0
Tuesday 18 Jan 2022 21:43

اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 51 اور یمنی کارروائی

اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 51 اور یمنی کارروائی
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
 
17 جنوری 2022ء کو یمنی فوج نے یو اے ای کو میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا۔ یمنی فوج نے متحدہ عرب امارات کی حساس علاقوں پر 20 ڈرونز اور 10 بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کیا، جس سے مادی نقصان کے علاوہ 9 افراد ہلاک اور 6 زخمی ہوگئے۔ یمن کے اندر بھی، متحدہ عرب امارات کے ایک فوجی کارگو طیارے کو جنوبی یمن میں شبوا صوبہ کے ہوائی اڈے پر نشانہ بنایا گیا۔ المیادین نے اطلاع دی ہے کہ جس اماراتی طیارہ کو نشانہ بنایا گیا، وہ ہوائی اڈے سے "العمالقه " کے عناصر کے لئے جو یمنی افواج کے ساتھ لڑ رہے ہیں، فوجی ساز و سامان اور مدد لے جا رہا تھا۔ متحدہ عرب امارات پر حالیہ حملوں کا کئی طریقوں سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ حملے یمنیوں کی جانب سے متحدہ عرب امارات کو خبردار کرنے کے بعد ہوئے۔

اگرچہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے فروری 2020ء میں اعلان کیا تھا کہ وہ یمن سے اپنی فوجیں نکال رہی ہے، لیکن اس نے یمن کے اندرونی معاملات میں سیاسی مداخلت کے ساتھ ساتھ ملک میں اپنی انٹیلی جنس سرگرمیوں کو بھی جاری رکھا ہوا ہے اور حالیہ مہینوں میں یمن مخالف سرگرمیوں میں اضافہ کیا ہے۔ اسی مناسبت سے یمنی نیشنل سالویشن گورنمنٹ کے حکام نے متحدہ عرب امارات کو اس پالیسی کو جاری رکھنے کے نتائج سے خبردار کیا تھا۔ یمن کے انصار اللہ کے سیاسی بیورو کے رکن محمد البخیتی نے حال ہی میں متحدہ عرب امارات کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنی اشتعال انگیز کارروائیاں جاری نہ رکھے، کیونکہ اگر یہ کشیدگی جاری رہی تو ہم تو اے ای کے اندر حملہ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس لیے حالیہ حملے ان انتباہات کو انجام دینے کے لیے تھے، جو یمنیوں نے وقتاً فوقتاً متحدہ عرب امارات کو دیئے تھے۔

انصار اللہ کے ترجمان اور صنعا کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد عبدالسلام نے بھی متحدہ عرب امارات کے خلاف کارروائی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے کا ایک چھوٹا ملک جو امریکہ اور اسرائیل کی خدمت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہا ہے، یمن سے دوری اختیار کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن اس نے عملاً ایسا کیا نہیں ہے، جو حالیہ مختلف اقدامات سے ثابت ہوگیا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے بھی گذشتہ سال جنوبی یمن میں صیہونی حکومت کے لیے کچھ امور انجام دیئے ہیں اور حال ہی میں یمن میں ایک صیہونی فوجی اڈے کی تعمیر کے لیے باضابطہ طور پر مالی امداد کا آغاز کیا ہے۔ یمنی ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ اڈہ جو جزیرہ سوکوترا کے جزیرے "عبدالکوری" پر تعمیر کیا جانا ہے، صیہونی حکومت کا ہے اور متحدہ عرب امارات کی انٹیلی جنس سروس اس بیس کی تعمیر میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔

متحدہ عرب امارات کا خیال ہے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بعد خاص طور پر یمن میں اس کے لئے اپنی مداخلت پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھنا آسان ہو جائے گا۔ حال ہی میں یمنیوں نے یمنی پانیوں میں متحدہ عرب امارات کے ایک بحری جہاز کو قبضے میں لے لیا، جس میں بڑی مقدار میں اسلحہ تھا۔ متحدہ عرب امارات کی سرزمین پر حالیہ حملے جنوبی یمن میں صیہونی حکومت کے ساتھ ابوظہبی کے تعاون و اشتراک پر یمنی مجاہدین کا ردعمل ہے۔ یاد رہے کہ حالیہ حملوں میں ایک صنعتی علاقے اور ابوظہبی کے ہوائی اڈے کو یمنی میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ درحقیقت یمنیوں کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی معیشت کسی بھی قسم کے حملوں کے لیے انتہائی کمزور ہے۔ اسی مناسبت سے انہوں نے متحدہ عرب امارات کے اقتصادی زونز کو نشانہ بنایا ہے۔ "یہ علاقہ ابوظہبی کے جنوب مغرب میں ہے اور متحدہ عرب امارات کے اہم ترین اقتصادی علاقوں میں سے ایک ہے۔"

