0
Thursday 6 Jan 2022 19:20

اومی کرون کے کیسز میں اضافہ، کیا اسکول پھر بند ہونیوالے ہیں؟

اومی کرون کے کیسز میں اضافہ، کیا اسکول پھر بند ہونیوالے ہیں؟
رپورٹ: ایم رضا

عوام کی جانب سے احتیاط چھوڑ دینے، اسکولوں میں حفاظتی انتظامات کے فقدان اور چھوٹے بچوں میں بڑھتے کرونا کیسز کے پیش نظر خدشہ ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں ملک بھر میں حکومت کا اسکولوں کو کھلا رکھنا اتنا آسان نہیں رہ جائے گا۔ طبی ماہرین نے جہاں کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کے حوالے سے عوام کی نیم دلی پر تشویش کا اظہار کیا، وہیں بیشتر اسکولوں میں ایس او پیز کو احسن طور پر عمل نہ ہونے کی جانب بھی اشارہ کیا جو ان کے مطابق بچوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بچوں میں گزشتہ کی نسبت اب کورونا کیسز زیادہ دیکھے جا رہے ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بڑی عمر کے افراد کی ویکسینیشن تو کروا لی گئی لیکن نوجوانوں اور بچوں کی ویکسینیشن اس انداز میں نہیں ہو سکی ہے۔

طبی ماہرین کہتے ہیں کہ وباء ابھی ختم نہیں ہوئی لیکن لوگوں نے شاید یہ سمجھتے ہوئے کہ کورونا وائرس ختم ہوچکا، احتیاط چھوڑ دی ہے جو کورونا کیسز بڑھنے کی وجہ ہے۔ ماہرین نے اسکولوں، بازاروں، دفاتر، ریستوران اور عوامی جگہوں ہر ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مشورہ دیا کہ جن کی ویکسینیشن مکمل نہیں ہوئی وہ اپنی ویکسینیشن مکمل کرائیں اور بوسٹر شاٹس لگوائیں۔ انہوں نے حکومت پر بھی زور دیا کہ 12 سال سے کم عمر بچوں کی ویکسینیشن شروع کرے۔ اومی کرون ملک کے دیگر حصوں کی طرح کراچی میں بھی پھیل رہا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں شہر میں کرونا کیسز کی شرح 8 اعشاریہ 91 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

اس بارے میں کراچی کے آغا خان اسپتال کے ماہر متعدی امراض ڈاکٹر فیصل محمود نے کہا ہے کہ کورونا کیسز کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ایسے میں موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد اسکول کھول دیئے جانے کے فیصلے کو درست یا غلط کہنا تھوڑا مشکل ہے کیوں کہ ظاہر ہے کہ جس طرح اسکول کھلے رکھنے کے نقصانات ہیں بالکل اسی طرح اسکول بند رکھنے کے بھی کچھ مضمرات ہیں۔ ڈاکٹر فیصل محمود نے کہا کہ مارکیٹس، بازار، دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ ، ریستوران اور پبلک مقامات پر جدھر بھی نظر دوڑائیں لوگ بے فکر ہی دکھائی دیتے ہیں اور کہیں بھی احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں ہو رہا جبکہ موجودہ حالات میں سب سے اہم بات یہی ہے کہ ہم ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد ہو۔

انہوں نے کہا کہ اسکولز میں ایس او پیز پر عمل ایک مشکل کام ہے اور جن بیرونی ممالک میں بچے اور نوجوان متاثر ہوئے ہیں وہاں بھی ایس او پیز پر عمل نہیں کیا جا رہا تھا۔ ایک اور اہم بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے لوگ اپنی ویکیسینیشن مکمل کروائیں اور جو افراد مطلوبہ خوراکیں لے چکے ہیں انہیں چاہیئے کہ وہ بوسٹر شاٹس لگوالیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کے لئے ڈوزز کم ہوتے ہیں اس لئے ان کی ویکسین بھی الگ ہوتی ہے لہذا لوگ اپنی ویکسینیشن کی تکمیل کے بعد بچوں کو بھی ویکسین لگوائیں۔ ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ کورونا وائرس ہمارے اردگرد موجود ہے لیکن لوگ بیمار پڑنے کے باوجود ٹیسٹ نہیں کروا رہے ہیں، میں تو اب وہی حالات دیکھ رہا ہوں جو وباء کے آغاز میں درپیش تھے۔

وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر رانا جواد اصغر نے بتایا کہ اسکول ایس او پیز کے ساتھ کھولنے چاہئیں لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اسکولوں میں وینٹی لیشن کا انتطام ہے یا نہیں۔ جواد اصغر نے کہا کہ ہم اسکول بند کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اسکولوں میں وینٹی لیشن کا کتنا بندوبست ہے اور وہاں ایس او پیز پر کتنا عمل ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں کچھ جگہوں پر اسکول بند کردیئے گئے ہیں اور بچوں کی ورچوئل اسکولنگ کی جارہی ہے، ہمارے ہاں اچھے اسکولز میں تو ایس او پیز فالو ہوتے ہیں لیکن جو اسکول چھوٹے چھوٹے کمروں میں موجود ہیں ان میں بچے قریب قریب بیٹھتے ہیں لہٰذا وہاں وینٹیلیشن کا مناسب انتظام ہونا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو کم جگہیں رکھنے والے اسکولوں کو کھلی جگہیں فراہم کرنی چاہئیں تاکہ تعلیم کا عمل جاری رہ سکے اور ہم کورونا سے بھی محفوظ رہ سکیں، ہمیں اسکولوں سے ان کے حالات کے مطابق برتاؤ کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر رانا جواد نے کہا کہ یورپ میں اسکول کھلنے سے کیسز میں اضافہ ہوا اور بچوں میں ڈیلٹا کے مقابلے میں پہلی بار کورونا کیسز زیادہ دیکھے جا رہے ہیں جس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بڑی عمر کے افراد کی ویکسینیشن کروا لی گئی تھی لیکن نوجوانوں اور بچوں کی ویکسینیشن اس انداز میں نہیں ہو سکی۔ انہوں نے کہا کہ ان حقائق کے پیش نظر 12 سال سے کم عمر بچوں کی ویکسینیشن بھی شروع کرنی چاہیئے اور غیر مکمل ڈوز لینے والوں کو اپنی خوراکیں مکمل کروالینی چاہیئے۔

آل سندھ پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے چیئرمین سید حیدر علی نے کہا کہ شعبہ تعلیم نے ماضی میں کورونا وباء کے دوران بہت اچھے انداز میں ایس او پیز پر عمل کرکے دکھایا اور اب تو ماہرین بھی کہہ چکے ہیں کہ اومی کرون خطرناک ویرینٹ نہیں ہے لہٰذا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ تعلیم کا پہلے ہی بہت حرج ہوچکا ہے اور ہم مزید کسی نقصان کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور عملے کی ویکسینیشن مکمل کی اور اب بوسٹر شاٹس بھی لگوائیں گے اور اس کے علاوہ ایس او پیز پر بھی عمل کر رہے ہیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیمی ادارے کھلے رہنے چاہئیں۔

حیدر علی نے کہا کہ اومی کرون کے نام پر حکومت یا انتظامیہ نے تعلیمی ادارے بند کرنا چاہے تو ہم کی مخالفت کرتے ہوئے مطالبہ کریں گے کہ اگر دوسرے شعبہ ہائے زندگی کھل سکتے ہیں تو تعلیمی ادارے بھی کھلے رہنے چاہئیں اور اس حوالے سے تعلیمی اداروں کی بندش سب سے آخری آپشن ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ کیا مارکیٹس، مالز جلسے جلوسوں اور بازاروں میں یہ وائرس نہیں پھیلتا جہاں ایس او پیز پر عمل نہیں ہورہا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسکولز ایس او پیز پر عمل کرتے ہیں اس لئے یہ وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ نہیں ہو سکتے۔
خبر کا کوڈ : 972242
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش