0
Friday 31 Dec 2021 23:40

قاسم سلیمانی، عالمی سطح پر اثر گزار مکتب

قاسم سلیمانی، عالمی سطح پر اثر گزار مکتب
تحریر: چارلس ابو نادر (العہد نیوز وب سائٹ)
 
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی قدس فورس کے سابق سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے جہادی ساتھی حشد الشعبی کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس کی شہادت کو دو سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ یاد رہے انہیں آٹھ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایک امریکی ڈرون طیارے نے میزائل حملوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا تھا۔ امریکی اور صہیونی حکمران اس ظالمانہ ٹارگٹ کلنگ کے سنگین نتائج اب بھی بھگت رہے ہیں۔ یہ نتائج اس مجرمانہ اقدام کی سزا کے طور پر نہیں ہیں کیونکہ عالمی، انسانی اور جنگی قوانین کو پامال کرنا ان کی عادت ہے، بلکہ یہ سنگین نتائج شہید قاسم سلیمانی کے راستے اور ان کے مزاحمتی مکتب کی وجہ سے ہیں جو بدستور ثابت قدم اور استوار ہیں اور روز بروز وسیع تر ہوتے جا رہے ہیں۔  
 
شہید قاسم سلیمانی کی پوری زندگی جہاد اور جدوجہد میں بسر ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ان قاتلوں کے خلاف مزاحمت اور قیام کے ذریعے عظیم اہداف حاصل کئے۔ اسی طرح دیگر ایسے اہداف بھی تھے جن کے بارے میں یہ عالمی طاقتیں توقع کر رہی تھیں کہ شہید قاسم سلیمانی انہیں حاصل کرنے کے درپے ہیں جبکہ یہ قاتل طاقتیں ان اہداف کے ممکنہ حصول سے شدید خوفزدہ اور ہراساں تھیں۔ لہذا ان طاقتوں نے انہیں شہید کر کے اس ڈروانے خواب سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جنرل قاسم سلیمانی کو شہید کرنے کے بعد انہیں سمجھ آئی کہ وہ اہداف پہلے سے بھی زیادہ موثر انداز میں پورے ہو رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہید قاسم سلیمانی کے راستے اور مکتب کے تسلسل اور روز بروز وسعت اختیار کرنے کی کیا وجہ ہے؟
 
شہید قاسم سلیمانی نے ابتدا سے ہی فوجی اور جہادی راستہ اختیار کر رکھا تھا۔ ان کی جہادی زندگی کا آغاز ایران عراق جنگ کے دوران ایک چھوٹی فوجی یونٹ کے کمانڈر کی حیثیت سے ہوا۔ اس کے بعد ان کی مہارت اور تجربات میں اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ شہادت کے وقت وہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ تھے۔ وہ انتہائی اعلی فوجی مہارت رکھنے والے قابل کمانڈر تھے۔ انہوں نے فوجی یونٹ جیسی چھوٹی سطح پر اور دو بدو لڑائی میں بھی بہترین مہارت کا مظاہرہ کیا تھا جبکہ وسیع سطح پر بھی اپنی مہارت کا سکہ جما چکے تھے۔ وہ ہر مجاہد کے ساتھ انفرادی طور پر براہ راست رابطہ رکھتے تھے اور ہر سطح پر نظر رکھتے تھے۔ دوسری طرف علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر وہ اسٹریٹجک کمان کی صلاحیت رکھتے تھے۔
 
انہوں نے شام کے علاقوں القصیر، شہر اور صوبہ حلب، تدمر میں اثریا سے خناصر ہائی وے وغیرہ میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف انجام پانے والے معرکوں میں انتہائی بنیادی کردار ادا کیا۔ اسی طرح شہید قاسم سلیمانی نے عراق کے مختلف محاذوں پر بھی اپنی مہارت کے جوہر دکھائے اور پورے خطے میں اسلامی مزاحمت کیلئے عظیم کامیابیاں تحفے میں لائے۔ انہوں نے انتہائی ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شام اور عراق میں موجود تکفیری دہشت گرد عناصر کے درمیان لاجسٹک رابطہ کاٹ دینے کی حکمت عملی اپنائی اور اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ انہوں نے شام اور لبنان کی مشترکہ سرحدوں نیز شام اور عراق کے درمیان سرحدی علاقوں کو دہشت گرد عناصر سے پاک کرنے کی حکمت عملی اپنا کر اپنی فوجی بصیرت اور دور اندیشی کو ثابت کر دیا۔
 
لہذا امریکہ اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم، جو خطے میں جنم لینے والی تکفیری دہشت گردی کے حقیقی حامی تھے اور اس کے ذریعے اپنے اسٹریٹجک اہداف حاصل کرنے کے درپے تھے، نے جب یہ دیکھا کہ شہید قاسم سلیمانی اس دہشت گردی کا قلع قمع کر رہے ہیں تو انہوں نے ان کی ٹارگٹ کلنگ کا فیصلہ کر لیا۔ اگرچہ یہ فیصلہ ان کیلئے بہت مشکل تھا اور شام، عراق اور لبنان سے لے کر یمن، مقبوضہ فلسطین اور خلیج فارس تک پورے مغربی ایشیا میں جنگ کی آگ پھیل جانے کا شدید خطرہ موجود تھا لیکن وہ اس فیصلے کو ناگزیر دیکھ رہے تھے۔ البتہ ان کے اس فیصلے کی اس سے بھی زیادہ اہم اور بنیادی وجہ "مکتب قاسم سلیمانی" تھا جس کی بنیاد ہر قسم کی فوجی برابری اور فوجی طاقت سے قطع نظر اسلامی مزاحمت اور قابض دشمن قوتوں کے درمیان حتمی ٹکراو پر استوار ہے۔
 
مکتب قاسم سلیمانی نے ترقی کی، وسعت پیدا کی اور استحکام حاصل کیا۔ اس مکتب نے وہ تمام بت توڑ دیے جو امریکہ اور غاصب صہیونی رژیم نے خطے میں ایجاد کر رکھے تھے اور ان کے قریب جانے کو بھی ممنوع کر رکھا تھا۔ امریکہ اور غاصب صہیونی رژیم اپنے ان تراشیدہ بتوں اور خطے پر لاگو کی گئی مساواتوں کے ٹوٹ جانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے لیکن اسلامی مزاحمت نے انہیں توڑ کر دکھایا۔ اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں امریکہ عنقریب ایک اور ذلت آمیز شکست سے روبرو ہونے والا ہے اور وہ عراق سے اس کا فوجی انخلاء ہے۔ عراق سے امریکہ کا فوجی انخلاء اس وقت اسلامی مزاحمت کیلئے ایک مقدس وعدہ بن چکا ہے جسے ہر حال میں پورا ہونا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق سے امریکی انخلاء شہید قاسم سلیمانی اور شہید ابو مہدی المہندس کے خون کی برکت سے ممکن ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 971401
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش