0
Thursday 27 Jan 2022 20:42

اسلامو فوبیا کے مقابلہ میں دنیائے اسلام کا اتحاد ناگزیر

اسلامو فوبیا کے مقابلہ میں دنیائے اسلام کا اتحاد ناگزیر
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور بالخصوص مغربی دنیا کی جانب سے اسلامو فوبیا کے پراپیگنڈے کے تناظر میں وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے کہ دنیائے اسلام باہمی اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ عالمی سیاسی منظر نامہ کو اپنے حق میں تبدیل کرے اور ساتھ ساتھ اسلام کے خلاف جاری سازشوں اور جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈہ کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں رونما ہونے والی بہت ساری تبدیلیوں میں ایک تبدیلی اسلام کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کو عام کرنا تھا۔ اس کام کے لئے مغربی دنیا نے نت نئے انداز اپناتے ہوئے اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ ایک طرف دنیا میں کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل کو جنم دیا، اسرائیلی اور بھارت دہشت گردی کو مغربی دنیا کے نام نہاد لیبل کے ساتھ پروان چڑھایا تو دوسری طرف اسرائیل اور بھارت جیسی درندہ صفت دہشت گرد ریاستوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کو دہشت گردی کا مغربی لیبل لگایا جانے لگا۔ اگرچہ مغربی دنیا اپنی مکروہ اور ناپاک سازشوں کے ذریعے عالم اسلام کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی متعدد کوششیں انجام دے چکی تھی، جس کے نتیجہ میں خلافت عثمانیہ کا سقوط اور اسی طرح نت نئی حکومتوں کا قیام تھا۔

مغربی دنیا کی حکومتیں یہ بات اچھی طرح جان چکی تھیں کہ ان کا مقابلہ اسلام سے ہی ہے۔ یہ سب کچھ انہوں نے ماضی کی جنگوں اور تجربات سے اخذ کیا تھا، تاہم ان کا بنیادی ہدف یہی قرار تھا کہ دنیا کی دیگر اقوام کے سامنے اسلام کو ناامنی والا مذہب قرار دیا جائے اور اس طرح دنیا کی اقوام کو اسلام کی اصل اور خوبصورت تعلیمات اور روشن چہرہ سے دور کرکے اندھیری دنیا میں رکھا جائے۔ مغربی دنیا نے اپنے ان عزائم کی تکمیل کے لئے جہاں مال و دولت کا استعمال کیا، وہاں ساتھ ساتھ اسلام کے نام پر نت نئے گروہوں کو جنم دے کر ان کے ذریعے اسلام کے چہرہ کو مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا کی حکومتوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو سفاکیت اور دہشت گردی ہی ان کی بنیاد تھی، جیسا کہ انہوں نے پہلی جنگ عظیم اور پھر دوسری جنگ عظیم میں انسانیت سوز مظالم کی داستانیں رقم کی ہیں۔

دور حاضر کی دنیا میں مغربی دنیا کی حکومتوں کے پاس صرف اور صرف ایک ہی طریقہ واردات باقی ہے کہ جب بھی یورپ اور مغرب میں کوئی حادثہ رونما ہو جائے تو اس کو مدعا بناتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کر دی جاتی ہے، تاکہ اسلام کے خلاف لوگوں کے جذبات کو بڑھاوا دیا جائے اور دنیا کی اقوام کو اسلام کی روشن اور سنہری تعلیمات سے دور کیا جائے۔ دوسری طرف خود مغربی و یورپی دنیا میں روز مرہ متعدد ایسے ہی ملتے جلتے واقعات میں یورپی اور مغربی ممالک کے شہری ملوث ہوں تو ان کے لئے نہ صرف خاموشی اختیار کی جاتی ہے، بلکہ ان کی مذہبی وابستگی کو بھی پوشیدہ رکھا جاتا ہے اور مغربی میڈیا پر اس طرح کی کوئی بحث سامنے نہیں آتی کہ اس واقعہ میں ملوث فرد کون ہے اور کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے بلکہ ہر طرف ایک خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔

جیسا کہ درج بالا سطور میں اسلام کے نام پر قائم کروائے جانے والے گروہوں کی بات کی گئی ہے، اس عنوان سے کئی ایک ایسے گروہوں نے جنم لیا ہے، جن کا ظاہری نعرہ اسلام کے لئے ہی تھا، لیکن پس پردہ اور حقیقتاً یہ گروہ مغربی دنیا بالخصوص امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی قوتوں کی ایماء پر قائم ہوئے تھے اور ان کو باقاعدہ ایسے کام انجام دینے کی تربیت دے کر لانچ کیا گیا تھا کہ جس کو بعد میں بنیاد بنا کر مغربی حکومتوں نے اسلام کے خلاف مہم جوئی کی۔ یعنی حالیہ زمانہ کی ایک مثال داعش کی ہے۔ داعش ایسے عناصر کا مرکب تھی کہ جن کی تربیت خود امریکی اور اسرائیلی ایجنسیوں نے کی تھی اور ان کو مسلم دنیا کے چند ممالک میں مالی اور مسلح مدد کے ساتھ وارد کیا تھا اور پھر ان کے ہاتھوں انجام پانے والی سفاکیت اور بربریت کو چند گھنٹوں میں ویڈیوز کی صورت میں پوری دنیا میں نشر کر دیا جاتا تھا۔

داعش کی جانب سے انجام دی جانے والی سفاکیت کی اسلام میں سختی سے ممانعت پائی جاتی ہے، حتیٰ کہ دیگر الہیٰ ادیان بھی اس طرح کی بربریت کی اجازت نہیں دیتے۔ تاہم اس دہشت گرد گروہ کے بانیوں بشمول امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل سمیت یورپی قوتوں نے جہاں ایک طرف اس دہشت گرد گروہ کی سفاکیت کو اسلام کے پرچم کے ساتھ جوڑ کر دنیا کی اقوام کے سامنے اسلام کو بدنام کیا، وہاں ساتھ ساتھ فلسطین میں بدترین اسرائیل ظلم اور بربریت کی پردہ پوشی کرتے ہوئے دنیا کی توجہ فلسطینی عوام پر ہونے والے اسرائیلی مظالم سے ہٹانے کی بھی کوشش کی۔ اسی طرح پاکستان اور گرد و نواح میں بھی امریکی و صہیونی تربیت یافتہ گروہوں کے ذریعے جہاں خطے کو غیر مستحکم کیا گیا، وہاں ساتھ ساتھ کشمیر جیسے اہم ترین مسئلہ سے توجہ کو بھی ہٹانے کی کوشش کی۔

اس صورتحال میں کہ جب دشمن نے اسلام کو اپنا نشانہ ہدف قرار دے رکھا ہے تو دنیائے اسلام کے ممالک اور ان کی حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دشمن کے اس مکروہ اور بھیانک منصوبہ کو ہر سطح پر ناکام بنائیں۔ داعش کا خاتمہ شام و عراق میں ہوچکا ہے، لیکن دشمن اب بھی اپنے اسی منصوبہ کے ساتھ افغانستان اور پاکستان سمیت دیگر اہم ممالک میں اپنی گھناؤنی سازشوں میں مصروف ہے۔ آج دنیائے اسلام کے باہمی اتحاد اور یکجہتی کی اشد ضرورت ہے، تاکہ دنیا کی دیگر اقوام کے سامنے مغربی دنیا کی حکومتوں کے اسلام مخالف پراپیگنڈہ کو ناکام کیا جائے۔ اگر مسلم دنیا کے ممالک متحد ہو کر مشترکہ حکمت عملی وضع کریں تو یقیناً جہاں اسلامو فوبیا کے خلاف سازشوں کو چکنا چور کیا جاسکتا ہے، وہاں ساتھ ساتھ مسلم دنیا کا ایک ایسا بلاک بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے، جو او آئی سی کی موجودہ صورتحال سے زیادہ بہتر کام کرے۔

اگر او آئی سی بھی اپنے کاندھوں پر اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھا سکے تو یہ بھی عالم اسلام کے لئے مثبت ثابت ہوگا۔ مسلم دنیا کے ممالک اگر اسلامو فوبیا کے خلاف ایک نکتہ پر جمع ہو جائیں تو اس قابل ہوسکتے ہیں کہ آئندہ زمانے میں مشترکہ کرنسی، مشترکہ پارلیمنٹ اور سرحدوں سے آزاد ہو جائیں۔ ان اقدامات کے نتیجہ میں یقیناً مسئلہ فلسطین بھی منصفانہ انداز میں حل ہو جائے گا اور ساتھ ساتھ کشمیر سمیت مسلم امہ کے دیگر ایسے تمام مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ لہذا دور حاضر میں دشمن کی سازشوں اور اسلامو فوبیا کا خاتمہ کرنے کے لئے دنیائے اسلام کا اتحاد ناگزیر ہے اور اس اتحاد کے لئے مسلم معاشروں کے تمام افراد کو انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اپنی ذمہ داریوں کو انجام دینا ہوگا، تاکہ ان انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے نتیجہ میں دنیائے اسلام کا اتحاد عملی جامہ پہن سکے۔
خبر کا کوڈ : 975736
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش