QR CodeQR Code

مہذب دنیا اور اہل یمن کی استقامت

28 Jan 2022 23:38

اسلام ٹائمز: یہ سب کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، ہم سن رہے ہیں، فتح و شکست کے یہ نمونے ہمارے سامنے ہیں۔ ایک طرف تہذیب، ترقی، دولت کی ریل پیل، اسلحہ کے انبار، اکتالیس ممالک کی فوج اور امریکہ، اسرائیل کی چھتری تلے آل سعود کے عیاش حکمرانوں کے چہروں پر شکست کو دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف پا برہنگی، حمیت، غیرت، جرائت، استقامت، اتحاد و وحدت، اپنی سرزمین اور اپنے اصولوں سے عشق و محبت، کو فتح کا نقارہ بجاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اہل یمن فتح مند ہیں، انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا، تف ہے جدید اور مہذب دنیا کو مہذب و تہذیب یافتہ کہنے والوں پر۔۔۔۔!


تحریر: ارشاد حسین ناصر

کہا جاتا ہے کہ یہ مہذب دنیا ہے، یہ تہذیب یافتہ دور ہے، آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ اب جنگیں دو بدو نہیں ہونگی بلکہ ٹیکنالوجی کے دور میں جنگیں کمپیوٹر پر لڑی جائیں گی اور یہ بھی ایک نظریہ پیش کیا جاتا ہے کہ جنگیں اب پانی پہ ہونگی۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ جنگیں اقتصادی میدان میں لڑی جائیں گی، کبھی یہ سننے کو ملتا ہے کہ جنگیں اب میدان جنگ میں نہیں بلکہ ثقافت کے میدان میں جیتی جائیں گی، جس کی ثقافت مضبوط ہوگی۔ اگر ثقافت غالب آگئی تو وہ جیت جائے گا۔ یہ سب ہم گذشتہ دو تین دہائیوں سے سن رہے ہیں، مگر اس کے باوجود اسی عرصہ میں افغانستان کو مہذب امریکہ اور اس کے تہذیب یافتہ اتحادیوں نے مل کر تباہ کیا۔ عراق کو کیمیکل ہتھیاروں کی جھوٹی رپورٹس پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اینٹ سے اینٹ بجا کر کھنڈرات میں بدل دیا۔ شام کو بدترین یلغار اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیل ہر دن اہل فلسطین کو اپنے بارود اور طاقت کے گھمنڈ سے برباد کرتا ہے۔ لبنان بھی اسرائیلی مسلط کردہ جنگوں کا شکار چلا آرہا ہے۔

گذشتہ سات برس سے ہم یمن میں جنگوں اور طاقت کے بے دریغ استعمال کے ایسے مناظر دیکھ رہے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر ہم اس دنیا کو مہذب دنیا کہیں تو بہت ہی نامناسب ہوگا۔ نا صرف نامناسب بلکہ ہم ظالم کے ساتھی سمجھے جائیں گے۔ اگر ہم یمن کی تباہ کاریاں دیکھیں اور آل سعود اور ان کے اتحادیوں کو دی گئی مہذب دنیا کی کھلی چھوٹ کا اندازہ کریں تو ہمیں یہ دنیا تہذیب و ترقی یافتہ کی بجائے جہالت، درندگی، وحشت اور سفاکیت کے تاریک ادوار سے بدتر نظر آئیگی کہ کس طرح عالمی انسانی کنونشن، انسانی حقوق، جنگی قوانین، لڑائیوں کے اصول اور انسانی اخلاق کے عالمی معیار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ تہذیب و تمدن سے بھرپور اس دور میں یمن میں جو تباہ کاریاں سامنے آئی ہیں، اس پر نام نہاد انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، بچوں کے حقوق کے اداروں، جنگی جرائم کا تعین کرنے والے اور جنگوں میں اس پہلو کو مانیٹر کرنے والے اداروں کے وجود پہ سوالیہ نشان اٹھا دیئے ہیں۔

کیا انسانی حقوق فقط طاقتوروں کے ہوتے ہیں۔؟ کیا جنگی جرائم  کے الزامات فقط کمزوروں کو مزید دبانے کیلئے لاگو کئے جاتے ہیں۔؟ کیا بھوک مٹانے والے اداروں اور بھوک، ننگ، افلاس ختم کرنے کی عالمی مہمیں جن پر لوگوں کو عالمی ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے، کا تعلق آل سعود کے ظلم و سفاکیت کے شکار قحط کی سی کیفیت سے دوچار یمنی مسلمانوں کیلئے ممنوع قرار پائی ہیں اور اگر ممنوع قرار پائی ہیں تو ان کا جرم تو بتایا جائے کہ کس جرم کی پاداش میں ایسا کیا جا رہا ہے۔؟ کیا سات برس سے بھوک، ننگ کے شکار یمنی مسلمانوں کے سوکھے جسموں پر جنگی طیاروں سے پھینکے گئے بارود کی بارش کے شکار بیگناہوں کو طبی امداد دینا بھی جرم قرار پایا ہے۔؟ کیا آل سعود، آل النہیان کے سفاک جرائم کا حصہ بننے والے کرائے کے قاتلوں اور درندوں کو عالمی قوانین و ضابطوں کو روندنے کی کھلی چھٹی دی جا چکی ہے، کیا کسی اور ملک کو بھی یہ حق مل سکتا ہے یا ایسا کرنے کے جرم میں اس پر سب ہی مل کے یلغار کر دینگے۔؟

عجیب مہذب دنیا ہے کہ جو سال ہا سال سے ایک پا برہنہ، بھوک کی ماری یمنی قوم، جن کے جسموں پر لباس بھی پورا نہیں ہوتا، ان کو فتح کرنے کیلئے اتحاد بنا کر ان کی سرزمین کو ہتھیانے کیلئے اور انہیں مطیع و مغلوب کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور اکتالیس ملک مل کر بھی انہیں سات برس میں فتح نہیں کرسکے، نہ انہیں جھکا سکے ہیں اور نہ ہی انہیں ختم کرسکے ہیں۔ آگ و بارود کی بارش اور اسپتالوں، اسکولز، شادی بیاہ کی محافل، مساجد اور عوامی غیر مسلح عمومی بستیوں کو اندھا نشانہ بنانے والے مہذب ہیں اور تنگ آمد بہ جنگ آمد، محاصرے کا شکار اہل یمن، ایل غیرت و حمیت، اہل استقامت و حریت اگر ایک میزائل یا ڈرون آل سعود اور ان کے لے پالک اماراتیوں پر پھینک دیں تو تمھاری چیخیں ہر طرف سے سنائی دینے لگتی ہیں۔ بے شرم بخشو بھی بڑھ چڑھ کر مذمت کرنا فرض اولین سمجھتا ہے، حرمین کے دفاع کی قسم کو دوہراتا ہے۔۔۔

ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ کس کی حمایت کی جا رہی ہے اور کس کی مذمت، ایک طرف افغانستان میں وہاں کی حکومت سے لڑنے والوں کی کھلی حمایت و مدد اور دنیا کو ہر دن یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر طالبان کی مدد نہ کی گئی تو ایسا ہو جائے گا، ویسا ہو جائے گا۔ اسی طرح اہل یمن نے بھی تو اپنی سرزمین کے دفاع کیلئے میدان عمل کو چنا ہے۔ غاصب، قابض، جارح کے خلاف برسر پیکار ہیں اور جن کی حمایت میں آپ کبیدہ خاطر ہو رہے ہیں، ان سے بہتر مسلمان ہیں، پھر کیوں ان کے خلاف ظالمین کی مدد اور مظلوموں کی مذمت؟ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ آل سعود کے جارحانہ اقدامات اور مظالم کی مذمت کی بجائے مظلوم یمنیوں کی مذمت کرتے ہیں تو آپ کو کہیں بھی یہ حق نہیں کہ آپ کسی ایسے کی مدد اور حمایت کا اعادہ کریں، جو اپنی دھرتی کے دفاع و تحفظ اور جارحین کو سبق سکھانے کیلئے میدان میں اترا ہے، مگر بخشو کا کیا کریں، یہ تو ہر لحظہ بخشو بننے کیلئے تیار رہتا ہے۔

اہل یمن، اہل استقامت ہیں، اہل یمن اہل حریت ہیں، اہل یمن اہل غیرت و حمیت ہیں، اہل یمن اہل مزاحمت ہیں، اہل یمن اہل شجاعت و بہادری ہیں۔ انہوں نے جن حالات میں استقامت، مزاحمت، شجاعت، غیرت، حمیت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے ایسی تاریخ رقم کی ہے، جس کو آئندہ نسلیں یاد رکھیں گی۔ اہل یمن نے گذشتہ سات برس سے اپنے سے ہزار ہا گنا بڑے، بظاہر طاقتور، اسلحہ کی دنیا کے بڑے خریدار، تیل کی دولت سے مالا مال، جو پیسے کے زور پر انسانوں، عالمی اداروں کو خریدنے کی طاقت رکھتا ہے، اس کو جشن فتح کا بگل نہیں بجانے دیا۔ کوئی ایک رات بھی ان سات برسوں میں ان پر فتح کی نوید لے کر نہیں آئی۔ کوئی ایک صبح بھی ان کیلئے جشن فتح منانے کا پیام لے کر طلوع نہیں ہونے دی۔ اہل یمن نے آل سعود کی تمام تر طاقت، اسلحہ، تیل کی دولت، کرائے کی اکتالیس ممالک کی فوج، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، اقوام متحدہ اور نام نہاد مسلم ممالک کے چہروں سے نقاب الٹ دی ہے۔

ایسی ایسی ضربیں آل سعود اور ان کے اتحادیوں کو لگائی ہیں کہ تاریخ میں ان کی استقامت کے ابواب سنہرے حروف سے ان کے مقدس لہو کی روشنائی سے لکھے نظر آئیں گے۔ اہل یمن نے تہذیب یافتہ، متمدن دنیا کے چہرے سے نقاب الٹ دی ہے، اس لئے کہ ان پر مسلط کی گئی جنگ میں اقتصادی جنگ بھی تھی، ان پر پانی کی جنگ بھی مسلط تھی، ان پر ٹیکنالوجی کی جنگ بھی مسلط تھی۔ آل سعود نے اسلحہ کے ایسے ایسے معاہدے اس دوران کئے کہ امریکہ میں بے روزگار ہونے والوں کیلئے روزگار کے دروازے کھل گے، اہل یمن پر ثقافتی جنگ بھی مسلط تھی کہ ان کا پیغام اور آواز بننے والا کوئی نہیں تھا جبکہ آل سعود نے تو دولت اور درہم و دینار سے ممالک، ریاستوں اور حکمرانوں کو خرید لیا اور ان کے چینلز، اخبارات، میڈیا کو کنٹرول کر لیا، جنہوں نے جنگی جہازوں سے شہروں کی تاراجی، معصوم بچوں کی منوں مٹی تلے دبی لاشوں، اسپتال کے بستروں پر دفن ہو جانے والے زخمیوں اور بیماروں تک کی دلدوز خبروں کو سامنے نہیں آنے دیا۔

یہ سب کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، ہم سن رہے ہیں، فتح و شکست کے یہ نمونے ہمارے سامنے ہیں۔ ایک طرف تہذیب، ترقی، دولت کی ریل پیل، اسلحہ کے انبار، اکتالیس ممالک کی فوج اور امریکہ، اسرائیل کی چھتری تلے آل سعود کے عیاش حکمرانوں کے چہروں پر شکست کو دیکھا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف پا برہنگی، حمیت، غیرت، جرائت، استقامت، اتحاد و وحدت، اپنی سرزمین اور اپنے اصولوں سے عشق و محبت، کو فتح کا نقارہ بجاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اہل یمن فتح مند ہیں، انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا، تف ہے جدید اور مہذب دنیا کو مہذب و تہذیب یافتہ کہنے والوں پر۔۔۔۔!


خبر کا کوڈ: 976076

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/976076/مہذب-دنیا-اور-اہل-یمن-کی-استقامت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org