رشیا ٹوڈے نے ابوظہبی میں المصفح صنعتی زون کی اہمیت کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ بہت ساری صنعتی اور آٹوموبائیلز کمپنیاں نیز متحدہ عرب امارات کی قدیم ترین بندرگاہ، اس خطے میں واقع ہے۔ اسی طرح اس علاقے میں بہت سی تجارتی اور رہائشی تنصیبات ہیں۔ "اس علاقے میں بین الاقوامی نمائشیں بھی منعقد ہوتی ہیں۔ ابوظہبی ایئرپورٹ متحدہ عرب امارات کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے۔ یمنیوں کی طرف سے ان علاقوں کو نشانہ بنانا متحدہ عرب امارات کے لیے ایک عملی انتباہ ہے۔ یمن کی انصار اللہ تحریک کے سیاسی بیورو کے رکن محمد البخیتی نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر متحدہ عرب امارات نے یمن پر حملے بند نہ کیے تو مزید دردناک حملے کئے جائیں گے۔ یمنیوں نے حالیہ  حملے کو "آپریشن سٹارم" کا نام دیا ہے، جس پر علاقائی اور عالمی ردعمل سامنے آرہا ہے۔

مزاحمتی گروپوں نے متحدہ عرب امارات کی مذمت اور یمنی امور سمیت خطے کے دیگر مملک میں ان کی مداخلت کی مذمت کی ہے اور یمنی کارروائی کو فتح قرار دیا ہے۔ عراق کی اسلامی مزاحمت نے ایک ٹویٹر پیغام میں لکھا "ہم قومی نجات کی حکومت میں اپنے آزاد منش بھائیوں کو متحدہ عرب امارات کی حکومت کے خلاف ان کی فتوحات پر مبارکباد پیش کرتے ہیں، جو کہ خطے میں تباہی اور برائی اور تکبر کا ایک بازو ہے۔" دوسری طرف عرب ممالک نے یا تو خاموشی اختیار کر رکھی ہے یا یمنیوں کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ متحدہ عرب امارات، جسے ابوظہبی کے ولی عہد اور جنوبی کوریا کے صدر کے درمیان طے شدہ ملاقات کو منسوخ کرنے پر بھی مجبور کیا گیا، نے دعویٰ کیا کہ حوثی ملیشیا کے اقدامات خطے کے استحکام کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کی سلامتی کی تقدیر کو متاثر کر رہے ہیں۔

اس دوران سعودی عرب کی جانب سے شدید ترین ردعمل سامنے آیا ہے۔ یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی جارحیت کو نظر انداز کرتے ہوئے سعودی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا کہ حوثی عسکریت پسند خطے اور دنیا کی سلامتی، امن اور استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ ترک حکومت مغربی ایشیائی خطے کی ان غیر عرب ریاستوں میں سے ایک ہے، جس نے متحدہ عرب امارات کے خلاف یمنی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ چاوش اوغلو نے ابوظہبی کے خلاف یمنی آپریشن کو دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس کارروائی کی مذمت کی۔ ترکی کے اس مؤقف کا براہ راست تعلق انقرہ اور ابوظہبی کے تعلقات میں ایک کشیدہ دور کے بعد ہونے والی حالیہ تبدیلیوں سے ہے۔

امریکی حکومت اور بعض یورپی ممالک نے بھی آپریشن طوفان پر ردعمل کا اظہار کیا۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ابوظہبی میں یمنی مزاحمتی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس کارروائی میں ابوظہبی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سمیت شہری اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ امریکا کا دعویٰ ہے کہ وہ شہری علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے، جبکہ یمن کے خلاف سعودی اماراتی اتحاد کی گذشتہ سات برسوں سے جاری جنگ میں عام شہری سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ گذشتہ رات سعودی امریکی جارح جنگجوؤں نے شہریوں کے گھروں پر براہ راست حملہ کیا، جس سے ان میں سے پانچ کو تباہ کر دیا گیا، لیکن امریکہ یا یورپی ممالک کی جانب سے یمنی شہریوں کو نشانہ بنانے کی مذمت میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

بلاشبہ یمنیوں نے متحدہ عرب امارات کے خلاف جو کچھ کیا، وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 میں جائز دفاع کی ایک مثال ہے، کیونکہ متحدہ عرب امارات سعودی اتحاد کا ایک اہم رکن ہے، جس نے خاص طور پر حالیہ مہینوں میں یمن مخالف حملوں اور سرگرمیوں میں شدت پیدا کر دی ہے۔ یمن کی مذمت اور سعودی مظالم پر خاموشی منافقانہ رویہ ہے۔ مغرب کا یہ دوہرا مؤقف ایک بار پھر ثابت کر رہا ہے کہ سامراجی طاقتیں انسانی حقوق کے مسئلے کو صرف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 974349
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش