1
1
Monday 17 Jan 2022 18:11

ڈی آئی خان کے مقتل سے

ڈی آئی خان کے مقتل سے
تحریر: تنویر مطہری

آج کی بات ہے، طلوعِ خورشید سے کچھ دیر پہلے، ڈیرہ اسماعیل خان میں، ابھی تاریکی شب کا سیاہ پردہ ہٹا ہی تھا۔ صبح طلوع ہوئی اور مخلوقِ خدا اپنے رزق کی تلاش میں گھروں سے نکلنے لگی۔ والدین نے اپنے بچوں سے خدا حافظی کی اور لوگ اپنے کاروبارِ زندگی میں مشغول ہوگئے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ تینوں جوان بھی اپنے اپنے گھروں سے نکلے، جن کا یہ نکلنا ہمیشہ کیلئے نکلنا ثابت ہوا۔ ہوا کچھ یوں کہ یہ جوان اپنی دکانوں پر کام میں مصروف تھے کہ اچانک انسانیت کے دشمنوں نے ان پر حملہ کیا اور گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ تینوں جوان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ مقتولین میں سے دو سگے بھائی اور ایک کزن تھا۔ اب اس گھر میں ماتم کا کیا سماں ہوگا، جس گھر میں تین لاشیں لائی گئی ہونگی، یہ خدا ہی جانتا ہے! یا وہ لوگ جنہوں نے اس کربناک منظر کا تجربہ کیا ہو۔ اب رہی بات احتجاج کی تو اب تو احتجاج کرنے والوں کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ جہاں تک قاتلوں کی بات ہے، وہ تو وی آئی پی لوگ ہیں جناب، پہلے تو وہ گرفتار ہی نہیں ہوتے اور اگر ہو بھی جائیں تو سزا نہیں ہوتی اور اگر برائے نام سزا سنائی بھی جائے تو رہائی اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

چند دہائیوں سے ڈیرہ اسماعیل خان ایک بے صدا مقتل بن چکا ہے۔ کئی دہائیوں سے نہتے لوگوں کے اغوا اور قتل کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے گھر ماتم کدے اور بازار قبرستان بن چکے ہیں۔ گلی کوچوں میں جنگل کی وحشت رقص کر رہی ہے۔ لگتا ہے کہ یہاں نہ قانون ہے اور نہ حکمران۔ یہاں نہ انسان ہے اور نہ انسانی حقوق، یہاں نہ ہی تو کوئی زندہ ہے اور نہ انسانی زندگی کا احترم دکھائی دیتا ہے۔ میڈیا خود مر چکا ہے، میڈیا پرسنز یا بک چکے ہیں اور یا پھر ڈر کر اپنی جان بچانے اور پیٹ پالنے کی فکر میں ہیں۔ لوگوں کو اغوا کیا جا رہا ہے۔ اغوا کنندگان کروڑوں روپے تاوان مانگ رہے ہیں۔ ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں۔ لوگ واویلا کر رہے ہیں۔ نہ چیف آف آرمی اسٹاف تک ہماری آواز پہنچتی ہے، نہ صدرِ پاکستان کو ہم پاکستان کے شہری نظر آتے ہیں، نہ وزیراعظم کوئی ایکشن لیتے ہیں، نہ انسانی حقوق کی تنطیمیں اس سکوت کو توڑتی ہیں اور نہ ہی دیگر تنظیمیں ان مظلوم لوگوں کے دفاع کیلئے میدان میں آتی ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ یہ سکوت بلا وجہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے ایک منظم پلاننگ ہے۔ ہمارے بزرگان بتاتے ہیں کہ ڈیرہ کو "ڈیرہ پھولوں کا سہرا" کہا جاتا تھا۔ اس کی وجہ  لوگوں کا آپس میں مل جل کر رہنا اور پیار و محبت و الفت سے پیش آنا تھا اور ایک دوسرے کی خوشیوں و غموں میں برابر شریک ہونا تھا۔ برادریوں کی کوئی قید نہیں تھی، قومیت سے بالاتر سوچ تھی، سنی و شیعہ کی تقسیم نہیں تھی۔ جنازوں پر سیاست نہیں کی جاتی تھی۔ یعنی مسلکی اختلافات سے بالاتر روابط قائم تھے۔ نہ زبان کا امتیاز، نہ لباس میں فرق۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ اعلیٰ انسانی ہمدردیاں و اخلاقی اقدار کیسے ایک دم تبدیل ہوگئیں۔۔۔ کیسے یہاں کے لوگ جنازوں پر سیاست، برادریوں میں بگاڑ، رسومات پر اختلاف اور مسلکی اختلافات کا شکار ہوئے۔ جو جاننا چاہتے ہیں، اُن کیلئے ہم بیان کر دیتے ہیں کہ ان اختلافات کا بیج ضیاء الحق نے ہمارے ہاں بھی بویا تھا۔ ابھی ضیاء الحق کی باقیات ہی اس ظلم و ستم، جہالت اور خون خرابے کو باقی رکھے ہوئے ہیں۔

یوں تو ضیاء الحق کی مسموم سوچ نے سارے ملک کو زہر آلود کیا تھا، لیکن ملک کے دیگر حصوں میں اس کے زہریلے اثرات کچھ کم ہوتے نظر آرہے ہیں، سوائے ڈیرہ اسماعیل خان کے کہ جہاں ضیائی زہر ابھی تک پوری طرح باقی ہے۔ اب آیئے راہِ حل کی طرف! میری آپ سب سے دست بستہ گزارش ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے مظلوم لوگوں اور اس بے صدا مقتل کی صدا بنئے۔ آیئے اپنی ذمہ داری کا احساس کیجئے۔ آپ جہاں بھی ہیں اور جو بھی کرتے ہیں، جس ادارے اور تنظیم سے منسلک ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان کیلئے آواز بلند کیجئے۔ آواز اٹھایئے! ہماری نسل کُشی ہو رہی ہے، ہمیں نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے، ہمارے کاروبار تباہ کر دیئے گئے ہیں، ہمارے جوان یا تو نامعلوم ٹارگٹ کلرز کے ذریعے شہید کروا دیئے گئے ہیں یا زندانوں  میں اُنہیں دیمک چاٹ رہی ہے اور یا پھر مسنگ پرسنز کی صورت میں لاپتہ ہیں اور باقی جو گھر سے نکلے تو اغوا برائے تاوان کیلئے اُس کا تعاقب کیا جاتا ہے۔ بے شک آپ خیر و عافیت میں ہیں، آپ بہت مصروف ہیں، لیکن کچھ وقت ہمارے لئے بھی نکالئے!
کتاب سادہ رہے گی کب تک کہیں تو آغاز باب ہوگا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی کبھی تو ان کا حساب ہوگا
سکون صحرا میں بسنے والو! ذرا رتوں کا مزاج سمجھو
جو آج کا دن سکوں سے گزرا تو کل کا موسم خراب ہوگا
خبر کا کوڈ : 974114
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
عوامل بہت سارے ہیں۔ اختصار کے ساتھ یہ کہ تکفیری ناصبیت فقط کالعدم دہشت گرد گروہ تک محدود نہ سمجھی جائے۔ ان دہشت گردوں کا ریموٹ کنٹرول یا سوئچ آن آف کنٹرول بھی ہے۔ سیکولر لبرل ایلیٹ حکمران اور متمول طبقہ اور ملا اشرافیہ کے درمیان بھی بہت سے معاملات طے شدہ ہیں۔ محض پانچ برسوں یا تین برسوں کے حالات اس تناظر میں دیکھ کر تجزیہ و تحلیل کر لیں۔ اندرونی خائنین و منافقین کا مذکورہ عناصر سے درپردہ ربط بھی۔ یہ سب نکات اپنی جگہ لیکن بنیادی طور پر یہ علاقہ پولیس اور دیگر ریاستی و حکومتی متعلقہ اداروں اور عملے کی نااہلی، ناکامی یا فرائض کی بجاآوری میں غفلت ہے کہ یہ تین پاکستانی شہری قتل کر دیئے گئے۔ دہشت گردوں پر ریاست کا خوف نہیں یا کوئی سیٹنگ ہے۔؟؟
ہماری پیشکش