1
Monday 17 Jan 2022 21:02

کراچی کا میئر بےاختیار، کیا اپوزیشن کا الزام درست ہے؟

کراچی کا میئر بےاختیار، کیا اپوزیشن کا الزام درست ہے؟
رپورٹ: ایم رضا

پيپلز پارٹی وفاقی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کرچکی ہے، بلاول بھٹو وزيراعظم عمران خان کو ٹف ٹائم دينے کا پروگرام بنا رہے ہيں، مگر ايک ايسے وقت جب بلاول بھٹو اسلام آباد ميں احتجاج کے ليے پر تول رہے ہيں، انہيں صوبائی دارالحکومت کراچی ميں دھرنے اور مظاہروں کا سامنا ہے تو دوسری جانب تحریک انصاف بھی گھوٹکی تا کراچی لانگ مارچ کا اعلان کرچکی ہے۔ سندھ اسمبلی کے باہر جماعت اسلامی نے نئے بلدياتی قانون کو کالا قانون قرار دے کر دھرنا ديا ہوا ہے، پي ايس پی بھی 30 جنوری کو مظاہرے کا ارادہ رکھتی ہے، ايم کيو ايم پاکستان فی الحال چھوٹے احتجاج پر اکتفا کر رہی ہے جبکہ جی ڈے اے بھی نئے بلدياتی قانون کے خلاف ہے۔ حيران کن طور پر کراچی سے قومی اسمبلی کی 14 سيٹيں جيتنے والی پاکستان تحريک انصاف عملی میدان سے غائب ہے، تحريک انصاف کے عدم تحرک اور ايم کيو ايم کے زبانی جمع خرچ اور چھوٹی سطح کے احتجاج نے کراچی ميں جماعت اسلامی کو سندھ حکومت کے سب سے بڑے ناقد کے طور پر کھڑا کر ديا ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امير حافظ نعيم الرحمان شہر کی سياست ميں ايک طاقتور آواز کے طور پر ابھر رہے ہيں، جو مسلسل شہری مسائل کے حل کے ليے آواز اٹھا رہے ہیں۔

جماعت اسلامی اور اپوزيشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ بلدياتی قانون 2021ء ميں بلدياتی حکومتوں کے رہے سہے اختيارات بھی ختم کر ديئے گئے ہيں۔ کراچی کے لوگ جنرل پرويز مشرف کے دور ميں شہري حکومت کا نظام ديکھ چکے ہيں، جب سٹی ناظم کے پاس نہ صرف اختيارات تھے بلکہ واٹر بورڈ، کے ڈی اے، کے بی سی اے اور ماس ٹرانزٹ سميت تمام ادارے تھے۔ شہری حکومت کا نظام يقيناً ايک ڈکٹيٹر نے بنايا تھا، مگر اس دور ميں کراچی ميں بے حساب ترقياتی کام ہوئے، شہريوں نے خود کراچی کو تبديل ہوتا ہوا ديکھا تھا۔ پيپلز پارٹی نے سن 2013ء ميں شہری حکومتوں کے نظام کو ختم کر ديا اور وسيم اختر سن 2016ء ميں ايک ايسے ميئر کے طور پر سامنے آئے، جو اگلے 4 سال تک اختيارات اور فنڈز کی کمی کا رونا روتے رہے۔ سن 2021ء ميں پيپلز پارٹی نے قانون ميں پھر تبديلی کی اور تمام سرکاری اسکولز پر سے ميئر کا کنٹرول ختم کر ديا۔ صحت کے شعبے ميں جو اسپتال اور ڈسپنسرياں ميئر کے ماتحت تھيں، ان کا کنٹرول بھی سندھ حکومت نے سنبھال ليا۔

سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ نئے قانون کے تحت ميئر کراچی واٹر بورڈ کا شريک چيئرمين ہوگا، مگر اپوزيشن کا کہنا ہے کہ اصل طاقت چيئرمين اور ايم ڈی واٹر بورڈ کے پاس ہوگی اور ميئر کراچی بطور شريک چيئرمين صرف کٹھ پتلی ہوگا۔ پيپلز پارٹی کہتی ہے سالڈ ويسٹ مينجمنٹ بورڈ کا سربراہ ميئر ہوگا جبکہ اپوزيشن کہتی ہے کہ کچرا اٹھانے کا اختيار پہلے بھی ضلعی چيئرمين کے پاس تھا، اب وہ ٹاؤنز ديکھيں گے، اس لئے کوئی فرق نہيں پڑے گا۔ امير جماعت اسلامی حافظ نعيم الرحمان کا مطالبہ ہے کہ ميئر کراچی کو وہ تمام ادارے واپس کئے جائيں، جو سن 2013ء ميں لئے گئے تھے۔ واٹر بورڈ، ايس بی سی اے، ماس ٹرانزٹ، ماسٹر پلان، صحت اور تعليم کے تمام ادارے ميئر کے پاس ہونے چاہئیں، تاکہ ايک کمانڈ کے تحت تمام ترقياتی کام ہوسکيں۔ نعيم الرحمان کا کہنا ہے کہ اگر لندن، تہران اور استنبول کے ميئر طاقتور ہوسکتے ہيں تو 3 کروڑ آبادی والے کراچی کا ميئر بے اختيار کيوں ہے۔؟

جواب ميں صوبائی وزير سعيد غنی کہتے ہيں کہ ہم سن 2001ء کا قانون بحال نہيں کريں گے، جماعت اسلامی دھرنے پر بيٹھی رہے۔ جماعت اسلامی اور سندھ حکومت کے درميان مذاکرات کا ايک دور بھی ہوا، جو ناکام رہا۔ اس حقيقت سے انکار ممکن نہیں کہ سن 2013ء کا بلدياتی قانون کراچی کے مسائل حل کرنے ميں ناکام رہا تھا۔ صوبائی حکومت نے تمام اداروں کا کنٹرول سنبھال تو ليا ہے، مگر عالم يہ ہے کہ 14 سال ميں پيپلز پارٹی نے کراچی ميں صرف 10 بسيں چلائی ہيں جبکہ کراچی کو 5 ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ کراچی کو پانی کی فراہمی کا آخری منصوبہ کے تھری بھی سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور ميں ملا تھا جبکہ پيپلز پارٹی 14 سال ميں کراچی کو ايک بوند اضافی پانی نہيں دے سکی۔ يہ بات سندھ اور کراچی کے مفاد ميں ہے کہ بڑے شہروں ميں طاقتور بلدياتی نظام رائج کيا جائے۔ سندھ حکومت کو چاہيئے کہ معاملہ کو انا کا مسئلہ نہ بنائے اور جمہوريت کی روح پر عمل کرتے ہوئے اختيارات کو نچلی سطح تک منتقل کرے، کراچی کا ميئر بااختيار ہونا چاہيئے، نہ کہ محض ایک شو پیس۔
خبر کا کوڈ : 973638
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش