QR CodeQR Code

اردو ادب کا روشن چراغ۔۔۔۔۔ محسن نقوی

15 Jan 2022 22:31

اسلام ٹائمز: محسن نقوی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ اہلبیت علہیم السلام سے منسوب ہے۔ انہوں نے کربلا پر جو شاعری لکھی، وہ دنیا بھر میں پڑھی اور پسند کی جاتی ہے۔ انکے مذہبی کلام کے بھی کئی مجموعے ہیں، جن میں بندِ قبا، برگِ صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، موجِ ادراک اور فراتِ فکر زیادہ مقبول ہیں۔ محسن نقوی نے شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا، انکا سب سے اہم حوالہ تو شاعری ہے، لیکن انکی شخصیت کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری صرف الف- لیلٰی کے موضوع تک ہی محدود نہ رکھی بلکہ انہوں نے دنیا کے حکمرانوں کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا، جنہیں اپنے لوگوں کی کوئی فکر نہ تھی۔ انکی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویئے، واقعۂ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔


تحریر: سویرا بتول

کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ زندگی میں مردہ ہوتے ہیں اور کچھ مرنے کے بعد بھی زندہ۔بلاشبہ کچھ لوگ اِس دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں اور اُن کی یاد ہر پل بے چین رکھتی ہے۔ 15 جنوری کی شام ہمیشہ غم و یاس کی تصویر بنتے گزرتی ہے۔ یہ دن ایک عظیم مفکر اور شاعر کے فراق میں کٹتا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ جب ہم زمانہ طالبِ علمی میں تھے تو اکثر آٸینے کے سامنے کھڑے ہوکر محسن نقوی کے اشعار اپنے خاص انداز میں پڑھا کرتے، گویا ایک تخیلی مشاعرہ ہمہ وقت گھر میں ہوتا، اگر غلطی سے کوٸی شعر غلط پڑھ دیا جاتا تو نانا ابو فوراً ڈانٹتے کہ اتنے بڑے شاعر کا کلام تمام اداب کو ملحوظ خاطر رکھ کر پڑھا جاٸے۔ ہم شاعری کی کتاب پکڑ کر دوبارہ سے مشق کرتے اور یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس طرح گھر میں ایک ادبی فضا بھی میسر آتی اور خامیاں بھی بروقت معلوم ہو جاتیں۔

ہمارا بچپن غالب، اقبال، میر تقی میر، محسن نقوی اور مہدی حسن کی آواز میں ناصر کاظمی اور فیض کی غزلیں سنتے گزرا ہے۔ آج جب تہذیب حافی، علی زریون اور ایسے دیگر شعراء کو جون ایلیا یا ساغر صدیقی بنتے دیکھتے ہیں تو دل کٹ سا جاتا ہے۔ کبھی کبھی خیال آتا کہ ہمارے نانا تو ایک غلط شعر پڑھنے پر اتنا برہم ہوا کرتے تھے، آج کل کے مشاعرے ادب کی جو توہین و تضحیک کر رہے ہیں، کیا وہ قابلِ تلافی ہے؟ آٸندہ نسلوں کے لیے ہم کس قسم کا ادبی ورثہ تخلیق کر رہے ہیں؟ پاک ٹی ہاٶس میں بیٹھ کر چار اشعار سنا کر، سیلفیز لیکر، کیا ادب کی خاطر خواہ خدمت ہو رہی ہے؟ کیا وجہ ہے کہ آج کوٸی بڑا ادیب ہمارے درمیان موجود نہیں؟ کسی مفکر یا دانشور کو وہ مقام حاصل نہیں، جو ہمارے آباٶ اجدا کے دور میں حاصل تھا؟ بہرحال یہ ہمارا درد ہے، جو ہم اس قوم سے اکثر و بیشتر بیان کرتے رہتے ہیں۔

محسن نقوی جیسے عظیم شاعر کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ آج اُن کی برسی پر سارا دن خود سے یہ سوال پوچھتے رہے کہ ہم کس قسم کا ادبی ورثہ اپنی آٸندہ نسلوں کو دیں کر جاٸیں گے؟ ہماری جوان نسل ادب سے اتنی دور کیوں ہے؟ ہم نے اپنے ایک عزیز سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے آج محسن نقوی کی برسی ہے؟ جواباً کہا گیا کہ جی!! چھوڑیئے وہ تو محض ایک شاعر تھا۔ ہم لوگ محسن نقوی کو صرف شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں جبکہ وہ ایک عظیم مفکر اور دانشور بھی تھے۔ ان کا مکمل نام سید غلام عباس تھا۔ لفظ محسن اُن کا تخلص تھا اور لفظ نقوی کو وہ تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے، لہذا بحیثیت ایک شاعر انہوں نے اپنے نام کو محسن نقوی میں تبدیل کر لیا اور اِسی نام سے مشہور ہوگئے۔ محسنؔ نے بے انتہاء شاعری کی، جس میں حقیقی اور مجازی دونوں پہلو شامل تھے۔ ان کی پہچان اہلبیتِ محمدؐ کی شان میں کی گئی شاعری بنی۔

اردو شاعری میں محسن نقوی کی حیثیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن مرثیہ ان کا خاص موضوع تھا۔ آپ کو اہل بیت علہیم السلام سے خاص عشق تھا اور شاید یہی عشق بعد میں آپ کا جرم قرار پایا۔ محسن نقوی شاعری کے علاوہ مرثیہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں واقعہ کربلا کے استعارے جابجا استعمال کئے۔ ان کی تصانیف میں بند قبا، عذاب دید، خیمہ جان، برگ صحرا، طلوع اشک، حق ایلیا، رخت شب، ریزہ حرف، موج ادراک اور دیگر شامل ہیں۔ محسن نقوی کی شاعری میں رومان اور درد کا عنصر نمایاں تھا۔ ان کی رومانوی شاعری نوجوانوں میں بھی خاصی مقبول تھی۔ ان کی کئی غزلیں اور نظمیں آج بھی زبان زد عام ہیں اور اردو ادب کا سرمایہ سمجھی جاتی ہیں۔ محسن نے بڑے نادر اور نایاب خیالات کو اشعار کا لباس اس طرح پہنایا ہے کہ شاعری کی سمجھ رکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔معروف شاعر محسن نقوی کو 1994ء میں صدراتی تمغہ برائے حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ) سے نوازا گیا تھا۔

اسی زمانے میں انہوں نے ”بندِ قبا“ کے نام سے اپنے شعری سفر کا آغاز کیا۔ ان کے دیگر شعری مجموعوں میں ”برگِ صحرا“، ”ریزہء حرف“، ”موجِ ادراک“، ”ردائے خواب“، ”عذابِ دید“، ”طلوع ِاشک“، ”رختِ شب“، ”خیمہءجاں“، ”فراتِ فکر” اور ”میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی“ وغیرہ شامل ہیں۔ محسن نقوی محبت کے شاعر تھے۔ ”ردائے خواب“ کے دیباچے میں انہوں نے اپنی شاعری کا مرکزی نکتہ محبت اور امن کو قرار دیا۔ بقول محسن نقوی ”زندگی اتنی مختصر ہے کہ اس میں جی بھر کے محبت کرنے کی مہلت بھی نہیں ملتی، خدا جانے لوگ نفرت کے لئے وقت کہاں سے بچا لیتے ہیں۔“ اپنی ساری زندگی محبت کا درس دینے والے محسن نقوی شہید کا قتل پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہوا اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی قیادت اس قتل کے بعد بھی سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں سے مذاکرات کرتی رہی، جس کے نتیجہ میں آج تک محسن نقوی شہید کے قاتل سزا سے بچے ہوئے ہیں۔
قاتل کو جانتے تو سبھی ہیں مگر اے دوست
کس میں ہے دم کہ نام یہاں اس کا لے سکے


محسن نقوی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ اہل بیت علہیم السلام  سے منسوب ہے۔ انہوں نے کربلا پر جو شاعری لکھی، وہ دنیا بھر میں پڑھی اور پسند کی جاتی ہے۔ ان کے مذہبی کلام کے بھی کئی مجموعے ہیں، جن میں بندِ قبا، برگِ صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، موجِ ادراک اور فراتِ فکر زیادہ مقبول ہیں۔ محسن نقوی نے شاعری کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا، ان کا سب سے اہم حوالہ تو شاعری ہے، لیکن ان کی شخصیت کی اور بھی بہت سی جہتیں ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری صرف الف- لیلٰی کے موضوع تک ہی محدود نہ رکھی بلکہ انہوں نے دنیا کے حکمرانوں کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھا، جنہیں اپنے لوگوں کی کوئی فکر نہ تھی۔ ان کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویئے، واقعۂ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔

اپنے عروج کی انتہا کو پہنچ کر محسن نقوی نے کالعدم تحریکِ طالبان، سپاہ صحابہ اور اس کی ذیلی شاخوں کو اپنی شاعری کے ذریعے بے نقاب کرنا شروع کیا تو پھر وہی ہوا جو اس ملک میں ہر حق گو کا مقدر ہے۔ ادب کا دمکتا ستارہ 15 جنوری کی سرد شام میں زہر میں بجھی گولیوں میں بھن دیا گیا۔ محبتیں باٹنے والا یہ انسان ہمیشہ کے لیے خاموش کروا دیا گیا اور یوں اردو ادب کا یہ دمکتا چراغ 15 جنوری 1996ء کو مون مارکیٹ لاہور میں اپنے دفتر کے باہر دہشت گردوں کی فائرنگ سے بجھ گیا تھا، تاہم اس کی روشنی ان کی شاعری کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق 45 گولیاں محسنؔ کے جسم میں لگیں۔ محسن نقوی نے نامعلوم دہشت گردوں کے حملے میں زخمی ہونے کے بعد آخری شعر یہ کہے تھے۔
لے زندگی کا خمس علی کے غلام سے
اے موت آ ضرور مگر احترام سے
عاشق ہوں اگر ذرا بھی اذیت ہوئی مجھے
شکوہ کروں گا تیرا میں اپنے امام سے


خبر کا کوڈ: 973827

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/973827/اردو-ادب-کا-روشن-چراغ-محسن-نقوی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org