0
Thursday 20 Jan 2022 21:00

ابوظہبی پر انصاراللہ کے فضائی حملوں میں پوشیدہ اسٹریٹجک پیغامات

ابوظہبی پر انصاراللہ کے فضائی حملوں میں پوشیدہ اسٹریٹجک پیغامات
تحریر: محمد رضا مرادی
 
پیر 17 جنوری 2022ء کے دن متحدہ عرب امارات کا دارالحکومت ابوظہبی شدید دھماکوں سے کانپ اٹھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق یہ دھماکے المصفح کے علاقے میں تین آئل ٹینکرز میں ہوئے جس کے بعد ان میں آگ لگ گئی۔ ابوظہبی پولیس نے ان دھماکوں کی تصدیق کرتے ہوئے اعلان کیا: "آئل ٹینکرز میں دھماکوں کے باعث تین افراد جاں بحق اور چھ زخمی ہو گئے ہیں۔ جاں بحق ہونے والے افراد میں سے ایک پاکستانی اور دو انڈین شہری تھے۔" پولیس کے مطابق ابوظہبی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے احاطے میں آگ بھی لگ چکی تھی لیکن اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ابوظہبی پر انصاراللہ یمن کا یہ محدود فضائی حملہ اسٹریٹجک لحاظ سے بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ ہم تحریر حاضر میں اس فضائی حملے کی وجوہات اور اس میں مضمر اسٹریٹجک پیغامات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
 
1)۔ انصاراللہ یمن نے متحدہ عرب امارات کو نشانہ کیوں بنایا؟
متحدہ عرب امارات یمن کے خلاف 2015ء میں فوجی جارحیت کے آغاز سے ہی سعودی عرب کا ساتھ دینے میں مصروف ہے۔ البتہ یمن میں تعینات 5 ہزار اماراتی فوجی ہر گز فرنٹ لائن پر حاضر نہیں ہوئے۔ اماراتی حکومت نے یمن میں مختلف مسلح گروہ تشکیل دے رکھے ہیں اور وہ انہیں انصاراللہ یمن کے خلاف فوجی جھڑپوں کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یمن میں کافی تعداد میں اماراتی فوجی مارے جا چکے ہیں۔ 2019ء میں اماراتی حکومت نے یمن سے فوجی انخلاء کا اعلان کیا تھا لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں اور متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ مسلح دہشت گرد عناصر اب بھی یمن کے کچھ علاقوں میں سرگرم عمل ہیں۔
 
انصاراللہ یمن نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے فوجی انخلاء کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا چھوڑ دیا تھا۔ لیکن حال ہی میں انصاراللہ یمن نے متحدہ عرب امارات کی ایک ایسی کشتی پکڑی جس میں وسیع پیمانے پر فوجی سازوسامان موجود تھا۔ اس واقعہ نے اماراتی حکومت کا پول کھول دیا۔ لہذا انصاراللہ یمن نے متحدہ عرب امارات کو خبردار کیا کہ یمن میں فوجی مداخلت جاری رکھے جانے کی صورت میں اسے فوجی کاروائی کا نشانہ بنایا جائے گا۔ دوسری طرف اماراتی حکومت نے نہ صرف یمن میں فوجی مداخلت ختم نہیں کی بلکہ صوبہ الشبوہ پر سعودی عرب کی فوجی جارحیت میں اس کا ساتھ بھی دیا۔ یوں انصاراللہ یمن نے اپنی دھمکی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ابوظہبی کو میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنا ڈالا۔
 
2)۔ ابوظہبی پر انصاراللہ کے فضائی حملوں میں پوشیدہ اسٹریٹجک پیغامات
اماراتی حکمران تصور کر رہے تھے کہ انصاراللہ یمن سات سال جنگ کے بعد ابوظہبی کو نشانہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے لیکن حالیہ حملوں نے ثابت کر دیا کہ انصاراللہ یمن خطے میں ایک موثر فوجی اور سیاسی قوت ہے۔ یہ حملہ چند اسٹریٹجک پیغامات کا حامل ہے:
الف)۔ باہر سے سکیورٹی درآمد کرنے کے نظریے کا بطلان
متحدہ عرب امارات کم رقبہ اور قلیل مقامی آبادی ہونے کے ساتھ ساتھ کمزور مسلح افواج کا حامل ملک ہے جس کے باعث وہ اکیلے اپنی سکیورٹی برقرار نہیں کر سکتا۔ لہذا اس نے خود کو امریکہ کی حفاظتی چھتری کے نیچے قرار دے رکھا ہے۔ لیکن گذشتہ چند سالوں کے دوران یہ حفاظتی چھتری انصاراللہ کے حملوں میں رکاوٹ ثابت نہیں ہو سکی۔
 
گذشتہ برس متحدہ عرب امارات نے اپنی سکیورٹی یقینی بنانے کیلئے مسئلہ فلسطین سے کھلم کھلا غداری کرتے ہوئے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم سے دوستانہ تعلقات استوار کئے۔ امارات اس اقدام کے بدلے اسرائیل سے جدیدی جنگی طیارے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن انصاراللہ یمن کے حالیہ فضائی حملوں نے اماراتی حکمرانوں کے اس نظریے کو باطل قرار دے دیا ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے اپنی قومی سلامتی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ ان حملوں نے ثابت کر دیا ہے کہ سکیورٹی کوئی ایسی چیز نہیں جسے باہر سے درآمد کیا جا سکے۔ درحقیقت انصاراللہ نے ابوظہبی کو یاددہانی کروائی ہے کہ سکیورٹی خریدے جانے والی چیز نہیں ہے۔ یہ ان حملوں کا اہم ترین اسٹریٹجک پیغام تھا۔ متحدہ عرب امارات نے امریکہ اور غاصب صہیونی رژیم کی مرضی کے تمام اقدامات انجام دیے لیکن وہ ابوظہبی کی سکیورٹی برقرار کرنے میں ناکام رہے۔
 
ب)۔ یمن جنگ کے زمینی حقائق تبدیل ہو چکے ہیں
ابوظہبی پر انصاراللہ یمن کے فضائی حملوں میں پوشیدہ ایک اور اہم پیغام یہ ہے کہ یمن جنگ کے زمینی حقائق اور میدان جنگ کی مساواتیں تبدیل ہو چکے ہیں اور اب بالکل نیا منظرنامہ درپیش ہے۔ گذشتہ چند سالوں کے دوران امارات حکومت کی پوری توجہ یمن کی بندرگاہوں پر مرکوز ہو چکی تھی اور وہ میدان جنگ میں زیادہ سرگرمی نہیں دکھا رہی تھی جس کا نتیجہ انصاراللہ کی تیز پیشقدمی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس وقت بھی متحدہ عرب امارات ایک دو راہے پر کھڑا ہے اور اسے انصاراللہ کے خلاف جنگ میں بھرپور شمولیت اور محض بندرگاہوں تک محدود رہنے میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ ظاہر ہے اگر امارات جنگ میں بھرپور کردار ادا نہیں کرتا تو سعودی اتحاد اس جنگ کو ختم کرنے کی جانب زیادہ تیزی سے قدم اٹھائے گا۔ 
خبر کا کوڈ : 974705
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش