0
Friday 31 Dec 2021 23:49

ایران کی نئی ڈرون ٹیکنالوجی سے صیہونی حلقوں میں کھلبلی

ایران کی نئی ڈرون ٹیکنالوجی سے صیہونی حلقوں میں کھلبلی
رپورٹ: ایل اے انجم

حال ہی میں ایران نے ایک سیٹلائٹ کو کامیابی کے ساتھ خلا میں بھیج دیا ہے، جس کے ذریعے تین تحقیقی آلات کو مدار میں پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ ایرانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ بیک وقت تین ریسرچ آلات کو ایک سیٹلائٹ کے ذریعے 470 کلومیٹر کی بلندی پر مدار میں پہنچا دیا گیا ہو۔ خلائی ٹیکنالوجی میں یہ انتہائی اہم کامیابی تصور کی جاتی ہے جو ایرانی ماہرین نے تمام تر رکاوٹوں اور پابندیوں کے بائوجود حاصل کی ہے۔ اس کی مزید تفصیل ابھی بعد میں آئے گی، لیکن اس وقت سیٹلائٹ موضوع نہیں ہے بلکہ ایرانی ڈرون ٹیکنالوجی ہے، جس سے صیہونی حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ایران کی اس نئی ڈرون ٹیکنالوجی کو گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے۔ 26 دسمبر کو یروشلم پوسٹ میں صیہونی تجزیہ کار سیٹھ جے فرانٹزمین نے ایک مضمون لکھا ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

جے فرانٹزمین یروشلم پوسٹ کے سینیئر تجزیہ کار ہیں اور وہ القدس یونیورسٹی میں امریکن سٹڈیز کے لیچکرار اور رابن سینٹر فار ریسرچ ان انٹرنیشنل افیئرز میں ریسرچ ایسوسی ایٹ رہ چکے ہیں۔ وہ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ایک نئے ایرانی ڈرون لانچر کی تصاویر پچھلے کئی دنوں سے آن لائن اور ایرانی میڈیا پر گردش کر رہی ہیں، جنہیں شاہد 136 کام نام دیا گیا ہے۔ حال ہی میں (پیغمبر اعظم) فوجی مشقوں کے دوران جہاں ایرانی فوج نے میزائلوں کا تجربہ کیا، وہاں ڈرون کا بھی تجربہ کیا گیا۔ ایران نے اس نئی قسم کے ڈرون کو ''خودکش ڈرون'' کا نام دیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ڈرون اپنے ہدف کی طرف پرواز کرتے ہیں اور وہاں پہنچ کر وہ خود کو دھماکے سے اڑا دیتے ہیں۔ اس قسم کے ڈرونز کا ذکر پہلے بھی کیا جا چکا ہے لیکن اتنی تفصیل سامنے نہیں آئی تھی۔

جنوری میں ''ٹام او کونز'' نے نیوزویک میں لکھا تھا کہ ایرانی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شاہد ڈرون دھماکہ خیز مواد لے جانے والا ایک خودکش ڈرون ہے، جنہیں یمن کے شمالی صوبے الجوزف کے علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے۔ یہ علاقے انصار اللہ کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اس قسم کے ڈرون کو بیرون ملک میں تعینات کیا گیا ہے۔ مضمون میں مزید لکھا گیا ہے کہ ایران نے اس سے پہلے خودکش ڈرون بنائے تھے، لیکن یہ مخصوص قسم کے ڈرون اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران کے پاس شاہد 136 خودکش ڈرون نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کو ملٹی پل لانچ اور ڈرون سوارمز (drone-swarming) کا نیا طریقہ بھی بنایا گیا ہے۔ ڈرون سوارمز (ڈرون کی بھیڑ) ایک نئی ٹیکنالوجی ہے، جس کے تحت اہداف پر حملہ کرنے کے لیے متعدد ڈرون استعمال کیے جاتے ہیں۔

یہ فضائی دفاع کو مغلوب کرسکتا ہے اور تباہی مچا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ ماضی میں اسرائیل یا سعودی عرب کی طرح اچھی دفاعی فضائی حدود میں ڈرون کا استعمال نہیں کیا گیا، کیونکہ ڈرون ٹیکنالوجی پر زیادہ تر امریکہ اور اسرائیل کا غلبہ رہا ہے۔ لیکن اب ایران اور چین بھی اس گیم میں داخل ہوچکے ہیں۔ ایران نے خودکش ڈرون ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ یمن کے قاصف اور حماس کے شہاب ڈرون ایرانی ٹیکنالوجی پر منبی ہیں۔ مضمون میں لکھا گیا ہے کہ الما ریسرچ سنٹر کی حالیہ رپورٹ کے مطابق حزب اللہ کے پاس تقریباً 2 ہزار ڈرونز ہوسکتے ہیں، جن میں بہت سے ایرانی ماڈلز اور ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں۔ صیہونی ماہر لکھتا ہے کہ ایران نے اپنی حالیہ فوجی مشقوں کے دوران جس نئے لانچر کی نقاب کشائی کی ہے، اس میں پانچ پرتیں (layer) ہیں، جن پر ڈرون لانچ کرنے سے پہلے نصب کیے جا سکتے ہیں۔

لانچر کو ٹرک کے پچھلے حصے پر لگایا جا سکتا ہے، اس طرح اسے مال بردار کے طور پر لایا جا سکتا ہے اور یہ لانچر سڑکوں پر چلنے والے کسی دوسرے تجارتی ٹرک کی طرح نظر آتا ہے۔ ایران کا اپنے شاہد 136 ڈرون کے لیے نیا لانچر اسے نہ صرف چھپانے میں مدد دیتا ہے بلکہ اس قسم کے ٹرکوں میں پانچ ڈرون نصب کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اس طرح درجنوں ڈرونز کو بھیڑ کی شکل میں ہدف پر لانچ کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ان ڈرونز میں ایک دوسرے کے ساتھ کمیونیکیشن کا کوئی سسٹم ہو یا یہ کہ ان کے پاس مغرب کی طرح اے آئی ٹیکنالوجی موجود ہو، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ان سے کوئی خطرہ نہیں۔

2019ء میں سعودی آرامکو پر ڈرون اور کروز میزائلوں سے حملہ کیا گیا تھا۔ ریڈار اور فضائی دفاعی سسٹم ہونے کے باوجود سعودی عرب اس حملے کو روکنے میں مکمل ناکام رہا۔ مضمون میں مزید لکھا گیا ہے کہ شاہد 136 ڈرون کوئی بڑا ڈرون نہیں ہے، یہ ایک وار ہیڈ ہے، جو اسے خطرناک ہتھیار بناتا ہے۔ چھوٹے سائز اور چھوٹے ریڈار سیکشن کی وجہ سے اس کا پتہ لگانا آسان نہیں۔ مضمون میں لکھا گیا ہے کہ آذربائیجان نے اپریل 2018ء میں ایک ویڈیو جاری کی تھی، جس میں ایک ٹرک کی پشت پر لانچر موجود تھا، جس میں ڈرونز کے لیے 12 خانے تھے۔ اس وقت کی رپورٹس کے مطابق ویڈیو میں ہاروپ ڈرون دکھایا گیا تھا، ہاروپ اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز کا تیار کردہ ہے۔ آذری حکام نے اس ڈرون کی بہت تعریف کی تھی۔ اکتوبر 2020ء میں ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہاروپ ڈرون ایران میں گر کر تباہ ہوا تھا۔

یہ ڈرون آذربائیجان سے ایران میں داخل ہوا اور ایرانی فورسز نے مار گرایا۔ یہ معلوم نہیں کہ آیا ایران نے ہاروپ ڈرون کو ماڈل کے طور پر استعمال کیا اور شاہد ڈرون کے لانچر کو آذری نظام کے مطابق بنایا۔ ایرانی لانچ سسٹم اپنی پوزیشننگ اور طریقہ کار میں مختلف ہے، تاہم مجموعی طور پر تصور ایک ہی ہے۔ وہ تصور یہ ہے کہ فوج کو ایک ہی وقت میں کئی ڈرون لانچ کرنے کی صلاحیت دی جائے۔ نیوز ویک کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ شاہد 136 کی رینج تقریباً 2000 کلومیٹر ہے۔ اتنے چھوٹے ڈرون کے لیے یہ ایک لمبا رینج ہے، لیکن یہ ممکن ہوسکتا ہے، اگر ایران اپنی ٹیکنالوجی میں ترقی کر لے۔

2 ہزار کلومیٹر رینج کا مطلب یہ ہے کہ یہ ڈرون جنوبی اسرائیل میں ایلات شہر تک پہنچ سکتا ہے اور خلیج عمان تک اس کی پہنچ میں ہے۔ ایران کے نئے لانچر اور نئے ڈرونز 2019ء کے مقابلے میں زیادہ سنگین خطرہ پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ صیہونی حلقوں میں پریشانی کی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے اسرائیلی ٹی وی چینل i24 پر دو عسکری ماہرین نے ایک مشترکہ مضمون میں ایرانی ڈرون فلیٹ کو صیہونی ریاست کیلئے ایک پریشان کن چیلنج قرار دیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 971406
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش