0
Tuesday 25 Jan 2022 18:56

دین و سیاست کا گہرا رابطہ

دین و سیاست کا گہرا رابطہ
تحریر: جاوید عباس رضوی

سیاست اور دین میں تفریق کا نظریہ آج تک لوگوں کے درمیان موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس فکر کی بنیاد کلیسا سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ بحث روم سے شروع ہو کر مختلف ادوار میں ان ملکوں تک پہنچی جو استعمار کے زیر تسلط تھے۔ مفکرین کا ماننا ہے کہ دین و سیاست کی جدائی کے بارے میں بحث و گفتگو چوتھی صدی عیسوی کے بعد شروع ہوئی اور ہر جگہ پھیل گئی، بعض نے اسے قبول کیا اور بعض نے رد کر دیا۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای اس حوالے سے فرماتے ہیں ’’دین و سیاست کے درمیان تفریق کا نظریہ بہت پرانا ہے۔ موجودہ دور میں ڈیموکریسی کا فلسفہ شدت سے اس نظریہ کی تائید و حمایت کرتا ہے اور اس کو قانون اساسی کا جز سمجھتا ہے۔ یہ جدائی ڈیموکریسی حکومت کے فرائض کو امور دینی سے جدا کرتی ہے۔‘‘ اسلامی تعلیمات کے مطابق دین کا سیاست کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اسلام معتقد ہے کہ دین حقیقی اور سیاست کا آپس میں نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے۔ سیاست دین کا حصہ ہے اور سیاست دین کے تناظر میں معاشرے کی ضرورت بنتی ہے اور اس کی مشکلات کو حل کرتی ہے۔

اگر دین کو سیاست سے جدا کر دیا جائے تو اس کی مثال ایسے درخت کی سی ہے، جو سوکھ کر اپنی رونق و تازگی کھو چکا ہو۔ سیاست کا دین کے بغیر تصور استعماری سازشوں میں سے ایک سازش ہے۔ استعمار کئی سالوں کے تجربات کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کے مفادات کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ الہیٰ آئین اور اس کے اجتماعی قوانین ہیں۔ استعمار کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ سیاست کو دین سے جدا رکھے، تاکہ اپنے مقاصد و عزائم حاصل کرسکے۔ استعمار نے دین مسیحیت کے ساتھ ایسا ہی کیا اور عیسائیت میں موجود الہیٰ آئین کو ایک گوشے میں قید کر دیا۔ اہل کلیسا اور مذہب عیسائیت میں دین دار طبقہ معاشرتی اور سیاسی مسائل سے کٹ کر گوشہ نشین ہو کر زندگی بسر کرتا، جس کی وجہ سے معاشرہ رہبانیت کے مرض سے دوچار ہوگیا۔ استعمار کا عیسائیت پر کامیاب تجربہ باعث بنا کہ اس نے دین اور سیاست میں جدائی کا طریقہ کار دیگر مذاہب اور مکاتب فکر میں بھی رائج کرنا شروع کر دیا۔

استعمار نے ان دونوں میں جدائی کا اس قدر پرچار کیا کہ اس کو قانون بنا دیا، تاکہ معاشرے اس قانون کی زد میں آکر اس تفکر کے حامل بن جائین۔ اس وقت غربی معاشرہ اور اس میں رہنے والے لوگ اس بات پر کامل ایمان لا چکے ہیں کہ دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں، جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ روشن فکر طبقہ جو غرب کی اندھی تقلید کرتا ہے، اس نے اس انحرافی فکر کو قبول کرکے سیاست مداری کی کوششیں شروع کر دیں اور سیاست کو صرف مفادات کے حصول کا ذریعہ قرار دیا جبکہ دین کو ہر انسان کا ذاتی انفرادی عمل قرار دے دیا گیا۔ آج مغربی ممالک میں دین اور سیاست کی جدائی کا نظریہ اور شعار قانون بن کر کے رائج ہوچکا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ غربی معاشرے جن چند نظریات کو حتمی اور یقینی سمجھتے ہیں، ان میں سے ایک دین اور سیاست میں کسی قسم کا ربط و تعلق نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی حکومت اور اسلامی طرزِ تفکر پر تعجب کرتے ہیں اور اس کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خوفزدہ و پریشان حال نظر آتے ہیں، کیونکہ اسلامی حکومت کا مطلب دین اور سیاست کا مضبوط تعلق اور نہ ٹوٹںے والا ربط ہے۔

علامہ اقبال (رہ) کے خیال میں اگر قوت اور طاقت دین اور اخلاق کی پابندیوں سے آزاد ہو تو وہ ہلاک کر دینے والے زہر سے بھی زیادہ خطرناک ہے اور اگر دین کی سرپرستی میں ہو اور اخلاقی اصولوں کی پابند رہے تو ایسی سیاست ہر زہر کا تریاق بن جاتی ہے۔ اگر سیاست دین سے الگ ہو جائے تو فقط چنگیزیت رہ جاتی ہے۔ چنانچہ شاعر مشرق فرماتے ہیں:
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اسلام تمام سیاسی پہلوؤں پر محیط ہے اور ہماری تمام زندگیاں دین کے دائرے و کنٹرول میں ہیں اور انسانی زندگی کے پہلوؤں کا کوئی پہلو نہیں، جس میں انفرادی، اجتماعی، سماجی، خاندانی زندگی، ازدواجی تعلقات، باپ بیٹے کے تعلقات، امت اور امام کے تعلقات اور حتی کہ ہم دوسری قوموں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ دین کے دائرے سے باہر نہیں ہے۔ آیاتِ قرآنی کا جائزہ لیا جائے، خواہ ہم احادیث کا حوالہ کیوں نہ دیں، یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سیاست اسلام کا متن ہے اور ہمارے پاس سیاست کے بغیر اسلام نہیں ہے۔

ایسا اسلام جس کا ماخذ قرآن و سنت ہو، وہ سیاست سے اجنبی نہیں ہوسکتا۔ انسان کا مقصد آخری سعادت اور کمال تک پہنچنا ہے، یعنی خدا کا قرب، جو تمام سماجی، سیاسی اور انفرادی میدانوں میں عبادت اور اطاعت الہیٰ سے حاصل ہوتا ہے اور درحقیقت سیاست اور سیاسی طرز عمل کا ہدف ہے۔ اسلام وہی مقصد ہے، جو خدا کی طرف سے مذہب کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ اس طرح کہ اسلام کے سیاسی اور سماجی احکام پر عمل نہ کرنا انسان کو اپنی دائمی سعادت کے حصول سے اتنا ہی محروم کر دیتا ہے، جتنا کہ نماز اور روزہ جیسے انفرادی احکام پر عمل نہ کرنا، بلکہ بعض اوقات اسلام کے سیاسی اور سماجی فرائض پر عمل کرنا ایمان کی بنیاد اور دوسرے اعمال کو قبول کرنے کی شرط ہے۔ جیسا کہ شیعہ مذہب میں ائمہ طاہرین علیہم السلام کی ولایت کو ایک سیاسی اور سماجی معاملہ کے طور پر قبول کرنا، ابدی سعادت میں ایمان اور اعمال صالح کے اثر کے لئے شرط ہے۔ خود ائمہ طاہرین (ع) نے حکومت الہیٰ کے قیام کے لئے ہر آن کوششیں کی ہیں۔ امام خمینی (رہ) نے مذہب کو سیاست سے الگ رکھنے کے نظریہ کی سرے سے تردید کی۔

امام خمینی (رہ) کا مشہور و معروف جملہ کہ ”ہمارا دین عین سیاست اور ہماری سیاست عین دین ہے“، نہ ہمارا دین سیاست سے الگ اور نہ ہماری سیاست دین سے جدا ہے، جس نے ہمارے ذہن میں نقش بنا لیا ہے اور یہ مسئلہ ہم لوگوں کے لئے واضح اور روشن ہوچکا ہے، لیکن اسلام کے سیاسی نظریہ اور دین کی سیاست میں دخالت جیسے مسائل پر تحقیق کی ضرورت ہے، مغربی تمدن میں دین کو جامعیت نہیں دی گئی اور اس کو محدود کرکے پیش کیا گیا ہے کہ دین کا تعلق اجتماعی و سیاسی مسائل سے نہیں ہے، فقط دین کے اندر انسان کا خدا سے رابطہ ہونا چاہیئے اور فرد کا رابطہ خدا سے کیا ہے، اس چیز کو دین کے اندر مغربی تمدن کے نزدیک بیان کیا جاتا ہے۔ لہٰذا سیاسی، اجتماعی، بین الاقوامی، حکومت اور لوگوں کے درمیان روابط اور حکومتوں کے باہمی روابط یہ سب انسان اور خدا کے رابطہ سے جداگانہ چیزیں ہیں، یعنی ان کا دین سے کوئی ربط نہیں ہے۔

لیکن اسلامی نقطہ نگاہ سے دین ایک وسیع مفھوم رکھتا ہے کہ جس کے اندر انسان کے فردی اور اجتماعی مسائل شامل ہیں اور اس کے اندر انسان کا خدا سے اور انسان کا آپس میں رابطہ اور دیگر سیاسی، اجتماعی اور بین الاقوامی روابط بھی شامل ہیں، یعنی دین کے اندر یہ ساری باتیں پائی جاتی ہیں، کیونکہ اسلام کے اعتبار سے خداوند عالم تمام دنیا پر حاکم ہے، لہٰذا سیاست، اقتصاد (معاش) تعلیم و تربیت، مدیریت اور وہ تمام مسائل جو انسانی زندگی سے متعلق ہیں، وہ سب دینی احکام میں شامل ہیں۔ استعمار زدہ لوگوں نے حکومت کے سلسلہ میں مغربی تقسیم کو آسانی سے قبول کیا ہے اور معتقد ہیں کہ حکومت دو حال سے خالی نہیں ہے، حکومت یا ڈکٹیٹرشپ ہے یا صرف ڈیموکریٹک، لیکن اصلی حکومت کی ایک تیسری شکل ہے کہ نہ ڈکٹیٹری ہے اور نہ صرف ڈیموکریٹک اور وہ خالص دینی و اسلامی حکومت ہے، یعنی ایسی حکومت و مملکت جس میں دین کے قوانین و آئین کا مکمل لحاظ رکھا جائے اور انہیں اس حکومت میں نافذ بھی کیا جائے اور اگر اسلامی دستور کے نافذ کرنے میں (کمی و زیادتی) سے کام لیا جائے تو اس کو اسلامی حکومت کے علاوہ کوئی بھی نام دیا جاسکتا ہے۔

عیسائیوں کی سوچ ہے کہ حضرت عیسٰی مسیح (ع) کا دین سیاست سے جدا ہے، اور کہتے ہیں کہ دین اور سیاست میں کوئی ربط نہیں ہے، ان کا مقصد یہ رہتا ہے کہ دینداروں کو بند کمروں میں مختلف اذکار و ورد کے ساتھ مصروف و مگن رکھیں، تاکہ خود سرعام چنگیزیت کا کھیل کھیل سکیں۔ ان کی شہنشاہیت و حکومت میں دیندار مزاحم نہ ہو جائیں، اس لئے ان کا دائرہ پہلے سے ہی محدود کیا کرتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ دین اور سیاست کی جدائی کا اتنا زیادہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ دینی مدارس میں بھی اثر انداز ہوگیا اور صاحبان مدرسہ بھی اُس کے قائل ہوگئے ہیں اور اگر کوئی حکومت اسلامی کے بار ے میں گفتگو کرنا چاہے تو اُسے تقیہ کرنا پڑتا ہے، اس وقت مدارس دینیہ کی بڑی تعداد ایسی ہے، جو اگرچہ زبان سے دین و سیاست کی جدائی کی قائل نہیں، مگر عملی زندگی میں وہ اس استعماری پروپیگنڈے کی قائل نظر آتی ہے اور سیاسی و اجتماعی ذمہ داریوں کو اپنے لئے فریضہ نہیں جانتے، نہ صرف ان امور کو انجام دینا اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے بلکہ اگر کوئی اس اجتماعی و سیاسی ذمہ داری کو ادا کرتا ہے تو ان کی نظروں میں وہ صحیح دیندار نہیں ہے اور اس کا مقام و تقدس ان کے ہاں کم ہو جاتا ہے۔

اس سلسلے میں آیت الله نوری همدانی نے کہا کہ اسلام میں سیاست اور دین دو جدا ہونے والے جزو نہیں ہیں اور کہا کہ اسلام میں دین اور سیاست میں جدائی بے معنی ہے، آپ کا ماننا ہے کہ مغربی ممالک میں پیش آنے والی سب سے اہم مشکلات دینی تعلیمات سے ان کی دوری کی بنا پر ہیں۔ مفکر اصغر عسکری اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ ہمارا جامع اور وسیع دین صرف انسان کی آخرت کے لئے نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی انسانوں اور معاشروں کے مسائل کو دین ہی حل کرتا ہے، پھر ایک اور لحاظ سے بھی دین سیاست سے ہرگز جدا نہیں ہوسکتا، کیونکہ انسان کی دنیا و آخرت کی سعادت اس میں ہے کہ وہ دین کے تمام قوانین پر عمل کرے، اگر کوئی فرد احکام دینی میں تو مرجع کے حکم کی پیروی کرے، مگر سیاسی مسائل میں کسی اور کی پیروی کرتا ہو تو یہ دیندار نہیں ہے، کیونکہ جس مرجع نے احکام بتانے ہیں، سیاسی راہنمائی بھی اسی کو کرنی ہے۔

پس دین صرف آخرت سنوارنے کے لئے نہیں ہے بلکہ دنیاوی امور کی رہنمائی بھی کرتا ہے، یعنی دین انسان کی صرف اخروی زندگی کے لئے رہنمائی نہیں کرتا بلکہ دنیا میں بھی معاشرے کے امور کا نظم و نسق اور سیاسی رہنمائی بھی دیتا ہے۔ پس دین جیسے انسان کی ابدی زندگی میں اس کو سعادت مند بناتا ہے، ویسے ہی اس کی دنیا کے لئے بھی ایک سیاسی نظام رکھتا ہے، جسے حکومت الہیٰ کہا جاتا ہے۔ امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ گمان نہ کیا جائے کہ اسلام عیسائیت کی طرح ہے کہ جس میں فقط انسان کا خدا سے معنوی رابطہ ہے اور کچھ نہیں، اسلام ایک سیاسی نظام حکومت رکھتا ہے، بشری زندگی کے لئے پروگرام رکھتا ہے، دین اور سیاست کا تعلق روح اور بدن کا تعلق ہے۔ امام خمینیؒ کے نزدیک دنیا و آخرت عرفان و سیاست ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کو کامل کرتے ہیں۔ دین پروگرام رکھتا ہے اور سیاست اسی پروگرام کو لاگو کرنے کا نام ہے۔

امام خمینی (رہ) نے مزید فرمایا کہ اسلام ایسا دین ہے کہ جس کے عبادی احکام بھی سیاسی ہیں، نماز جمعہ، نماز عید اور ان کے خطبے، حج کے دوران مکہ و عرفات و منیٰ میں اجتماع یہ تمام سیاسی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کتب حدیث کا دورہ کہ جس میں پچاس کتابیں ہیں اور اسلام کے تمام احکام بیان ہوئے ہیں، تین چار کتابیں صرف عبادات اور انسان کی خدا کی نسبت اور فرائض کے بارے میں ہیں اور کچھ اخلاقیات کے بارے میں ہیں، باقی تمام اجتماعیات، اقتصادیات، حقوق، سیاست اور معاشرے کی تدبیر سے متعلق ہیں، قرآنی حکم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے دو مرحلے ہیں، ایک انفرادی مرحلہ ہے، یعنی انفرادی طور پر ہر شخص کے لئے لازم ہے کہ وہ دوسروں کے اعمال پر ناظر رہے اور دوسرا اجتماعی مرحلہ ہے۔ ایک امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک دوسرے سے مل کر نظارت کریں اور اس سے مراد ایک سسٹم اور نظام تشکیل دینا ہے، جس سے یہ ذمہ داری ادا کی جا سکے اور یقیناً اس نظام کے لئے قدرتمند ہونا بھی ضروری ہے اور یہ حکومت اسلامی کی ذمہ داری ہے۔

امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اسلام کا تعارف کروائیں، تاکہ جوان نسل یہ نہ سمجھیں کہ علماء نجف و قم میں صرف اغسال کے احکام پڑھاتے ہیں، ان کو سیاست سے کوئی سروکار نہیں ہے اور وہ یہ نہ سمجھیں کہ دین و سیاست میں جدائی ہے اور دیندار کو سیاست سے الگ ہونا چاہیئے۔ امام راحل (رہ) فرماتے ہیں کہ کیا رسول خدا (ص) کے زمانے میں سیاست دین سے جدا تھی۔؟ کیا اس زمانے میں کچھ لوگ علماء اور کچھ دوسرے صرف سیاست دان تھے۔؟ کیا حضرت امیر المومنین (ع) کے زمانے میں سیاست دین سے جدا تھی۔؟ یہ باتیں استعمار اور ان کے ایجنٹوں کی ہیں، تاکہ وہ دین کو معاشرے کے نظم و نسق سے الگ رکھیں، تاکہ اس طرح سے وہ ہماری تمام ثروتوں کو غارت کریں اور یہی ان کا مقصد ہے۔ امام خمینی (رہ) کی خدمات اور تدبر و حکمت کو آج پوری دنیا میں سراہا جا رہا ہے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے، اس لئے نہیں کہ انہوں نے درجنوں علمی کتابیں لکھیں، سینکڑوں اور ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی بلکہ صرف اس لئے کہ انہوں نے معاشرتی اور سیاسی سطح پر ایک کامیاب انقلابی جدوجہد کی قیادت کی ہے۔

شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے امامت کے عنوان سے جو اشعار کہے ہیں، ان کا مصداق اور کوئی ہو یا نہ ہو، امام خمینی (رہ) ضرور ہیں۔ امام خمینیؒ دین کو سیاست اور سیاست کو دین کے ساتھ پیش کرنے میں بہترین رہنماء ثابت ہوئے۔ تيونس کي النہضہ پارٹی کے سربراہ راشد الغنوشی کہتے ہیں کہ حکومت سے دين کی جدائی کا مطلب يہ ہے کہ مملکت کو چند مافيائی گروہوں کے ہاتھوں ميں دے ديا جائے، جيسا کہ بعض يورپی ملکوں ميں ہو رہا ہے، سياست سے دين کی جدائی کی بات ايک مافيائی بدعت ہے، انسانوں کی زندگی ميں اخلاق اور اقدار کی اہميت کے پيش نظر دين و مذہب انسان کي بنيادی ضرورت ہے۔ حکومت سے دين کی جدائی ايک خطرناک امر ہے اور اس سے لاقانونيت اور بے نظمی پيدا ہو جاتی ہے اور معاشرے پر غلط اثرات حائل ہوتے ہیں۔

اسلام نے اپنے وجود ميں آنے سے اب تک مذہب و حکومت اور دین و سياست کے درميان رابطہ پيدا کيا ہے۔ معاشرتی زندگی سے دين کو الگ کرنے کا اسلام ميں کوئی مفہوم نہيں ہے اور مسلمان ہميشہ دينی تعليمات کے ہی زير سايہ رہے ہيں۔ بنا بر اين انہيں چاہیئے کہ وہ اپنی معاشرتی زندگی ميں اسلامی تعليمات اور اقدار کو ہی اپنائيں۔ خلاصے کے طور پر ہم ذکر کریں کہ دین اور سیاست لازم و ملزوم ہیں، ان کا ایک دوسرے کا ساتھ رابطہ گہرا ہے، اگر دین کو سیاست سے الگ کیا جائے تو دین خانقاہی، درباری اور صرف سماواتی رہ جاتا ہے اور اگر سیاست کو دین سے جدا کیا جائے تو سیاست چنگیزی، شہنشاہی اور مافیائی رہ جاتی ہے، لیکن خبردار کہ جب سیاست کو دین سے ہم آہنگ کرنا ہو تو خالص دین محمدی (ص) کو تلاش کرنا ہوگا، نہ کہ دینِ سامری۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا امام خمینی (رہ) کے نقش پا کو اپنی ذاتی، معاشرتی و اجتماعی زندگی کے لئے مشعل راہ و نمونہ قرار دے، تاکہ ایک مثالی و جامع حکومت تشکیل دی جائے۔
خبر کا کوڈ : 975282
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش