0
Sunday 11 Sep 2011 09:01

اختتام

اختتام
تحریر: حسام الدین برومند
اسلام ٹائمز- اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور مغربی ممالک میں وسیع پیمانے پر معاشی بحران، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور برطانیہ اور بعض دوسرے یورپی ممالک میں عوامی احتجاج اور ہنگاموں کی لہر ایسے موضوعات ہیں جو عالمی سطح پر خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
۱۔ 2007 میں امریکہ میں معاشی بحران کے رونما ہونے اور یکے بعد دیگرے کئی مغربی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے کے امریکہ اور عالمی استکباری نظام کیلئے اقتصادی اور سیاسی حوالے سے شدید منفی اثرات ظاہر ہوئے ہیں۔ اگر تین سال قبل براک اوباما کے دوران صدارت کے آغاز میں امریکہ کا قرضہ 10 کھرب 600 ارب ڈالر تھا تو اس وقت مختلف ملک سے موصول ہونے والی مختلف رپورٹس کے مطابق قرضے کی یہ رقم 14 کھرب 300 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ دوسرے مغربی اور یورپی ممالک میں بھی جو وسیع پیمانے پر معاشی بحران سے روبرو ہیں اقتصادی صورتحال اس قدر بگڑ چکی ہے کہ مغربی میڈیا بھی اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ اس بحران کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کمر سیدھی نہیں کر سکتا۔
ابھی کچھ دن قبل ہی آسٹریا کے اخبار "کوریئر" نے اقتصادی بحران کو یورپ اور مغربی دنیا کا ناقابل حل مسئلہ بیان کیا۔ البتہ مغربی میڈیا میں اس معاشی بحران اور عظیم اقتصادی مصیبت کے تمام پہلووں کو مکمل طور پر ظاہر نہیں کیا جاتا اور پیش کی جانے والی رپورٹس اور تجزیے صرف ان تلخ حقائق کو سطحی طور پر آشکار کرتے ہیں۔
انہیں حقائق میں سے ایک حقیقت وہ ہے جسے جرمن اخبار سدودویچہ سایتونگ (SZ) نے اسٹفن کرنلیس کی زبانی بیان کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مغربی معاشی بحران اس قدر عظیم اور وسیع ہے کہ ابھی مغربی ممالک نے اسکے بدترین مراحل کا تجربہ نہیں کیا۔
لہذا یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ امریکہ اور مغربی دنیا کی اقتصادی صورتحال انتہائی سنگینی کا شکار ہے جسکی وجہ سے روز بروز عوام کی فلاح و بہبود نامناسب اور مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ تقریبا ایک صدی کے بعد امریکہ کی اقتصادی ریٹنگ رسمی طور پر تنزل کا شکار ہوئی ہے۔ اسٹینڈرڈ اینڈ پورز کے مطابق امریکہ کی اقتصادی ریٹنگ ٹرپل اے سے نیچے آ کر ڈبل اے تک پہنچ چکی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ نہ فقط امریکہ بلکہ جی 20 ممالک بھی جو دنیا کی بیس بڑی اقتصادی پاورز سمجھے جاتے ہیں گذشتہ تین یا چار سالوں میں متعدد اجلاس اور میٹنگز کے باوجود امریکہ اور مغربی دنیا کی نابود ہوتی ہوئی معاشی صورتحال کا حل تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
البتہ بعض مغربی دانشوروں اور محققین نے سرمایہ دارانہ نظام کے اس بے قابو معاشی بحران کو روکنے کیلئے مشورہ دیا ہے کہ اقتصاد اور بینکنگ کے نظام میں اسلامی شریعت کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اسلامی معاشی نظام کو عالمی سطح پر دیوالیہ ہونے سے بچنے کا بہترین راستہ قرار دیا ہے۔
اسی طرح معروف اقتصادی میگزین "چیلنجر" نے بھی اپنے ایک مقالے میں مغربی معاشی بحران کی ریشہ یابی کرتے ہوئے لکھا ہے:
"اگر ہمارے بینکوں کے سربراہان قرآن مجید میں ذکر کی گئی تعلیمات کا احترام کرتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے تو ہم اس شدید بحران اور سنگین معاشی صورتحال سے دوچار نہ ہوتے"۔
کیونکہ امریکہ میں اقتصادی بحران کے آغاز کی اصلی وجہ رہائش کیلئے قرضے دینے اور ناقص بینکنگ نظام تھی لہذا 2008 میں اس بحران کے بعد اقتصادی ماہرین نے کئی بار عالمی سطح پر اسلامی بینکنگ کے نظام کو نافذ کرنے کی تاکید کی ہے۔
امریکہ کے نائب وزیر خزانہ رابرٹ کمٹ نے تین سال قبل واضح کیا تھا کہ اس وزارتخانے کے ماہرین اور افراد اسلامی بینکنگ کے مطالعے میں مصروف ہیں۔ یہ ثابت کرنے کیلئے کئی نمونے موجود ہیں کہ یورپی ممالک اور مغربی میڈیا اس بات کے معترف ہیں کہ صرف اسلامی شریعت ہی امریکہ اور مغربی دنیا کے اس عظیم مالی بحران کا حل ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام (Capitalism) کا آخری ہدف یہ ہے کہ اپنے استعماری مقاصد کے حصول کیلئے اسلامی بینکنگ کا بھی سہارا لے سکے۔
مذکورہ بالا توضیحات سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ اہم نکتہ ہے کہ انسانی معاشرے اور سیاست کے میدان میں میں دین اور الہی قوانین پر مبنی نظام کی موجودگی ہی وہ چیز ہے جو بشریت کو عظیم اور تباہ کن اقتصادی بحران سے نجات دلا سکتی ہے۔
۲۔ گذشتہ 8 ماہ کے دوران مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ خطے کی عوام اور حریت پسند اقوام یہ جان چکی ہیں کہ انکے ڈکٹیٹر حکمرانوں کی وابستگی اور کٹھ پتلی ہونے کی واحد وجہ دین کے نورانی احکام اور تعلیمات کا معاشرے پر حکمفرما نہ ہونا ہے۔
دینی تعلیمات کا معاشرے میں ترک کئے جانے کی اصلی وجہ بھی تیونس میں بن علی اور مصر میں حسنی مبارک جیسے کٹھ پتلی حکمرانوں پر امریکہ اور مغربی طاقتوں کا حد سے زیادہ اثر و رسوخ اور تسلط ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر دین اور الہی تعلیمات کو اہمیت دی جاتی اور معاشرے پر انکی حکومت ہوتی تو مغربی طاقتوں کے نوکر افراد جیسے مبارک، بن علی، علی عبداللہ صالح وغیرہ برسراقتدار آنے کی جرات نہ کرتے۔ اس وقت مشرق وسطی میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیاں اسلام پسندی کی جانب گامزن ہیں اور عوام درحقیقت مغرب اور مغربی طرز زندگی کے خلاف عدالتی کاروائی کے خواہاں ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ مشرق وسطی کی تمام اقوام کا مشترکہ اور ناقابل تغییر ہدف "اسلام" اور امریکی و صہیونیستی پالیسیوں کو ترک کرنا ہے۔
حال ہی میں فرانس کے تحقیقاتی ادارے "آئفوب" کی جانب سے شائع کردہ سروے رپورٹ کے مطابق اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ یورپی ممالک کے دو تہائی عوام بھی معتقد ہیں کہ مشرق وسطی میں رونما ہونے والی انقلابی تحریکوں کے نتیجے میں اسلامی جماعتیں اور گروہ عوام کی طرف سے برسراقتدار آئیں گے۔
اس سے قبل بھی امریکی تحقیقاتی ادارے "پیو" کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق امریکہ 2011 میں دنیا کا منفور ترین ملک قرار پایا تھا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ اسلامی دنیا میں بیداری کی لہر آنے کے سبب واشنگٹن کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔
اسی وجہ سے اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم جو امریکہ کی طفیلی ریاست ہے خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک کے آغاز سے ہی انتہائی بوکھلاہٹ اور پریشانی کا شکار ہو چکا ہے اور اسرائیلی حکام کئی بار کھل کر اس پریشانی اور خوف کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔
لہذا اگر بنجمن نیتن یاہو اور شیمون پرز جیسے افراد اس تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ خطے میں ایک اور اسلامی انقلاب برپا ہو رہا ہے یا اسرائیلی اخبار ہارٹز لکھتا ہے کہ مشرق وسطی میں اسلامی طوفان آ رہا ہے اور انکے ساتھ ہی اسرائیل کا سابق فوجی سربراہ یواف گالانت یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ مشرق وسطی میں اسلامی بیداری کی تحریک نے اسرائیل کے مستقبل کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے اور اسکی سانسیں اکھیڑ دی ہیں، تو یہ سب اظہار نظر اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ حقیقی اسلام بہت جلد خطے میں اور حتی اس سے بھی زیادہ وسیع سطح پر حکمفرما ہونے والا ہے۔
مثال کے طور پر شائع ہونے والی متعدد رپورٹس کے مطابق مصری عوام کی اکثریت اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر نئے آئین کی تدوین کا مطالبہ کر رہی ہے۔
۳۔ برطانیہ اور بعض دوسرے یورپی ممالک میں ہنگامے اور بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج بھی ایسا مسئلہ ہے جسکی وجہ اقتصادی اور معاشی مشکلات تک محدود نہیں ہے۔ حکمرانوں کی سیاسی کرپشن اور نسلی تعصب کا سیاست میں شامل ہو جانا عوام کو سڑکوں پر لانے کا اصلی سبب بنا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ برطانیہ جیسے ممالک میں بڑے پیمانے پر طبقاتی اختلاف کی اصلی وجہ بھی دولتمند اور سرمایہ دار افراد کی بے دینی ہے۔ جیسا کہ خود برطانوی ذرائع کی جانب سے شائع کردہ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ لندن کے شمالی اور جنوبی حصوں میں بسنے والے افراد کے درمیان درآمد کا فرق 273 گنا ہے۔ سرمایہ دار صرف اور صرف سود کو اہمیت دیتے ہیں اور انکے نزدیک انسانی اقدار اور غریب افراد کی مدد کوئی معنا نہیں رکھتی۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ دین جو معاشرتی سطح پر اور سیاسی میدان میں تاثیرگذاری کی صلاحیت رکھتا ہے اور نسلی امتیازات کو ختم کر سکتا ہے صرف اسلام ہے کیونکہ اسلام میں کسی انسان کا دوسروں پر برتر ہونے کا صرف ایک معیار موجود ہے جو "تقوی" اور پرہیزگاری ہے۔ اور جہاں تقوی و پرہیزگاری ہو وہاں عوام کے درمیان مختلف طبقات اور کلاسز کا کوئی وجود نہیں رہتا۔
۴۔ آخر میں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اگرچہ گذشتہ 11 سال کے دوران امریکہ کی سربراہی میں استعماری نظام نے کئی منصوبے بنائے تاکہ نئی امریکی صدی (PNAC) کا قیام عمل میں لایا جا سکے لیکن 11 ستمبر کے ڈرامے اور اسکے بعد 2001 اور 2003 میں افغانستان اور عراق پر امریکی جارحیت سے لے کر 2003 میں "گریٹر مڈل ایسٹ" کا منصوبہ اور 2006 میں "نیو مڈل ایسٹ" کا منصوبہ بھی مکمل ناکامی کا شکار ہوا۔
2007 میں امریکہ اور مغربی دنیا کا مالی بحران اور اسکی دوسری موج جو اس وقت یونان، پرتگال، سپین، اٹلی، فرانس، جرمنی اور برطانیہ تک پہنچ چکی ہے اور مشرق وسطی میں اسلامی بیداری کی تحریک کا آغاز اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ امریکی استعماری نظام اسلام پسندی کے مضبوط قلعے یا یروشلم پوسٹ کے بقول اسلامی جمہوریہ ایران کے اثر و رسوخ سے روبرو ہو چکی ہے۔ حضرت امام خمینی رہ کے بقول یہ صدی مستکبرین پر مستضعفین کے غلبے کی صدی ہے اور اسکے آثار بہت حد تک ظاہر ہو چکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 97895
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش