0
Saturday 22 Jan 2022 17:32

یمن میں بربریت

یمن میں بربریت
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

یمن کے شمالی صوبے صعدہ کی جیل پر جارح سعودی اتحاد کے وحشیانہ حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد اسّی سے زائد ہوگئی ہے۔ سعودی اتحاد نے جنوبی یمن کے بعض علاقوں کو بھی جارحیت کا نشانہ بنایا اور ظلم و بربریت کے ان مناظر کو دنیا سے چھپانے کے لئے وہاں کی انٹرنیٹ سروس کو بھی نقصان پہنچایا۔ المسیرہ ٹی وی نے خبر دی ہے کہ شمالی یمن میں واقع صوبہ صعدہ کی مرکزی جیل پر جارح سعودی اتحاد کے وحشیانہ حملے میں اسّی افراد جاں بحق اور تقریباً ایک سو چالیس افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ صعدہ کی مرکزی جیل پر سعودی امارتی اتحاد کی فوجی جارحیت کی ہر طرف سے مذمت کی جا رہی ہے۔ یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل نے اس سلسلے میں جارح اتحاد کے خلاف ایک تند و تیز بیان جاری کیا ہے اور اس میں زور دے کر کہا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکہ اور صیہونی حکومت کے ذلیل و خوار آلہ کار ہیں اور صعدہ اور الحدیدہ میں ان کے جرائم کی سزا ضرور دی جائے گی۔

یمن کی اعلیٰ سیاسی کونسل کا کہنا ہے کہ یمن میں جارح سعودی اتحاد کے وحشیانہ فوجی حملے اور وحشیانہ جرائم کی وجہ یمن کا وہ حالیہ جوابی حملہ ہے، جس نے متحدہ عرب امارات پر لرزہ طاری کر دیا ہے۔ میڈیا ذرائع نے جمعے کو صعدہ کی مرکزی جیل پر جارح اتحاد کے جنگی طیاروں کی وحشیانہ بمباری کی خبر دی تھی۔ اس حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد اسّی ہوگئی ہے، جبکہ ایک سو اڑتیس افراد شدید زخمی ہوئے ہیں۔ صعدہ کے گورنر نے یمن میں ہونے والے سعودی اتحاد کے جرائم اور قتل عام کا ذمہ دار پوری طرح امریکہ کو قرار دیا ہے۔ صعدہ کے گورنر محمد جاجر عوض نے شمالی یمن پر جارح سعودی اتحاد کے فضائی حملے اور اس میں ا‎سّی یمنی شہریوں کے شہید ہونے کی مذمت کی اور اس کا ذمہ دار پوری طرح امریکہ کو قرار دیا۔ محمد جابر عوض نے سعودی اماراتی اتحاد کے حملے میں دسیوں عام شہریوں کی شہادت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس جیل کے قیدی اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی خاموشی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔

صعدہ کے گورنر نے کہا کہ ہم یمنی عوام سے چاہتے ہیں کہ وہ محاذ جنگ کی جانب روانہ ہو جائیں اور جارحین کو قتل کرکے ان کی جارحیتوں کا جواب دیں۔ صوبہ صعدہ کی جیل پر جارح اتحاد کی بمباری اس اتحاد کا اب تک کا ایک بڑا حملہ شمار ہوتا ہے، جس میں بھاری تعداد میں عام شہری مارے گئے ہیں۔ دو ہزار پندرہ سے جارح سعودی اتحاد کے حملوں میں اس ملک کی پچاسی فیصد سے زیادہ بنیادی تنصیبات تباہ ہوچکی ہیں جبکہ اس ملک کے عوام کو بڑے پیمانے پر خوراک اور دواؤں کی قلت کا سامنا ہے۔ 2022ء کے آغاز کے ساتھ ہی سعودی اور اماراتی حکومتوں نے یمن پر بربریت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے ہتھیاروں سے لدے ایک بحری جہاز کو یمن بھیجا، جسے نیشنل سالویشن گورنمنٹ کی بحریہ نے یمنی پانیوں میں روک لیا۔ یمن کا یہ اقدام جنگ میں سعودی اتحاد کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔

یمنی متعدد بار متحدہ عرب امارات کو جنگ میں حصہ لینے کے بارے میں متنبہ کرچکے ہیں اور ابوظہبی کی جانب سے ہتھیاروں سے لدا بحری جہاز بھیجنے کے بعد یمنیوں نے ابوظہبی کے خلاف بھی "سمندری طوفان" کی کارروائی شروع کی، جس میں ایک صنعتی علاقے اور ابوظہبی کے ہوائی اڈے کو ڈرون اور میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ شمالی یمن میں واقع صوبہ صعدہ کی مرکزی جیل پر جارح سعودی اتحاد کے وحشیانہ حملے سے سعودیوں نے دو مقاصد حاصل کئے۔ سعودیوں نے اس حملے سے ابوظہبی کے خلاف یمنی طوفان آپریشن کا بدلہ لینے کی کوشش کی۔ درحقیقت اس حملے کی شکل میں ریاض کی کوشش یہ ظاہر کرنا تھی کہ یمن کے خلاف جنگ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ابھی بھی اتحاد موجود ہے اور اس جنگ میں متحدہ عرب امارات سے مزید تعاون حاصل کرنا ہے۔

دوسری جانب سعودیوں نے یہ حملہ یمنیوں کو متنبہ کرنے اور ڈرانے کے مقصد سے کیا اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات کے خلاف یمنی حملوں کے جاری رہنے کا سخت جواب دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں یمن کی انصار اللہ تحریک کی سیاسی کونسل کے رکن "محمد البخیتی" نے تاکید کی کہ سعودی اماراتی جارح اتحاد کا مقصد یمنیوں کو حالیہ دنوں کے جرائم سے ڈرانا ہے۔ صعدہ اور یمن کے دیگر حصوں پر سعودیوں کے حملے کا مسئلہ بین الاقوامی اداروں اور مغربی طاقتوں کی بے حسی کی علامت ہے، جبکہ گذشتہ پیر کو ابوظہبی پر یمنی حملے پر سلامتی کونسل اور مغربی طاقتوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا، جنہوں نے انصار اللہ کی مذمت کی، لیکن عام شہریوں پر سعودی حملے کا کوئی سنجیدہ ردعمل نہیں ملا۔

امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے ایک ٹویٹر پیغام میں سعودی اتحاد کے حملے کا ذکر کیے بغیر لکھا، "یمن بھر میں جھڑپوں اور حملوں کی شدت کو ختم ہونا چاہیئے۔" ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تنازع کے پرامن اور سفارتی حل کے لیے عہد کریں۔ یمن کے عوام امن کے ساتھ رہنے اور اپنے مستقبل کا تعین کرنے کے مستحق ہیں۔" سعودی جرائم کی مذمت کیے بغیر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے یمنی جنگ کے تمام فریقوں کو یاد دلایا کہ شہریوں اور شہری انفراسٹرکچر پر حملے بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ممنوع ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ان حملوں کی فوری، موثر اور شفاف تحقیقات پر بھی زور دیا۔

بلاشبہ اس طرح کے غیر فعال اور حتیٰ سعودی اتحاد سے حمایتی ردعمل نے یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی جارحیت کے ساتویں سال کے اختتام کو جائز بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے حالات میں یمنی عوام ان جرائم سے نمٹنے کا واحد راستہ فیصلہ کن ردعمل کے طور پر ہی دیکھتے ہیں۔ یمنی انصار اللہ تحریک کی سیاسی کونسل کے رکن محمد البخیتی نے کہا کہ "چاہے یہ ممالک کتنے ہی جرائم کا ارتکاب کریں، یمنی عوام ہمت نہیں ہاریں گے۔" بہرحال سفارتی حل کی ناکامی کے پیش نظر یمنیوں، سعودیوں اور اماراتی حکومت کے درمیان تصادم میں شدت ایک قدرتی امر نظر آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یمنی مسلح افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل یحییٰ صریح نے متحدہ عرب امارات میں مقیم غیر ملکی کمپنیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک چھوڑ دیں، تاکہ یمنی حملوں سے انہیں مالی نقصان نہ پہنچے۔
خبر کا کوڈ : 975045
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش