3
0
Friday 21 Jan 2022 16:08

پروآ، کیا اہل تشیع کے بیدخلی پروگرام میں ریاست شریک ہے؟

پروآ، کیا اہل تشیع کے بیدخلی پروگرام میں ریاست شریک ہے؟
تحریر: قرۃ العین عینی

ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پروآ کے علاقے بھٹیسر میں قتل ہونے والے تین اہل تشیع مسلمانوں کی نماز جنازہ و قل خوانی ادا کر دی گئی ہے۔ حسب معمول نماز جنازہ اور قل خوانی کے اجتماعات میں سیاسی جماعتوں نے خاموش شرکت کی جبکہ شیعہ مسلکی شناخت کی حامل مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے خصوصی شرکت کی۔ نماز جنازہ و قل خوانی کے اجتماع میں اہلسنت و اہل تشیع دونوں شریک رہے۔ مقتولین امداد حسین اور سجاد حسین آپس میں بھائی تھے جبکہ مختیار حسین قریبی رشتہ دار تھے۔ تینوں افراد رزق حلال کی غرض سے صبح سویرے اپنی دکان پر موجود تھے کہ دو موٹر سائیکلوں پہ چار ”نامعلوم“ افراد آئے، ہتھیار نکالے، تسلی کے ساتھ فائرنگ کی، اطمینان کیا کہ تینوں مقتولین سے کسی کے اندر زندگی کی رمق تو باقی نہیں اور پھر حملہ آور واپس چلے گئے۔ ان حملہ آوروں کو فرار ہونے کی ضرورت نہیں تھی، لہذا وہ فرار ہونے کے بجائے سکون کے ساتھ واپس چلے گئے۔

حملہ آور کو فرار کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے کہ جب اسے پکڑے جانے کا خوف ہو یا جہاں اسے یہ احساس ہو کہ اس نے ارتکاب جرم کیا ہے۔ ڈی آئی خان میں اہل تشیع کے قتل کو نہ ہی جرم سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی اسے انجام دینے والے کو کوئی خوف محسوس ہوتا ہے۔ لہذا قاتل آتے ہیں، پاکستانی، شیعہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں۔ واپس چلے جاتے ہیں۔ اس شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں اب تک سینکڑوں اہل تشیع قتل ہوچکے ہیں۔ حکومت اور ریاست کا انصاف ملاحظہ فرمائیں۔ آج تک کسی ایک قاتل کو کسی اہل تشیع کے قتل کے جرم میں پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا۔ کیوں۔؟ کیونکہ اس شہر میں اہل تشیع مسلمانوں کے قتل کو حکومت، ریاست اور ادارے ”جرم“ سمجھتے ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اول اہدافی قاتل گرفتار نہیں ہوتے کیونکہ انہیں گرفتار کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔

دوئم اگر کہیں بادل نخواستہ ان قاتلوں کی گرفتاری باامر مجبوری واقع ہو بھی جائے تو پھر ان سے لازمی اور پیشہ وارانہ تفتیش کرنے کے بجائے انہیں خصوصی پروٹوکول کے ساتھ رسمی کارروائی کے عمل سے گزارا جاتا ہے اور نتیجے میں یہی قاتل وکٹری کے نشان بناتے، پھولوں کے ہار پہن کر کبھی عدالت، کبھی جیل اور کبھی تھانوں کے باہر ملتے ہیں۔ پورے ڈی آئی خان کی بات تو چھوڑیں، وہاں تو آج تک وہ اہدافی قاتل بھی نہیں پکڑے جاسکے کہ جن کی تصاویر ایک سو سے زائد سی سی ٹی وی کیمروں میں ریکارڈ کی گئیں۔ ہم صرف ایک تحصیل پروآ کی بات کر لیتے ہیں۔ پروآ میں آباد اہل تشیع کے جان، مال اور ذرائع معاش کو تسلسل کے ساتھ منظم طریقے سے کچلا جا رہا ہے اور ساتھ ساتھ متاثرین کو ہر ممکن طریقے سے یہ بھی باور کرایا جا رہا ہے کہ طویل عرصہ سے جاری اس سفاکانہ عمل کو حکومت، ریاست اور اداروں کی خاموش حمایت حاصل ہے۔

دو ماہ قبل ملیکھی گاؤں سے تعلق رکھنے والے اہل تشیع زمیندار غلام عباس کو دن دیہاڑے گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ تاحال عوام کے جان و مال کے محافظ اداروں کو ان کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ چودہ ماہ قبل پروآ کے گاؤں گھونسر سے بی اے کے سٹوڈنٹس محسن عباس کو نامعلوم افراد نے اغوا کیا اور کروڑوں روپے تاوان طلب کیا۔ مغوی محسن عباس کے ورثاء نے ہر قانونی، ریاستی، سیاسی و عوامی دروازے سے مدد کی خیرات مانگی، مگر ایک سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود سنوائی کہیں نہیں ہوئی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل محسن عباس کے چچا کو بھی اغوا کیا گیا تھا اور اس خانوادے نے اپنے زرعی ترکے کو اونے پونے داموں بیچ کر تاوان ادا کرکے زندہ وصول کیا تھا۔ چند روز قبل اغواکاروں کی جانب سے مغوی محسن عباس کی ایک وڈیو جاری کی گئی تھی کہ جس میں وہ اپنے اکابرین سے درخواست کرتے ہیں کہ اغواء کاروں کے مطالبات پورے کریں، ورنہ اسے بھی یاور عباس (میانوالی کے مغوی) کی طرح قتل کر دیا جائے گا۔ ماضی کو کریدیں تو شائد ہی تحصیل پروآ کا کوئی کونہ ایسا ہو کہ جہاں سے اہل تشیع کے خون کی مہک نہ آرہی ہو۔

اسلام آباد میں مقیم پروآ کے ایک نوجوان کے مطابق ”پروآ میں ہماری نسل کشی ہمیں ختم کرنے سے زیادہ بے دخل کرنے کی کوششوں پر مبنی ہے۔ کوئی لمبی چوڑی سائنسی یا پیچیدہ گیم نہیں ہے بلکہ سیدھا سیدھا کلیہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہم مکتب اہلبیت (ع) سے دستبردار ہوں، جو کہ ظاہر ہے ہمیں کسی قیمت پر قبول نہیں، چاہے یہ قیمت ہماری جان ہو یا ہمارا مال۔ دوسرے مرحلے میں ہم سے ہمارے زندہ رہنے کا خراج وصول کیا جا رہا ہے۔ یہ خراج کبھی اغوا برائے تاوان کی صورت میں، کبھی ہماری زرعی اور آباد زمینیں اونے پونے داموں خرید کر اور کبھی ہمیں ہمارے کاروبار سے بیدخل کرکے وصول کیا جا رہا ہے۔ یہ جذیہ یا خراج وصولی ہی تو ہے کہ وہ پہلے ہمارا بندہ اغوا کرتے ہیں۔ اس کے بعد تاوان کیلئے منہ مانگی قیمت مانگتے ہیں۔ قیمت کروڑوں روپے ہوتی ہے۔ اس کی ادائیگی کیلئے ہمیں زمینیں فروخت کرنی پڑتی ہیں، وہ بھی کوڑیوں کے بھاؤ۔ پھر تاوان ادائیگی کے بعد بندے کا سلامت مل جانا بھی نصیب کی بات ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی جاری ہے۔ (جو کہ یقیناً یہ اعلان ہے کہ آؤ ہمارے ساتھ جنگ کرو) جس میں اہل تشیع شناخت رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اس ٹارگٹ کلنگ میں وہ رقوم بھی بروئے کار لائی جاتی ہیں کہ جو تاوان کی مد میں وصول کی جاتی ہیں، یعنی کروڑوں میں۔“ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سارا عمل حکومت اور اداروں کے تعاون کے بغیر ممکن ہے۔؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس بے رحمانہ عمل کو سامنے رکھیں تو دو سوال ذہن میں آتے ہیں۔ پہلا کیا ہمارے ریاستی ادارے کمزور ہیں اور اتنی اہلیت و استعداد نہیں رکھتے کہ اس عمل کو جڑ سے اکھاڑ سکیں۔؟ دوسرا اگر کمزور نہیں ہیں تو پروآ میں جاری اس عمل کی روک تھام کیوں نہیں کر رہے۔؟ جہاں تک استعداد کی بات ہے کہ پاکستان کے ریاستی اداروں کے مابین دہشت گردی کے خلاف ایسا مربوط اور مضبوط رابطے کا انتظام موجود ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ ان اداروں سے بالا بالا کوئی بھی قوت، تنظیم یہ تمام کام انجام دے۔

اب تو اتنے جدید آلات اداروں کو میسر ہیں کہ بازار میں کوئی ہتھیار بند شخص موجود ہو تو کنٹرول روم کے کیمرے ریڈ یا گرین مارک کے ذریعے اس کی نشاندہی کر دیتے ہیں۔ منٹوں میں ڈیوائسز، موبائل، سمارٹ شناختی کارڈ اور بینکنگ کارڈ کے ذریعے فرد کی لوکیشن معلوم کر لی جاتی ہے۔ لینڈ لائن ٹیلیفون سے لیکر انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والی چیٹ تک سکین ہو جاتی ہے۔ سمارٹ کیمرے اپنی زد میں آنے والے افراد کا تمام کچا چٹھا کھول کر رکھ دیتے ہیں، یہاں تک کہ عام اور مرکزی شاہراؤں سے گزرنے والی گاڑیوں تک کی شناخت محفوظ کی جاسکتی ہے۔ جب بغیر مٹھی گرم کئے آٹے کا تھیلہ افغانستان سمگل نہیں ہوسکتا تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ جیتے جاگتے مغوی انسانوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے اور ادارے بے خبر رہیں۔

درجنوں چوکیوں سے گزر کر ”نامعلوم افراد“ موٹر سائیکل پر آئیں دو، تین بندوں کو قتل کریں اور کمال اطمینان سے واپس جائیں۔ راستوں میں نہ ان کی مڈ بھیڑ کسی پولیس موبائل سے ہو اور نہ سکیورٹی اداروں کے قافلے سے۔؟ ہے ناں حیرت کی بات۔ اس جدید دور میں جب پروآ میں جاری اس خونی کھیل سے متعلق حکومت، ریاست اور اس کے اداروں سے پوچھیں کہ پروآ کے اہل تشیع کے قاتل کون ہیں۔ جواب ملتا ہے نامعلوم۔ کہاں سے آئے؟ معلوم نہیں۔ کہاں گئے؟ معلوم نہیں۔ اغوا کار کون ہیں؟ نامعلوم۔ تاوان کی رقم کہاں کہاں تک کون کون سے چینل سے گزر کر پہنچی۔؟ معلوم نہیں۔ لہذا حقیقت تلخ سہی مگر تسلیم کرنے اور ہضم کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ پروآ میں اہل تشیع کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے۔ اس میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی نہ کسی حد تک اکثر شریک ہیں اور باقی سب اس تمام عمل کے خاموش حامی۔ 
خبر کا کوڈ : 974831
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید سردار کاظمی
Pakistan
اس کا علاج یہ ہے کہ پاکستان بھر کے شیعہ عوام اور تنظیمیں حکومت کو الٹی میٹم دیں کہ اگر پاکستان انکی حفاظت نہیں کرسکتا تو وہ کسی دوسرے آپشن پر غور کرنے میں حق بجانب ہونگے۔
Pakistan
سلام
اینٹی شیعہ جینوسائیڈ اقدامات کی ضرورت ہے، ایک کثیرالجہتی حکمت عملی۔ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیں۔ ریاست سے کیا مطالبہ کریں؟ سب سے پہلے یہ مطالبہ کہ دہشت گردی کے شکار ان پاکستانی شیعہ شہریوں کے ورثاء کو معاوضہ دیں۔ اتنا معاوضہ کہ ورثاء اس رقم سے نہ فقط اپنا گھر خرید لیں بلکہ ساتھ ہی سرمایہ کاری کریں تو شہید کے خانوادہ کو اتنی آمدنی ہو کہ باآسانی گذارا ہوسکے۔ قاتلوں اور دشمنوں کو ان کے اہداف کے حصول میں ناکام بنائیں۔ کچھ کام ریاست و حکومت کے کرنے کے ہیں اور کچھ بحیثیت پاکستانی شیعہ شہری شہریوں نے کرنے ہیں۔ منفی اور نقصان دہ جذباتیت کی نہیں، اس باشعور جنون کی ضرورت ہے، جو علامہ اقبال کے مطابق اک جنوں کہ باشعور بھی ہے۔ ڈیرہ ضلع سطح پر شیعہ اسلامی قیادت کو اس ضمن میں پاکستانی اسلامی آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنا مقدمہ پیش کرکے مقدمہ لڑنے کی ضرورت ہے۔
ابوطالب
Pakistan
اللہ تعالیٰ ڈیرہ کے مومنین کی حفاظت فرمائے اور شیعہ پلیٹ فارم سے سیاست کرنے والی جماعتوں کو ہدایت بھی دے۔ آمین۔ محترمہ نے وہی سارا کچھ لکھا ہے کہ جو سب کو پتہ ہے، مگر کیا کرنا ہے، یہ کسی کو نہیں پتہ۔ مولانا حضرات تو قل خوانی کے موقع پہ لمبی لمبی تقریریں جھاڑ کر آگئے، مگر اس کا ردعمل کیا ملا۔؟ قل خوانی کے بعد رات کو مقتولین کی دکانیں، کریانہ سٹور کے تالے توڑ دیئے گئے۔ قریبی دکانداروں نے ورثاء کو بتایا کہ دکانوں کے تالے کٹے پڑے ہیں، جا کر سنبھالیں۔ یہ قیامت نہیں تو کیا ہے کہ جائے وقوعہ پہ اگلے دن قاتل یا ان کے دوست اپنے وجود کا اتنا شدید اظہار کریں۔؟؟؟ تکیہ ان پر ہے کہ جن کے اثاثے تب تب بڑھتے ہیں، جب جب ڈیرہ میں بے گناہ تشیع خون بہتا ہے۔۔۔۔
ہماری پیشکش