0
Friday 31 Dec 2021 05:44

روس یوکرائن تنازع اور پابندیوں کا امریکی ہتھیار

روس یوکرائن تنازع اور پابندیوں کا امریکی ہتھیار
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

روس اور یوکرائن کے درمیان اختلافات چل رہے ہیں اور کافی عرصے سے علاقے میں جنگی صورتحال ہے۔ یورپ اور امریکہ مسلسل یوکرائن کو تھپکی دے رہے ہیں، کچھ دنوں بعد ایک آدھ بیان روس کے خلاف دے دیا جاتا ہے اور یوں محاذ گرم رہتا ہے۔ ابھی بائیڈن اور پیوٹن کے درمیان فون پر بات ہوئی ہے، جس میں پیوٹن نے بڑے واضح الفاظ میں یوکرائن کے مسئلے پر روس کے خلاف پابندیاں لگانے کی صورت میں متنبہ کیا ہے۔ یہ روس اور امریکی صدور کے درمیان دوسری گفتگو تھی۔ روسی صدر نے کہا کہ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی خطے کی سکیورٹی صورتحال کا درست اندازہ نہیں کر رہے۔ روس کو خطرہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو ممبر ممالک بڑی تیزی سے ان ممالک کو گھیر رہے ہیں، جو سویت یونین کا حصہ رہے ہیں۔ اگلے ماہ ویانا میں نیٹو ممالک اور روس کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں۔ اس میں روس کا مطالبہ یہ ہے کہ کسی بھی سوویت یونین میں شامل رہی ریاست کو نیٹو کا حصہ نہ بنایا جائے اور وسطی و مشرقی یورپ سے افواج اور دیگر دفاعی تنصبات کو منتقل کیا جائے۔

برطانیہ نے کہا ہے کہ اگر روس یوکرائن پر حملہ کرتا ہے تو اس کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچانے والی پابندیاں لگائی جائیں گی۔ دیکھا جائے تو روس کا مطالبہ کئی لحاظ سے درست نظر آتا ہے کہ نیٹو اور امریکہ امن چاہتے ہیں تو انہیں روس کے نزدیک فوجی کارروائیوں سے گریز کرنا ہوگا۔ جب وہ فوجی تنصیبات تعمیر کریں گے اور افواج کو تعینات کریں گے تو مسائل پیدا ہوں گے اور جنگی صورتحال موجود رہے گی۔ روس کا یہ کہنا ہے کہ وہ یوکرائن پر حملے کا ارادہ نہیں رکھتا، مگر نیٹو اور امریکہ مسلسل اسی کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو سوویت یونین کا حصہ رہنے والی ریاستوں میں امریکی اور نیٹو کی مداخلت بڑھ گئی ہے اور روس اسے اپنے لیے ایک چیلنج کے طور پر دیکھتا ہے۔ یوں فرض کر لیں کہ یہ ریاستیں ایک طرح سے روس اور نیٹو  اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بفر زون ہیں۔ روس ہر قیمت پر چاہتا ہے کہ یہ سابقہ ریاستیں اس کے زیراثر رہیں اور ان کے فیصلے واشنگٹن کی بجائے ماسکو میں  ہوں۔

آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ بندی کی ڈیل بھی ماسکو میں ہوئی تھی، یہ الگ بات ہے کہ آذربائیجان بڑی تیزی سے نیٹو کیمپ میں جا رہا ہے اور امریکہ وہاں اسرائیل کے ذریعے سرایت کرچکا ہے۔ یوکرائن کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، یوکرائن بڑی تیزی سے نیٹو کا اڈہ بنتا جا رہا ہے۔ روس اسے اپنے لیے ایک سکیورٹی تھریٹ سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ یوکرائن ہر صورت میں اس سے باز رہے۔ امریکہ نے کسی بھی سویت یونین ریاست کو نیٹو میں شامل نہ کرنے کے مطالبہ پر کہا کہ اس کا فیصلہ نیٹو کے رکن ممالک اور جو ملک شامل ہو رہا ہے، وہ کرے گا، کسی اور ملک کو یہ بتانے کا حق نہیں ہے۔ کیا امریکہ اور اس کے اتحادی دوسرے ممالک کو بھی یہ حق دیتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ کے خلاف کسی اتحاد کو تشکیل دیں یا کسی اتحاد کا حصہ بنیں۔؟امریکہ کو چھوڑیں، بدلتے سعودی عرب کے ولی عہد محترم اور سعودی انتظامیہ نے  پاکستان کو ملائیشیا میں ہونے والے اجلااس میں شرکت سے  روکا اور ہمارے وزیراعظم محترم عمران خان صاحب جو ملائیشیا جانے کے لیے ائیرپورٹ تشریف لے جا رہے تھے، وہ سعودی عرب پہنچ گئے، حالانکہ ان کے ہیرو مہاتیر محمد ملائیشیا میں ان کے منتظر تھے۔

کچھ دن پہلے خبر آئی تھی کہ امریکی انتظامیہ نے چین کی ان تمام کمپنیوں سے لین دین پر پابندی لگا دی ہے، جو کسی بھی طرح ان کے مطابق چینی مسلمانوں کے حراستی مراکز میں کی گئی مزدوری سے متعلق ہیں یا ان کا مال اس سامان سے تیار ہوا، جو کپاس یا جنس ان مسلمانوں کی محنت سے اگی ہے، جن کو امریکہ حراستی مراکز قرار دیتا ہے۔ اس مسئلے کو انسانی حقوق کے مسئلے سے زیادہ تجارتی جنگ کی ایک چال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جب امریکی کمپنیاں چین کا مقابلہ تجارتی میدانوں میں نہیں کرسکیں اور چینی کمپنیاں خود امریکہ میں چھا گئیں تو ان پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف بھی پابندیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ ایک ایرانی تجزیہ کار کے مطابق امریکہ کے پاس اب ایران کے خلاف پابندیاں لگانے کے لیے کوئی چیز نہیں بچی، اس لیے وہ لگائی ہوئی پابندیاں دوبارہ بلکہ سہ بارہ لگا رہا ہے۔ امریکہ کو ایران میں انسانی حقوق نامی کسی چیز سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ آج ایران اپنی آزاد خارجہ پالیسی کو امریکہ کے تابع کر دے تو ایران خطے کا جمہوری ترین ملک قرار پائے گا۔ شاہ کے دور میں کونسی جمہوریت تھی۔؟ اس وقت امریکہ و یورپ کو نہ انسانی حقوق کی فکر تھی اور نہ ہی جمہوری نظام کی برکات سے ایرانی عوام کو مستفید کرنے کے حسین خیالات آتے تھے، مگر جیسے ہی خطے سے ان کے شیطانی نظام کو اکھاڑ کر پھینکا گیا تو یہ لوگ انسانیت دوستی کے نام پر انسانیت دشمنی کا ایجنڈا لے کر آگئے۔

افغانستان میں امریکہ کو بڑی شکست ہوئی ہے، اب امریکہ یہ چاہتا ہے کہ اس سبکی کو کسی چھوٹی موٹی جعلی فتح سے ہی برابر کیا جائے۔ لگ یوں رہا ہے کہ اس کے لیے یوکرائن کو میدان جنگ بنانے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ اب یہ نیٹو اور یورپ کی  سفارتکاری کا امتحان ہے کہ وہ اس امریکی جنگی خواہش کے مطابق اپنے بارڈرز پر جنگ کے شعلے دیکھنا چاہتے ہیں یا یوکرائن کو شہ دینے کی بجائے روس سے معاملات سیدھا کرنے کا مشورہ دے کر امن سے کام چلاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 971268
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش