0
Tuesday 18 Jan 2022 05:44

یمن کی آگ ابوظہبی تک پہنچ گئی

یمن کی آگ ابوظہبی تک پہنچ گئی
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

دو ڈرونز یمن سے اڑتے ہیں اور کافی لمبا راستہ طے کرکے ابوظہبی پہنچ کر خودکش حملہ کر دیتے ہیں۔ اس سے تیل کے ذخائر میں آگ لگ جاتی ہے اور کچھ اطلاعات کے مطابق ابوظہبی ائیرپورٹ پر بھی نقصان ہوا ہے۔ اس واقعے میں دو انڈین اور ایک پاکستانی مزدور کی موت بھی ہوگئی۔ جیسے ہی یہ واقعہ ہوا، دنیا بھر کے میڈیا نے دبئی سے یہ مناظر دکھانے شروع کر دیئے اور دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ یہی بن گیا۔ لوگ ابوظہبی کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ ہم اپنی تحریروں میں بار بار اس بات کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں کہ پڑوس میں آگ لگا کر اور اس آگ کو ہوا دے کر اپنے ملک میں بدامنی کی  بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ عقل مند لوگ پڑوس میں ہر صورت امن قائم رکھتے ہیں کہ خود کو بدامنی سے محفوظ رکھ سکیں۔ مرحوم راحت اندوری صاحب نے کیا خوب کہا تھا:
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے


ہم ابوظہبی میں ہونے والے ان دھماکوں پر خوش نہیں ہیں، کیونکہ کسی بھی مسلم ملک کا بدامن ہونا امت کی طاقت میں دراڑ پیدا کر دیتا ہے۔ ان وجوہات کو جاننا بہت ضروری ہے، جو اس آگ کو ابوظہبی تک لانے کا سبب بنی ہیں۔ دیکھیں عمان بھی خطے میں ہی موجود ہے، اس پر کبھی میزائل یا ڈرون حملہ نہیں ہوتا، اسی طرح اس کے مالدار جہازوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ اس کی وجہ بہت ہی سادہ سی ہے۔ عمان عربوں اور مسلمانوں کے درمیان مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر وہ دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ جب عمان کسی ملک میں اسلحہ مہیا نہیں کرتا، جب عمان کسی ملک میں ملیشیا نہیں بناتا اور نہ ہی کسی کے خلاف اتحاد تشکیل دیتا ہے تو خود اس کے خلاف بھی کوئی ایسا اقدام نہیں کرتا۔ اس لیے یہ خود بھی محفوظ ہے اور اس سے دوسرے ممالک بھی محفوظ ہیں۔

دس جنوری کی خبر ہے کہ عرب امارات کی حمایت یافتہ فورسز نے یمنی افواج اور رضاکار فورسز پر تیل سے مالا مال صوبے شبوا میں حملے کیے ہیں۔ اس سے یمنی افواج کو شدید نقصان بھی پہنچا اور کچھ تیل پیدا کرنے والا علاقہ بھی عرب امارات کی حمایت یافتہ افواج نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ عرب امارات کی یمن میں براہ راست فوجی مداخلت تو کچھ عرصہ پہلے کم ہوگئی تھی، مگر اس نے یمنی فوج اور رضاکار فورسز کے خلاف ملیشیا قائم کرنے، اسے مسلح کرنے اور مسلسل اس کی حمایت کرنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے رپورٹ دی تھی کہ عرب امارات نے کولمبیا کے کرائے کے جنگجو یمن بھجوائے ہیں۔ جب یمنیوں نے دیکھا کہ یہ تو کٹھ پتلیاں ہیں، ان کی ڈوریں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں تو انہوں نے عرب امارات پر حملوں کا اعلان کیا تھا۔ کچھ روز پہلے عرب امارات کے ایک بحری جہاز کو بھی قبضے میں لیا گیا تھا اور اب انہوں نے ابوظہبی پر حملے کر دیئے اور دنیا نے خوبصورت عالی شان عمارات کے ابوظہبی کی جگہ ایک دھویں اور آگ کے مناظر والا ابوظہبی دیکھا۔

یمنی فوج اور رضاکار فورسز نے اسے قبول کرنے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی اور فوری طور پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ دراصل یہ عرب امارات کے لیے بڑا واضح اور کھلا پیغام ہے کہ اگر تم ہمارے معاملات میں مداخلت کرو گے تو تمہیں اس کے نتائج کو بھگتنا پڑے گا۔ عرب امارات کوئی بہت بڑا علاقہ نہیں ہے اور عرب امارات کی کسی سے کوئی دشمنی بھی نہیں تھی۔ اسی لیے اس کے حکمران خاندان نے اقتصادیات پر توجہ دی اور ابوظہبی کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے۔ جب بے تحاشہ دولت آئے تو اس کے گھمنڈ میں دوسروں پر حکومت کی خواہش جنم لے ہی لیتی ہے۔ یمن بیرونی مداخلت کے باعث عرب دنیا کا فقیر ترین ملک بن گیا، ورنہ یمن متمدن ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایشیاء کا دروازہ ہے اور افریقہ اور ایشیا کو الگ کرتا ہے۔ دنیا کی اہم ترین تجارتی گزر گاہ باب المندب یہیں واقع ہے۔

کچھ عرصہ پہلے الجزیرہ سمیت بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں نے یہ رپورٹ دی تھی کہ باب المندب کے پاس واقع ایک یمنی جزیرے پر متحدہ عرب امارات نے قبضہ کر لیا ہے اور یمن کے اس اہم ترین دفاعی جزیرے پر اڈہ تعمیر کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے تو اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا، مگر منصور ہادی گروپ نے تصدیق کر دی تھی کہ یہ  اڈہ متحدہ عرب امارات تعمیر کر رہا ہے۔ یمنی اسے اپنی سرزمین پر قبضہ تصور کرتے ہیں اور اس کی کسی صورت اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یمن بڑی افرادی قوت کے ساتھ ایک وسیع ملک ہے، اس کے پاس سمندر کے انتہائی اہم حصے ہیں، جہاں بڑی بندگاہیں تعمیر کرکے بڑے اور ترقی یافتہ شہر بسائے جا سکتے ہیں۔ عرب امارات یہ سمجھتا ہے کہ اگر یمن میں امن آجائے اور ان کی بندگارہیں پوری طرح سے کام کرنے لگیں تو اس سے ان کا بڑا نقصان ہوگا اور ان کی معیشت بیٹھ جائے گی۔

اس لیے یہ چاہتے ہیں کہ یمن پر ان کی کٹھ پتلیوں کی حکومت رہے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو یہ یمن کے دو یا تین حصے کرنے کی بھی منصوبہ بندی رکھتے ہیں۔ اس سے ایک کٹھا پھٹا یمن ان کے لیے کوئی چیلنج نہیں بن سکے گا، یہ انتہائی منفی سوچ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ یمن کی ان بندرگاہوں کو بھی پرموٹ کیا جاتا،  تاکہ باب المندب سے لے کر گوادر تک سمندری تجارت کو عروج ملتا، مگر یہاں تو دیگر مسلم ممالک کے ترقیاتی منصوبوں کی جڑیں ہی کاٹی جاتی ہیں۔ یمنی فوج اور رضاکار فورسز کے پاس کچھ کھونے کو نہیں ہے اور عرب امارات پر ان کا ایک حملہ ان ممالک کی ساکھ کو اربوں ڈالر کا ڈنٹ ڈال جاتا ہے۔ پڑوس میں لگی آگ کو گھر کی آگ سمجھ کر اسے بجھانا چاہیئے اور کسی صورت میں ہوا نہیں دینی چاہیئے۔ ظفر زیدی نے کیا خوب کہا ہے:
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے

 
خبر کا کوڈ : 974183
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش