراعات کو فلسطینی شہریوں تک کیسے منتقل کریں گے۔
 
فلسطینی شہریوں کی اکثریت محمود عباس کو قیادت کے لائق نہیں سمجھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ محمود عباس بینی گانٹز کے دروازے پر گدائی کا کشکول لے کر گئے اور انہیں چند تجارتی لائسنس اور مقبوضہ فلسطین داخل ہونے کے اجازت ناموں کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ دوسری طرف اسلامی مزاحمت کی تنظیمیں جیسے حماس اور اسلامک جہاد غاصب صہیونی رژیم کے مقابلے میں طاقتور پوزیشن اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حماس اور اسلامک جہاد نے ثالثی کرنے والے ملک مصر پر واضح کر دیا ہے کہ وہ قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں مذاکرات مزید جاری نہیں رکھ سکتے کیونکہ ان کا انجام معلوم نہیں ہے۔ اسلامی مزاحمتی گروہوں کی اس شجاعت اور حب الوطنی کے باعث فلسطینی شہریوں میں ان کی محبوبیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے اور یوں دکھائی دیتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد محمود عباس 19 فیصد شہریوں کی حمایت بھی کھو دیں گے۔
خبر کا کوڈ : 971137
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش