0
Monday 17 Jan 2022 10:49

بی جے پی کی حمایت میں پیش پیش "مسلم راشٹریہ منچ"

بی جے پی کی حمایت میں پیش پیش "مسلم راشٹریہ منچ"
رپورٹ: جاوید عباس رضوی

’’مسلم راشٹریہ منچ‘‘ کے نظریات کا اگر خلاصہ کیا جائے تو بتایا جاسکتا ہے کہ یہ منچ آر ایس ایس کی پشت پناہی اور ایک خاص منصوبے کے تحت وجود میں آنے والا اسلام مخالف نیٹ ورک ہے، جس کا اظہار اس کے قائدین وقتاً فوقتاً کیا کرتے ہیں، جیسے جہاد کے بارے میں مسلم راشٹریہ منچ کا نظریہ یہ ہے کہ اسلام میں جہاد صرف مال و جان خرچ کرنے اور حاصل کرنے کا نام ہے۔ اس جماعت کے ماننے والوں نے دنیا میں پھیلی ہوئی دہشتگردی کو اسلامی جہاد سے موسوم کیا ہے۔ اس جماعت کا نظریہ ہے کہ گائے کی حفاظت کی جانی چاہیئے اور مسلمان کو گائے ذبح کرنے اور اس کی قربانی دینے سے اجتناب کرنا چاہیئے، یہ نظریہ بھی دراصل آر ایس ایس کا ہی نظریہ ہے۔ اگر مسلم راشٹریہ منچ کی جانب سے صرف گائے کے تحفظ کی بات کی جاتی تو بھارت کا عام مسلمان ایک مجبوری کے تحت ہی سہی اسے برداشت کرسکتا تھا، لیکن اس جماعت نے اپنی تمام حددو سے تجاوز کرتے ہوئے بار بار ایسے بیانات دیئے ہیں، جس سے نہ صرف مسلمان رنجیدہ خاطر ہوئے بلکہ مذہب اسلام کی توہین بھی ہوتی رہی۔

مسلم راشٹریہ منچ کے سربراہ اندریش کمار ہیں، جنہیں آر ایس ایس کا "تشہیر کنندہ" کہا جائے تو مناسب ہوگا۔ اندریش کمار اجمیر شریف اور سمجھوتہ ایکسپریس کے بم دھماکوں کا ایسا ملزم ہے، جس پر بھارت کی قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) اچانک یوں مہربان ہوئی کہ اسے ہر طرح کی "دہشتگردی" کے الزام سے کلین چٹ دے دی۔ مسلم راشٹریہ منچ کے سربراہ اندریش کمار آج انہی مسلمانوں کو جو آر ایس ایس و بے جے پی کے خلاف ہیں "شیطان پرست" اور جو حامی ہیں، انہیں "امن پسند" کہہ رہے ہیں۔ بی جے پی اقلیتی مورچہ کے ریاستی صدر مزمل احمد بابو نے حالیہ دنوں اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ بات ہر ایک بھارتی جانتا ہے کہ "مسلم راشٹریہ منچ" آر ایس ایس کی ایک شاخ ہے۔ اس منچ کے ذریعے مسلمانوں کو یہ دعوت دی جاتی ہے کہ وہ آر ایس ایس کے قریب آئیں او آر ایس ایس کے نظریات کو سمجھیں۔

مزمل احمد کا کہنا ہے کہ وہ 1992ء سے آر ایس ایس کے ایک سرگرم رکن رہے ہیں اور آج بھی آر ایس ایس سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کبھی فرقہ پرستی کی بات نہیں کرتی اور "دیش بھگتی" کے ساتھ ملک کے سماجی اور فلاحی کاموں میں حصہ لینا اس تنظیم کا اہم مقصد رہا ہے۔ مزمل احمد بابو نے مسلمانوں سے کہا کہ وہ آر ایس ایس کے قریب آکر دیکھیں، اس تنظیم کو سمجھیں، تاکہ اس تنظیم کے متعلق موجود غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم طبقہ میں آر ایس ایس اور بی جے پی کو لیکر ڈر اور خوف کا ماحول ہے، عدم تحفظ کا احساس ہے، اس نازک موقع پر "مسلم راشٹریہ منچ" آپس میں بھائی چارے اور دوستانہ ماحول کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کا کہنا ہے کہ وہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے متعلق اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں موجود غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہتے ہیں۔

ادھر آج کل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو آئندہ اسمبلی انتخابات میں جیت دلانے کے لئے آر ایس ایس اور مسلم راشٹریہ منچ نے اپنی مہم تیز کر دی ہے۔ قومی دارالحکومت نئی دہلی میں انڈیا اسلامک کلچر سینٹر میں مسلم راشٹریہ منچ کے سربراہ اندریش کمار نے آئندہ اسمبلی انتخابات کے حوالے سے ایک کتابچہ جاری کیا ہے۔ اس سے پہلے منچ عہدیداروں کے ساتھ ایک اہم میٹنگ میں اندریش کمار نے پانچ ریاستوں کے انتخابات کے لئے بی جے پی کو ووٹ دینے کی اپیل کی۔ اس دوران نریندر مودی و یوگی حکومت کے کارناموں کا ذکر کیا گیا اور مسلم ووٹروں سے یوگی اور بی جے پی حکومت کو ووٹ دینے کی اپیل کی گئی۔ اس موقع پر آر ایس ایس کے سینیئر لیڈر اور مسلم راشٹریہ منچ کے سربراہ اندریش کمار کی جانب سے مسمانوں کے نام ایک خط جاری کیا گیا ہے۔ اس موقع پر اندریش کمار کے ساتھ مسلم راشٹریہ منچ کے قومی کنوینئر (میڈیا) شاہد سعید، مسلم منچ کے قومی کنوینئر ڈاکٹر مجید تلی کوٹی، اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین بلال الرحمن، خورشید رزاق، خواتین مورچہ کی قومی کنوینر شالینی علی، دہلی اسٹیٹ کنوینئر حافظ سبرین، اتر پردیش کے لئے منچ کے کنوینئر عمران چودھری اور نشا جعفری وغیرہ بھی موجود تھیں۔

مذکورہ میٹنگ میں مسلم راشٹریہ منچ کے عہدیدار نے بی جے پی کی کھل کر حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نے کسانوں کا خاص خیال رکھا ہے اور انہیں خوش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اترپردیش میں فائدہ اٹھانے والے کسانوں کی کل تعداد تقریباً 90 لاکھ ہے جبکہ قرض معافی کی کل رقم تقریباً 40 کروڑ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی میں عوام کا مفاد محفوظ ہے، نئی اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سڑکوں کی تعمیر، معاشی بچت اور ماحولیاتی تحفظ کے عزم کو پورا کیا گیا ہے۔ نوجوانوں کو بہتر تعلیم کا آپشن ملا ہے۔ نوجوانوں کے مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے نئے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ غریبوں کے لئے پکے گھروں میں رہنے کا انتظام کیا گیا، مفت گیس کنکشن، بیت الخلاء، راشن اور بجلی کا انتظام کیا گیا۔ صحت، تحفظ، تعلیم، خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے پر موثر طریقے سے کام کیا گیا ہے۔

اس دوران مسلم راشٹریہ منچ کے قومی کنوینئر ڈاکٹر مجید تلکوٹی نے کہا کہ بی جے پی حکومت نے تعلیم، صحت، سکیورٹی اور بااختیار بنانے کے لئے مختلف مہمات شروع کی ہیں اور ان سب کا براہ راست فائدہ مسلم معاشرے کو بھی ہوا ہے۔ ڈاکٹر مجید نے مسلم معاشرہ سے بی جے پی کو کھلے دل سے ووٹ دینے کی بھی اپیل دہرائی۔ مسلم راشٹریہ منچ کے قومی کنوینئر اور میڈیا انچارج شاہد سعید نے کہا کہ مسلم راشٹریہ منچ کے 400 محنتی کارکن اتر پردیش انتخابات کے لئے بی جے پی کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ شاہد سعید کے مطابق ان کارکنوں کا کام عوامی بیداری مہم چلانا ہے، جس کے تحت بی جے پی کی کامیابیوں کو مسلم ووٹروں میں بانٹنا ہے۔ شاہد سعید نے اپوزیشن جماعت انڈین کانگریس کمیٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ "لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں" مہم کیا اترپردیش میں صرف پرینکا گاندھی کے لئے لاگو ہے۔؟

انہوں نے کہا کہ راجستھان یا دیگر کانگریس کی حکومت والی ریاستوں میں جہاں کہیں خواتین پر مظالم ہوتے ہیں، پولیس کی زیادتیاں ہوتی ہیں یا خواتین کی آبرو ریزی جیسے غیر مہذب واقعات ہوتے ہیں، کانگریس پارٹی ان پر خاموش کیوں ہے۔؟ شاہد سعید نے یہ بھی بتایا کہ اترپردیش میں اکھلیش یادو (سماج وادی پارٹی) کی حکومت میں سینکڑوں فسادات ہوئے، کھلے عام لوگوں کا قتل عام ہوا۔ انہوں نے دعوٰی کیا کہ جب سے اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے، کہیں بھی فساد نہیں ہوئے ہیں۔ شاہد سعید نے یہاں تک کہا کہ بی جے پی کے دور حکومت میں مسلمان سب سے زیادہ محفوظ رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ ہندوستان آزادی کے بعد یہاں جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں، ان میں سے 99 فیصد کانگریس اور نام نہاد سیکولر پارٹی کی ریاستوں میں ہوئے ہیں۔

اتراکھنڈ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین بلال الرحمن نے مودی حکومت کے کام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مدرسے کو کمپیوٹرائزڈ کیا۔ آج دینی تعلیم کے علاوہ دنیاوی تعلیم بھی دی جا رہی ہے۔ خواتین مورچہ کی قومی کنوینئر شالینی علی نے مسلمانوں اور مسلم خواتین سے بی جے پی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کی اپیل کی۔ شالنی علی نے کہا کہ بی جے پی کی حکومت نے تین طلاق پر قانون بنا کر مسلم خواتین کو آزادی سے جینے کا حق دیا ہے۔ اس دوران حافظ صابرین نے کہا کہ بھاجپا حکومت نے خواتین کی شادی کی عمر 21 سال کرنے کی بات کرکے بہت اچھا قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس عمر میں لڑکیاں ذہنی اور جسمانی طور پر 18 سال کی عمر کے مقابلے بالغ ہوتی ہیں اور وہ اپنی اچھی اور بری سوچ کو بہتر طور پر استعمال کرسکتی ہیں۔

دہلی اسٹیٹ کے کنوینئر عمران چودھری نے حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی کی کامیابیوں پر زور دیا۔ انہوں نے مسلم معاشرے پر زور دیا کہ وہ بی جے پی کی حمایت کریں اور آئندہ ایک مضبوط حکومت بنائیں۔ اس دوران مسلم راشٹریہ منچ کے دیگر لیڈروں نے بھی بی جے پی حکومت کی جتنی من میں آئی تعریف کی اور مسلمانوں کے لئے زیست کی تنہا راہ بے جے پی کی حمایت قرار دی۔ مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ’’مسلم راشٹریہ منچ‘‘ کے نظریات خالص آر ایس ایس و بی جے پی کی حمایت ہیں اور ہندو مسلم اتحاد اور ان دونوں کے درمیان کی دوری ختم کرنے کی جو کوششیں ہیں، وہ صرف ایک طبقہ چاپلوسی اور اس کے نظریات کو پھیلانا ہے اور درپردہ دشمنان اسلام و مسلمین کی مدد کرنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 973721
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش