1
0
Friday 28 Jan 2022 23:46

ڈی آئی خان میں مار اور مار مار کا مقابلہ ہے

ڈی آئی خان میں مار اور مار مار کا مقابلہ ہے
تحریر: عمران خان

ڈیرہ اسماعیل خان میں 13 فروری کو سٹی میئر کا الیکشن ہونے جا رہا ہے۔ جس میں تحریک انصاف کے نامزد عمر امین گنڈہ پور، پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فیصل کنڈی اور جے یو آئی کے کفیل نظامی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔ اس انتخاب میں میاں خیل گروپ کے قیضار خان اور تحریک لبیک کے نامزد امیدوار بھی موجود ہیں، جو کہ خود تو جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، مگر دوسروں کی ہار جیت میں اہم کردار ضرور ادا کر رہے ہیں۔ عمر امین گنڈہ پور کو وفاق اور صوبائی حکومت دونوں کی بھرپور تائید و مدد حاصل ہے۔ ان کے دونوں بھائی وفاقی وزیر برائے امور کشمیر علی امین گنڈہ پور اور صوبائی وزیر بلدیات فیصل امین اس وقت ڈی آئی خان میں موجود ہیں اور بھرپور طریقے سے انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بجلی کی تاریں، ٹرانسفارمرز، کلاس فور نوکریاں، نقدی، سولر پینلز، پرموشنز کی فراہمی سمیت محکمانہ ٹرانسفرز، گلیوں، سڑکوں کی کھدائی اور مرمت کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے، مگر اس کے باوجود حکومتی جماعت کو وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پا رہے کہ جو میئر کی نشست جیتنے کیلئے لازم ہیں۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک بھر میں اپنی شوخ طبعیت، مہم جو شخصیت اور جیت کی صلاحیت سے شہرت پانے والے علی امین گنڈہ پور نے ڈیرہ اسماعیل خان میں ریکارڈ ترقیاتی کام کئے ہیں اور عوام کے دلوں کو مسخر کیا ہے۔ وہ گلگت بلتستان اور کشمیر کے انتخابات میں بھی اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔ ڈی آئی خان میں انہوں نے فوکل پرسنز، معاونین اور موجودہ و سابقہ بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے نچلے طبقے تک رابطے کو مضبوط بنایا ہے۔ انہوں نے سارا کچھ خود ہڑپنے کے بجائے حصہ بقدر جثہ کے اصول پر دوست، دشمن سبھی کو راضی کرنے کی کوشش کی ہے، مگر ان سب کے باوجود حالیہ انتخاب پر ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی گرفت مضبوط ہونے کے بجائے مسلسل کمزور پڑ رہی ہے اور اپوزیشن بالخصوص پی پی پی کی پوزیشن مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال کی متعدد وجوہات ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اپنی انتخابی مہم سائنٹیفک طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور تمام تر توانائیاں اپنی جیت سے زیادہ حکومتی امیدوار عمر امین کو ہرانے کیلئے خرچ کر رہی ہیں۔

انتخابی حلقے کے ہر کونے میں عمر امین کو اپوزیشن کا سختی سے سامنا ہے، مگر کہیں بھی اپوزیشن جماعتیں آپس میں ٹکراؤ کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر یونین کونسل ون مکمل طور پر پیپلز پارٹی کے حوالے تو یونین کونسل ٹو جے یو آئی کے حوالے۔ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان ہمکاری اور تعاون کا معیار یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کا بلاول ہاؤس، مولانا ہاؤس میں بدل چکا ہے، وہاں پیپلز پارٹی کے بجائے جے یو آئی کے جھنڈے نصب ہیں۔ میئر کے انتخاب سے قبل پی پی پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فیصل کنڈی نے بلاول ہاؤس جمیعت کو بیچ دیا ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ بلاول ہاؤس کی صورت میں فیصل کنڈی نے اپنی جیت کی قیمت جے یو آئی کو ادا کی ہے۔ اپوزیشن  کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی بے ہنگم اور بے ترتیب انتخابی مہم میں دم فقط علی امین کی موجودگی کے باعث ہے۔ عمر امین جو کہ خود میئر کے امیدوار ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران تاحال وہ اپنی اہلیت ثابت نہیں کر پا رہے ہیں۔ ووٹرز اور پارٹی ورکرز کے ساتھ مسلسل اور مربوط رابطے میں نہیں ہیں۔ انتخابی مہم مختلف علاقوں میں مختلف بندوں کے سپرد ہے، جو کہ سنجیدگی سے ووٹرز کو متوجہ نہیں کر رہے، پی ٹی آئی کے دیرینہ اور متحرک کارکنوں پر جے یو آئی اور پی پی پی ڈورے ڈال رہی ہیں اور کسی حد تک انہیں رام کرنے میں کامیاب بھی ہوچکی ہیں۔ عمر امین کے مقابلے میں فیصل کنڈی اور کفیل نظامی اپنی انتخابی مہم خود چلا رہے ہیں اور ڈور ٹو ڈور کمپئن میں ووٹرز سے براہ راست تعلق استوار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مرکز اور صوبے دونوں جگہوں پہ پی ٹی آئی حکومتیں اپنے اعلانات اور منشور کے مطابق ڈیلیور کرنے میں ناکام رہی ہیں، مہنگائی، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ، کاروباری مشکلات اور بیروزگاری نے عوام کو پی ٹی آئی سے اتنا متنفر کیا ہے کہ علی امین گنڈہ پور سے محبت کے باوجود بھی میئر کے انتخاب میں عوام بلے کو ووٹ دینے سے کنی کترا رہے ہیں۔ یہ بھی علی امین کی اپنی شخصیت کا ہی جادو ہے کہ موجودہ حالات کے باوجود بھی پی ٹی آئی کے امیدوار کو ہرانے کیلئے تمام اپوزیشن ملکر زور لگانے پر مجبور ہے۔

عمومی طور پر انتخابات میں وہ جماعتیں کہ جو براہ راست الیکشن میں حصہ نہیں لے رہی ہوتیں، وہ حکومتی امیدوار کی حمایت و تائید کرتی ہیں، مگر ڈی آئی خان میئر کے انتخاب میں یہ جماعتیں اپوزیشن کیمپ میں جا بیٹھی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے فیصل کنڈی کی حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے مابین بیک ڈور روابط جاری ہیں۔ میانخیل گروپ کے قیضار خان ایڈووکیٹ جو کہ خود میئر کے امیدوار ہیں اور مخصوص ووٹ بینک پر اثر رکھتے ہیں، وہ پیپلز پارٹی کے مسلسل رابطے میں ہیں۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ انھوں نے فیصل کنڈی کی حمایت کے بدلے آئندہ عام انتخابات میں PK-97 نشست پر پی پی پی کے ٹکٹ کی مانگ کی ہے۔ اس سلسلے میں نیئر بخاری اور سابق رکن قومی اسمبلی عمر فاروق میانخیل کے درمیان تفصیلی بات بھی ہوئی ہے۔ میاں خیل اونٹ حتمی طور پہ کونسی کروٹ لیتا ہے، اس کا انتظار سیاست کے تمام شوقین و شائقین شدت سے کر رہے ہیں۔ تحریک لبیک بھی اس انتخاب میں حصہ لے رہی ہے۔ ان کے امیدوار سیاسی پس منظر رکھنے والے قصوریہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اس جماعت نے توقع سے کہیں زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں۔

ڈیرہ سٹی میئر کے انتخاب میں عام خیال یہی تھا کہ تحریک لبیک جے یو آئی کے ووٹ کو ڈسٹرب کرے گی، تاہم تحریک لبیک جے یو آئی کے ووٹر کو ٹچ کرنے کے بجائے ان ایریاز میں زیادہ توانائی خرچ کر رہی ہے اور محبت رسول اللہ (ص) کے نام پہ ووٹ مانگ رہی ہے کہ جہاں پی ٹی آئی کا اعلانیہ یا خاموش ووٹر موجود ہے۔ تحریک لبیک کے ووٹ اور سپورٹ میں ماضی کی سپاہ صحابہ اور موجودہ اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی پیش پیش ہیں، جو کہ کبھی بھی جے یو آئی کے ووٹر یا سپورٹر نہیں رہے ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی سے منسلک اور ووٹ کی قوت رکھنے والے ویہا، اعوان، ڈھکو و دیگر برادریوں نے پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ دیا ہے اور پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سٹی میئر کے انتخاب پر اثر انداز ہونے اور بھائی کی انتخابی مہم چلانے کی پاداش میں چیف الیکشن کمشنر نے وفاقی وزیر علی امین کو الیکشن کمیشن طلب کر لیا ہے۔

ان تمام حالات واقعات کو مدنظر رکھیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کے عمر امین کیلئے یہ انتخاب جیتنا نہایت مشکل ہوچکا ہے۔ ان کے مدمقابل سابق ڈپٹی سپیکر اپنی سیاسی بقاء کی آخری و حتمی جنگ لڑ رہے ہیں، کیونکہ اگر وہ یہ انتخاب ہارتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ ان کو پھر کسی انتخاب میں کوئی کامیابی نہ ملے۔ کفیل نظامی جے یو آئی کے ٹکٹ ہولڈر ہونے کے باوجود تاحال وہ مقبولیت حاصل نہیں کر پائے، جو کہ ڈی آئی خان کے انتخابات میں جے یو آئی بالخصوص مولانا برادران کا خاصہ رہی ہے۔ کفیل نظامی کی انتخابی مہم کا سارا دارومدار مولانا فضل الرحمان کی 5 فروری کو اسلام آباد تا ڈی آئی خان یکجہتی ریلی پر ہے۔ مولانا فضل الرحمان 5 فروری کو سی پیک پر ریلی نکالنے جا رہے ہیں، جو کہ اسلام آباد سے شروع ہوگی اور سی پیک سے ہو کر یارک میں احتجاجی جلسے میں بدل جائے گی۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں 7 فروری کو مولانا نے پی ڈی ایم کا جلسہ کرنا ہے۔ یہ ریلی اور جلسہ ہی فیصلہ کرے گا کہ جماعت یعنی جمعیت علمائے اسلام سٹی میئر کا انتخاب جیتنے میں کس حد تک دلچسپی رکھتی ہے۔ فی الحال تو یہ صورت حال ہے کہ جماعت کے دیرینہ سیاسی کارکن بھی جے یو آئی کیمپ چھوڑ کر پیپلز پارٹی کیمپ میں آرہے ہیں۔ جن میں یو سی ون کے ایک کونسلر بھی شامل ہیں۔ ان حقائق کے ساتھ ساتھ یہ بھی اظہر من الشمس ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار کے پاس ڈی آئی خان کے شہریوں کے سامنے بیان کرنے کیلئے اپنی کارکردگی ضرور ہے، جبکہ اپوزیشن کے پاس محض وعدے، لارے، فاتحہ، عیادتیں اور تسلیاں ہیں۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا نیٹ ورک سٹی میئر کے انتخاب میں کلی طور پر خاموش ہے۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا نہ ہی مولانا کے ادوار کے واقعات، حالات عوام کے سامنے لا رہا ہے اور نہ ہی 2008ء سے 2013ء کے درمیان ڈی آئی خان میں ہونے والی دہشت گردی، سانحات کی تفصیل اور ان سانحات پر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی خاموشی پر بات کر رہا ہے۔

اس کے مقابلے میں پی پی اور جے یو آئی کا سوشل اور مقامی پرنٹ میڈیا مکمل طور پر فعال ہے اور تسلسل کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت کی کمزور کارکردگی اور امین برادران کی کردار کشی میں مصروف ہے۔ اپوزیشن کا سوشل میڈیا امین برادران کے دور میں ہونے والے ترقیاتی کاموں پر ایک طرف کرپشن کے الزامات کی چادر ڈال رہا ہے تو دوسری جانب ادھورے کاموں اور عوامی مسائل کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کرنے میں پیش پیش ہے۔ 13 فروری کو سٹی میئر کا چناؤ ڈیرہ اسماعیل خان کے شہریوں نے کرنا ہے، جے یو آئی، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی تینوں جماعتوں کے نمائندے حکومت میں رہتے ہوئے متعدد ادوار گزار چکے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی سطح پر ترقیاتی کاموں اور عوامی مسائل کے حل کے ضمن میں تینوں جماعتوں کی کارکردگی شہریوں کے سامنے ہے۔ بلاشبہ اگر کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ دیا گیا تو علی امین گنڈہ پور کے بھائی عمر امین یہ انتخاب بہرحال جیت جائیں گے اور اگر انتخابی سائنس، اپوزیشن کے انتخابی جوڑ، توڑ مروڑ، ہنگامے، ترانے، لارے سوشل و پرنٹ میڈیا کے شور شرابے، پروپیگنڈے، الزامات اور لا اینڈ آرڈر کے پریشر کی بھینٹ چڑھا تو یہ نشست بھی پی ٹی آئی کے ہاتھوں سے نکل جائے گی اور یہ چھوٹا نہیں بہت بڑا اپ سیٹ ہوگا۔

19 دسمبر 2021ء کو یہ انتخاب جب ہونے جا رہا تھا تو اس وقت حکومتی امیدوار عمر امین کی جیت سبھی کو نظر آرہی تھی، مگر اے این پی کے امیدوار عمر خطاب شیرانی کے قتل کے باعث یہ انتخاب ملتوی ہوا اور اب 13 فروری کو ہونے جا رہا ہے۔ ان 45 دنوں کے وقفے میں عمر امین کی مقبولیت میں کمی جبکہ اپوزیشن کی پوزیشن میں بہتری آئی ہے۔ اس ضمن میں عمر خطاب شیرانی کے قتل اور انتخاب کے التوا کا فائدہ حکومت کے بجائے اپوزیشن کو ہوا ہے۔ حالانکہ پی پی پی نے علی امین کو مورد الزام ٹھہرایا تھا اور اب قاتلوں کے گرفتار ہونے کے باوجود بھی تاحال اپنا الزام واپس نہیں لیا۔ وزیراعظم عمران خان اپوزیشن محاذ کے سربراہ کو مار (سانپ) قرار دیتے ہیں اور وفاقی وزیر علی امین گنڈہ پور کو مار مار۔ یہ فیصلہ بھی 13 فروری کو ہونا ہے۔
خبر کا کوڈ : 976062
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
پشتو زبان میں ’’مار‘‘ سانپ کو کہتے ہیں اور سانپ کو مارنے والے کو ’’مار مار‘‘ کہتے ہیں۔
لکھنے والے نے کسی ایک امیدوار کو سانپ اور دوسرے کو سانپ مارنے والا لکھا ہے یا
تینوں امیدواروں کو ہی سانپ لکھا ہے۔ واللہ عالم
ہماری پیشکش