0
Thursday 30 Dec 2021 19:30

وادی عشاق الشہداء(2)

وادی عشاق الشہداء(2)
تحریر :سویرا بتول

وہ سر جھکاٸے تیز تیز قدم اٹھاتی، لبیک یاحسین علیہ السلام کی پیٹیاں سنبھالے اپنے گھر کی طرف روانہ تھی۔ وہ ہمیشہ اِس راستے سے گزرتے وقت شدید اضطراب کاشکار ہو جاتی تھی، اس لیے آج اُس نے دوسرے راستے سے جانے کا سوچا۔ آج شب جمعہ تھی، یہ ایامِ فاطمیہ کے دن تھے اور آج سے چند روز بعد شہید حاج قاسم سلیمانی کی برسی تھی۔ ابھی اُسے بہت سارے الہیٰ اور تنظیمی امور کو انجام دینا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی کا جملہ ”ما ملت شہادتیم“ ہروقت اس کے ذہن میں بازگشت کرتا اور وہ ساری رات شہداء سے توسل کرتے گزار دیتی۔ ابھی وہ راستہ تبدیل کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ اُسے شہید مصطفیٰ چمران کی مناجات کی صدا سناٸی دی: ”اے محبوب میرے خدا! تو نے ہی میرے سامنے ایک نئی دنیا کا در کھولا، تاکہ میری اچھی طرح آزمائش کر لے۔ تو نے ہی مجھے حوصلہ دیا کہ پروانہ بنوں، جلوں، نور بانٹوں، عشق کروں، انسان کی بے نظیر قوتوں کا اظہار کروں، تاکہ میں ایک جدید، مضبوط اور الہیٰ راستے کا مسافر بن سکوں۔ مظہر بن جاٶں، عشق ہو جاٶں، نور میں تبدیل ہو جاٶں، اپنے وجود سے جدا ہو کر معاشرے میں تحلیل ہو جاٶں، تاکہ اپنے محبوب حقیقی کے علاوہ کسی کو نہ دیکھ پاٶں، عشق و فداکاری کے علاوہ اور کسی راستے پر نہ چلوں، موت سے آشنا ہو جاٶں اور اس سے دوستی کر لوں، یہاں تک کہ سرخ موت یعنی شہادت کا جام پی لوں۔

وہ جانتی تھی، جو شہید یہ مناجات کر رہا ہے، وہ سادہ انسان نہیں ہے۔ اُس نے اعلیٰ ترین علمی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ زمانے کے گرم و سرد کا ذاٸقہ چکھ چکا ہے۔ خوبصوت ترین اور شدید ترین عشق کے مراحل سے گزر چکا ہے۔ لذاتِ زندگی کے درخت سے خوشہ چینی کر چکا ہے۔ ہر خوبصورت اور محبوب چیز کی لذت لے چکا ہے۔اس نے کمال و ثروت کی انتہاء تک پہنچ کر ہر چیز کو چھوڑ دیا اور اپنے مقدس ہدف کی خاطر درد آلود و اشکبار زندگی اور شہادت کو گلے لگا لیا ہے۔ ابھی وہ شہید مصطفیٰ چمران کی مناجات سن کر کچھ آگے بڑھی تو ایک مسند پر ایک شہید کو بیٹھے دیکھا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے یوں مخاطب تھے: "اے میرے دوستو! جلدی کرو کہ زمین رہنے کی جگہ نہیں، صرف گزرگاہ ہے، نفس سے گزرنا اور خوشنودی خدا کی طرف سفر کرنا۔ کبھی تم نے سنا ہے کہ کوٸی گزرگاہ پر رہاٸش پذیر ہو جاٸے؟ اور شک نہ کرو کہ موت یہاں سب سے زیادہ تمہارے نزدیک ہے۔ میرے ساتھیو! ناامید نہ ہوں کہ تمہارے لیے بھی کربلا اور عاشورہ ہے۔ جس میں کچھ تمہارے خون کے بھی پیاسے ہیں اور کچھ عاشقانِ امام انتظارکر رہے ہیں کہ تم خاکی وجود کی زنجیروں کو کھول دو اور اپنے آپ سے اور اپنی دلی وابستگیوں سے ہجرت کرو اور زماں و مکاں سے بالاتر ہوکر آگے بڑھو اور خود کو سن اکسٹھ ہجری کے قافلے تک پہنچاٶ اور امامِ عشق کی رکاب میں اُس لذت اور سرمستی کو محسوس کرو، جسے حُر اور حبیب نے محسوس کیا۔"

یہ بہشتِ زہراء کا پُرکیف منظر تھا، جہاں ہر طرف شہداء کے نورانی جسد پھولوں کی طرح بکھرے ہوٸے تھے، جو شہادت کے پروں سے پرواز کرتے ہوٸے ذاتِ اقدس کی طرف چلے گئے، لیکن اُن کے خونی جسد یہاں وہاں بکھرے پھولوں کی مانند پڑے تھے۔ وہ ایک گمنام شہید کی قبر پر موجود تھی، اِس شہید کو پہلی بار دیکھنے پر لگتا تھا کہ یہ دنیا پسند جوان ہوگا لیکن ایسا نہ تھا، وہ جوان عاشقِ خدا تھا، جس کی خوبصورت آنکھیں عشقِ خدا میں آنسو بہایا کرتی تھی۔ وہ جوان جو مثل حسنِ یوسف حسین تھا، مگر اپنے حسن کو خاطر میں نہ لاتے ہوٸے اپنی جان راہِ خدا میں قربان کر دی۔

اے شہیدو ہمیں بھی بتاٶ کہ ہم بھی تمہارے راستے پر اپنے قدم رکھیں اور تمہارے جوار میں آجاٸیں۔ تم کس مکتب کے موذن ہو کہ تمہاری آنکھوں میں نورِ ایمان اور نگاہوں میں شہادت کا انتظار جلوہ گر رہتا تھا۔ ہمیں بھی بتاٶ اے لالہ کے سرخ پھولو!، اے آزاد اور پارسا لوگو! اے حسینی راستے کے مسافرو! اے کوٸے دوست کے راہیو! تم کس ستارے کی طرف بلاٸے گئے ہو؟ تم نے ایسا کیا کر دیا کہ اس تک پہنچ بھی گئے ہو اور تمہارے ہونٹوں پر ہمیشہ عروج و پرواز ہی کی باتیں رہتی ہیں۔؟ ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہماری بھی رہنمائی کرو اور ہمیں اس دنیا میں تنہا نہ چھوڑو۔ ہاں، اے دوستو! تمہارے سوگ میں زندگی کی ذمہ داریاں نبھانا ہمارے لیے مشکل ہوگیا ہے۔ اس دنیا میں جس طرف بھی ہم دیکھتے ہیں، تمہاری ہی مقدس روح ہمارے اعمال و افعال کا نظارہ کر رہی ہوتی ہے۔ تمہیں ایسا عروج مبارک ہو، خدایا ہمیں بھی اس رازِ شہادت سے آشنا کر کہ اب یہ دنیا اپنی تمام تر وحشتیں سمیٹے ہمیں اپنے گرداب میں جکڑ رہی ہے۔

وہ ان الفاظ کی تکرار کرتے مسلسل شہداء سے شکوہ کناں تھی کہ ایک شہید کی آواز آٸی کہ رسمِ عاشقی تو یہ ہے کہ دیدارِ یار کی خاطر در بدر بھٹکا جاٸے۔ یہ کیسا عشق ہے کہ فراقِ معشوق میں ابھی نہ چہرے کا جمال ڈھلا ہے اور نہ کثرتِ گریہ سے آنکھوں کی بیناٸی زاٸل ہوٸی ہے؟ ابھی تو مثلِ زلیخا اپنے یوسف کی خوشبو بھی نہیں آٸی؟ یہ کیسا عشق ہے، منقمِ کربلا (عج) اور شہداء سے؟ ابھی تو تم میں کوٸی مثلِ بوذر اور سلمان نہیں؟ کوٸی حر اور حبیب سا نہیں۔ اس کے پاس سواٸے سر جھکانے کے کوٸی جواب نہ تھا کہ دفعتاً ایک شہید کی آواز آٸی کہ "اگر کانٹے دار تاروں کو عبور کرنا ہے تو پہلے اپنے نفس کی کانٹے دار تاروں کو عبور کریں۔ جب تک ہم اپنی ذات کے اردگرد پھنسے ہوٸے ہیں، کوٸی کام انجام نہیں دے سکتے اور یہ بات اُس نے ہمیں سیکھاٸی ہے، جو خود بیس سالہ مجاہد ہے۔ میں نے اُس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر کہا: تمہیں بتانا ہوگا کہ اس ماجرا کا راز کیا ہے؟ یہ شہادت کا ماجرا، مجھے بتاٶ میں نے کیوں ابھی تک مقامِ شہادت کو درک نہیں کیا؟ اِس نے مجھ پر ایک نگاہ ڈالی، ہلکا سا تبسم کیا اور سر جھکا کر کہا: شہادت کا راز آنسوٶں میں چھپا ہے۔ اس راز کو اشکوں میں تلاش کرو۔" ابھی مزید کلام کرنا چاہا کہ شہید تبسم کرتے روانہ ہوگئے اور ہاتھ میں "ما ملت شہادتیم" کی پٹی ہنوز آنسوٶں سے تر تھی۔
خبر کا کوڈ : 971174
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش