QR CodeQR Code

اگر مدافعینِ حرم نہ ہوتے؟

16 Jan 2022 20:36

اسلام ٹائمز: کلنا عباسک یا زینب کا نعرہ بلند کرتے یہ مٹھی بھر عشاق قیامت تک کیلئے یزیدیت کے کالے منصوبوں کو ناکام بنا گئے اور مصلحت کی عبا اوڑھے اہل قلم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ تم میں اور کوفیوں میں کوئی فرق نہیں۔ جو لوگ مدافعین حرم کی حمایت پر چپ کا روزہ رکھتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو "ھل من ناصر" کی صدا تو سنتے ہیں، مگر بروقت لبیک نہیں کہتے۔ خیمہ ولایت کے یہ محافظین قیامت تک کیلئے مشعل راہ ہیں۔ اب اگر اِنکا ذکر کرنے پر ہم محبان اہلبیت کو اٹھایا جاتا ہے، سالوں لاپتہ کیا جاتا ہے تو یہ انوکھی بات نہیں۔ سالوں سے محبان علی پر زمین تنگ کی گئی ہے۔ علی کا نام لینے پر دیواروں میں چن دیا جاتا تھا۔


تحریر: سویرا بتول

مدافعینِ حرم ایسا خوبصورت لفظ ہے، جو کربلا کے قافلہ میں شامل سپاہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایسے پیروانِ عباس اور علی اکبر ہیں کہ جو امام عالی مقام علیہ السلام کی بہن شریکۃ الحسین کے مزار کے پروانے ہیں اور اِن کے راستے میں جان تک قربان کر دیتے ہیں۔ا س مرتبہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا حرم اتنا وسیع تھا کہ اس میں دشمن سے خوفزدہ قوم نے پناہ لے رکھی تھی اور حرملہ اور یزیدی طاقتوں کی تیز تلواریں اور تیر ان کے سینوں کا نشانہ لیے ہوٸے تھیں۔ دشمن کے خنجر کی تیزی اس مظلوم قوم کے گلے پر چل رہی تھی اور خون کا دریا جاری تھا۔ ایسے میں چند انگشت شمار پاک طینت حسینی جوان اٹھے اور یہ نعرہ بلند کیا کہ ہم سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کو ایک بار پھر اسیر نہیں ہونے دیں گے، جنہیں ہم مدافعینِ حرم کے نام سے جانتے ہیں۔

کربلا کے ان سپاہیوں نے حرمِ سیدہ کا ایسے وحشی دشمن سے دفاع کیا کہ جس نے کروڑوں انسانوں کے سامنے سینکڑوں بے گناہ انسانوں کو اپنے تکفیری جہالت کے خنجر سے ذبح کیا۔ یہ لوگ ان کی جہالت کی آگ میں زندہ جلاٸے گئے، کٸی ہزار نوجوان عورتیں اِن کے ہاتھوں گرفتار ہوٸیں اور ان کی عزت و حرمت کو تار تار کیا گیا۔ یہ ایسا فتنہ تھا، جو یہودیوں کے کینہ کی آگ اور امریکی ظالم حکمرانوں کی حمایت سے اسلامی سرزمین میں شروع کیا گیا۔ مدافعینِ حرم صرف ایک سرزمین کے مدافع نہیں بلکہ پوری انسانیت کے مدافع ہیں۔ اگر وہ اپنی جان نہ دیتے تو آج کربلا کا واقعہ تکرار ہوتا۔ اگر وہ جان کا نذرانہ نہ دیتے تو آج زمین پر ایسی مصیبت آتی کہ سواٸے کربلا کے تمام مصیبتیں ہمیں بھول جاتیں۔ یہ مدافعینِ حرم ہی تھے، جنہوں نے آمرلی کا محاصرہ توڑ کر، نبل و الزہراء، فوعہ و کفریا، دیرالزور اور حلب، فلوجہ بلد و موصل کو آزاد کروا کر وہاں کے بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ سجاٸی کہ جس کو قلم کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا۔

داعش کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے نوجوان وہ عظیم بین الاقوامی ہیروز ہیں، جنہوں نے دنیا میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں اور حقیقی طور پر اینٹی ٹیرارزم مجاہدین ہیں۔ کس سے پوشیدہ ہے کہ داعش ایسا خوفناک دہشتگرد گروہ ہے، جو نہ کسی دین کے بندھن میں اپنے آپ کو محدود سمجھتا ہے اور نہ ہی جس کی کوٸی انسانی حدود و قیود اور اقدار ہیں۔ کیا دنیا کو نہیں معلوم کہ یہ داعش وہی گروہ ہے کہ جس نے ماٶں کے سامنے ان کی اولاد کو ذبح کیا۔ کیا یہ وہی گروہ نہیں ہے، جس نے انسانوں کو پانی میں ڈبو کر مارا، جس نے اتنے انسان قتل کیے کہ دریاٸے دجلہ کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ جس نے جہاد النکاح کے نام پر دین میں بدعت ایجاد کی اور مسلمانوں کی عصمت سے کھیلنے کا بہانہ بنایا۔ داعش کا کون کونسا جرم بیان کیا جاٸے کہ جس سے اِن کی دہشتگردی کو ثابت کیا جاٸے۔ کیا آج دنیا کا نیا نظام دہشتگردی سے مقابلے پر جنگ کے نام پر نہیں چل رہا؟ کیا آج ہمارے ملک کی پہلی سکیورٹی تھریٹ دہشتگردی نہیں ہے؟ کیا روز بروز سعودی ریالوں پر پلنے والا داعش کا پودا اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر رہا؟ کیا تکفیری سوچ کو پروان نہیں چڑھایا جا رہا۔؟

یہ وہ حقائق ہیں، جو نہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا بیان کرتا ہے اور نہ پرنٹ میڈیا۔ اس سب کے برعکس حرم حضرت زینب کے محافظین کو دہشتگرد ثابت کیا جاتا ہے اور قاضی شریع کی نسل کے چند دین فروش ملا محافظین ولایت پر ہرزہ سراٸی کرتے دکھاٸی دیتے ہیں۔ جب یہ حقائق لیکر کوٸی سامنے آتا ہے تو اسے لاپتہ کر دینے کی دھمکیاں دی جاتیں ہیں۔ کیا ستم ہے کہ وہ شہداء جو ہر محبِ اہل بیت کے لیے باعث افتخار ہیں، آج اُن کے جنازے اپنے وطن نہیں لاٸے جاسکتے۔ آج مدافعین کے اہل خانہ کو غدار وطن کہہ کر ملکی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہم اپنے گذشتہ کالم میں اقوامِ متحدہ کی اُس رپورٹ کی تفصیلی فہرست شامل کرچکے ہیں، جس کے مطابق فقط پنجاب سے ساٹھ ہزار افراد داعش کا حصہ بنے۔ داعش میں شمولیت کے لیے پوری دنیا سے ماہر دہشتگردوں کو بھرتی کیا گیا، تاکہ وہ آلِ رسول کے حرم کو مسمار کر دیں، جیسے ماضی قریب میں مزارِ دخترِ پیغمبر فاطمۃ الزہراء کو مسمار کیا گیا تھا۔ جنت البقیع کی موجودہ حالت اس امت کی بربریت اور آلِ رسول سے بغض کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اب آیئے ایک لمحے کے لیے فرض کیجیے کہ اگر مدافعینِ حرم نہ ہوتے اور اِن خونی بھیڑیوں کو عراق اور شام میں شکست نہ دی جاتی تو آج اِن کا مقابلہ اسلام آباد، پشاور، کراچی اور لاہور کی سرزمین پر کرنے کی تیاری ہو رہی ہوتی۔ لہذا مدافعینِ حرم وہ حقیقی ہیروز ہیں کہ جنہوں نے پوری دنیا کو اس عظیم دہشتگرد گروہ سے نجات دلاٸی۔ اب اس بات کی طرف غور و فکر کرتے ہیں کہ کیا حرمِ آلِ رسول کا دفاع کرنا جرم ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں اکثر افراد یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر حرمین شریفین کو خطرہ ہوا تو ہم اِس کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی قربانی دیں گے۔ یعنی یہ دو ممالک کے تعلقات اور معاہدوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ تقدسِ اسلام اور ناموسِ رسولﷺ کا مسٸلہ ہے۔ گویا حرم آل رسول کا دفاع کرنا جرم نہیں بلکہ شرعی وظیفہ ہے۔

کلنا عباسک یا زینب کا نعرہ بلند کرتے یہ مٹھی بھر عشاق قیامت تک کے لیے یزیدیت کے کالے منصوبوں کو ناکام بنا گئے اور مصلحت کی عبا اوڑھے اہل قلم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ تم میں اور کوفیوں میں کوٸی فرق نہیں۔ جو لوگ مدافعین حرم کی حمایت پر چپ کا روزہ رکھتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو ھل من ناصر کی صدا تو سنتے ہیں، مگر بروقت لبیک نہیں کہتے۔ خیمہ ولایت کے یہ محافظین قیامت تک کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اب اگر اِن کا ذکر کرنے پر ہم محبان اہل بیت کو اٹھایا جاتا ہے، سالوں لاپتہ کیا جاتا ہے تو یہ انوکھی بات نہیں۔ سالوں سے محبان علی پر زمین تنگ کی گئی ہے۔ علی کا نام لینے پر دیواروں میں چن دیا جاتا تھا۔ آج اُسی علی کی شیر دل بیٹی کے شہداء کا ذکر کرنے پر بھی پابندی ہے، جو ثابت کرتا ہے کہ دشمن زینب کے عباس سے کس قدر خوفزدہ ہیں۔ ہم دشمن دوراں کو پیغام دیتے ہیں "ہم سب زینب کے عباس ہیں آٶ اور ہمیں اسیر کرو!!!!"


خبر کا کوڈ: 973922

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/973922/اگر-مدافعین-حرم-نہ-ہوتے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org