0
Monday 17 Aug 2009 11:12

صالحین کی حکومت کی خصوصیات

صالحین کی حکومت کی خصوصیات
تحریر: فرشتہ صالحی
ترجمہ: عباس ہمدانی
اس مضمون میں مصنف نے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ عالم ہستی خیر اور صلاح کی طرف گامزن ہے اور سرانجام خیر کی حکمفرمائی پر ختم ہو گی، صالح افراد کی حکومت کی کچھ خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے اور حضرت ولی عصر عج کی عالمی حکومت کا زمینہ فراہم کرنے پر زور دیا ہے۔
انسان، فساد اور تباہی کا ذمہ دار:
انسان جب سے مختلف معاشرتی اسباب کی خاطر ایک حکومت کا محتاج ہوا تو منیجمنٹ اور طاقت کو کنٹرول کرنے کے مسئلے سے روبرو ہوا۔ چونکہ معاشرے کے تمام افراد کسی نہ کسی طرح حکومت کی طاقت میں شریک ہیں لہذا حکومت ایک ایسی جائز طاقت کی مالک بن گئی جس کو کنٹرول کرنا کسی شخص یا گروہ کے بس کی بات نہ تھی۔ اسی وجہ سے "طاقت فساد کی جڑ ہے" کی سوچ انسانی تاریخ کے حافظے میں محفوظ ہو گئی اور جہاں بھی حکومت کے اقتدار اور طاقت کی بات کی جاتی فساد کا مفہوم بھی لوگوں کے ذہن میں آنے لگتا۔ کچھ افراد یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صالحین کی حکومت کے بارے میں بات کرنا ایک ناممکن چیز کے بارے میں سوچنے کے مترادف ہے کیونکہ طاقت کے ہمراہ فساد کا نہ ہونا ممکن نہیں۔ طاقت ہمیشہ ڈکٹیٹرشپ اور استبداد اور اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جو انسان کی طرف سے حق کو قبول کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن کریم کے اندر بہت سی باطل اور ناجائز حکومتوں کا تذکرہ ملتا ہے جو زبردستی یا مکر و فریب کے ذریعے لوگوں پر حکمرانی کرتی تھیں اور ان پر ظلم و ستم روا رکھتی تھیں۔ یا ایسی حکومتوں کا تذکرہ ملتا ہے جو پہلے تو جمہوری طریقے سے لوگوں پر حاکم ہوتی تھیں لیکن بعد میں منحرف اور باطل افکار اور کردار کی وجہ سے نفسانی خواہشات کا شکار ہو جاتیں اور قوموں کی تباہی کا سبب بن جاتی تھیں۔ شاید فرعون اور نمرود قرآنی آیات میں باطل قوتوں کا بہترین نمونہ ہوں۔ متعدد آیات میں ان کا ذکر ملتا ہے جو ان کی
سوچ اور نظریات کو بیان کرتی ہیں۔ ان سب چیزوں کے باوجود قرآن کریم بیان کرتا ہے کہ عالم ہستی اس طرح سے خلق کی گئی ہے کہ وہ خود بخود خیر اور صلاح کی حکمرانی کی طرف گامزن ہے۔ اگرچہ اس آخری مرحلے تک پہنچنے میں بہت سے نشیب و فراز موجود ہیں اور بعض حالات ایسے بھی ہیں جب یہ دکھائی دیتا ہے کہ شر اور فساد خیر اور صلاح پر غلبہ پا چکا ہے۔ لیکن اس وقت بھی خیر اور صلاح ہے جس کو غلبہ حاصل ہے کیونکہ شر اور فساد کے غلبے کا نتیجہ عالم ہستی کی نابودی ہے۔ انسانی معاشرے اور دنیا میں جو فراز و نشیب نظر آتے ہیں وہ انسان کے افعال و کردار کا ہی نتیجہ ہیں۔ اسی لئے قرآن کریم نے واضح الفاظ میں سمندر اور خشکی پر انجام پانے والے فساد کو انسانی افعال کی طرف نسبت دی ہے اور اس پر الزام لگایا ہے کہ وہ دنیا کی نابودی کے اسباب فراہم کر رہا ہے۔ خدا فرماتا ہے:
"ظھر الفساد فی البحر و البر بما کسبت ایدی الناس" (روم/41)
[خشکی اور سمندر میں انسانوں کے اعمال کی خاطر فساد ظاہر ہو گیا ہے]۔
انسانی معاشرہ بعض اوقات ایسی حالت اختیار کر لیتا ہے جس میں شر اور فساد خیر اور صلاح پر مکمل طور پر غالب آ جاتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو انسانی تاریخ میں مختلف انسانی معاشروں کی نابودی کا سبب بنی ہے۔ قرآن کریم میں بھی بہت سی قوموں کی تباہی کی وجہ ان میں شر اور فساد کا غلبہ بتائی گئی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں بھی ایسا صفایا نظر آتا ہے۔ یہ صفایا دراصل زمین پر صالح افراد کی حکومت قائم کرنے کا پیش خیمہ تھا۔ چونکہ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اپنا وظیفہ انجام دیں اور نتیجہ حاصل کرنا ہمارے فرائض میں شامل نہیں ہے لہذا ہمیں صالحین کی حکومت کو تحقق بخشنے کیلئے منصوبہ بندی اور کام کرنا چاہیئے۔ اگر ہمیں ظاہری طور پر شکست کا سامنا ہی کیوں نہ پڑے لیکن چونکہ ہم نے اپنے وظیفے پر عمل کیا ہے لہذا یہی ہماری کامیابی ہو گی۔ خدا کا وعدہ یہ ہے کہ صالحین کی عدالت مدار حکومت
ساری زمین پر محقق ہو کر رہے گی۔ "ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون" (انبیاء/105)
[ہم نے ذکر )تورات( کے بعد زبور میں لکھا ہے کہ ہمارے صالح بندے زمین کے وارث ہوں گے]۔
صالح حکمرانوں کی خصوصیات:
وہ حکمران جن کی حکومت کو قرآن کریم نے صالحین کی حکومت کا نام دیا ہے ایسی خصوصیات کے حامل ہوں گے جس کی وجہ سے سب لوگ ان کا احترام کریں گے۔ حتی خدا کے بزرگ انبیاء ان کے سامنے سر تعظیم خم کریں گے اور ان کے سامنے اپنی وفاداری کا اعلان کریں گے۔ جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کی حکومت کے سامنے سر تعظیم خم کیا اور باتوں اور عمل میں انکی اطاعت کو ثابت کیا۔
"و رفع ابویہ علی العرش و خروا لہ سجدا و قال یا ابت ھذا تاویل رویای من قبل قد جعلھا ربی حقا و قد احسن بی اذ اخرجنی من السجن و جاء بکم من البدو من بعد ان نزغ الشیطان بینی و بین اخوتی ان ربی لطیف لما یشاء انہ ھو العلیم الحکیم" (یوسف/100)
[یوسف نے اپنے ماں اور باپ کو تخت پر بٹھایا، سب اس کے آگے سجدہ کرنے لگے، کہا "اے والد، یہ میرے خواب کی تعبیر ہے جو میں نے دیکھی تھی۔ خدا نے اس کو سچ کر دیا۔ خدا نے مجھ پر کرم کیا جب اس نے مجھے زندان سے نکالا اور آپ کو بیابان سے یہاں لایا۔ جب شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان دشمنی ڈال چکا تھا۔ خدا صاحب لطف ہے کیونکہ وہ دانا اور حکیم ہے]۔
قرآن کریم کی رو سے انسان اور انسانی معاشرے کی ہدایت اور اصلاح کا ایک اہم ترین راستہ طاقت کے مرکز اور معاشرے میں موجود حکومت کی اصلاح ہے اور جو انسانی معاشرے چاہتے ہیں کہ وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو اجاگر کریں انہیں چاہیئے کہ وہ سب سے پہلے اپنی طاقت کے سرچشمے یعنی حکومت کی اصلاح کریں۔ (اعراف/103، مومنون/45،46، قصص/32، زخرف/26، اعراف/129)۔
قرآن کریم کے مطابق مفسد طاقت اور ظالم و جابر حکومت کی موجودگی ہر معاشرے اور سرزمین میں تباہی اور فساد کا باعث
بنتی ہے۔ اسی طرح محترم اور باکمال افراد کی تحقیر اور انہیں ایذا رسانی ظالم اور جابر حکومتوں کا وطیرہ رہا ہے۔ ایسی حکومتیں عقل مند اور عالم افراد کے ساتھ برا سلوک کرتی ہیں اور معاشرے کا درد رکھنے والے افراد کیلئے کسی اہمیت کی قائل نہیں ہوتیں۔
"قالت ان الملوک اذا دخلوا قریۃ افسدوھا و جعلوا اعزۃ اھلھا اذلۃ و کذلک یفعلون" (نمل/34)
[ظالم و جابر حکمران جب کسی علاقے میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں تباہی اور فساد مچاتے ہیں اور وہاں کے باعزت افراد کو ذلیل کر دیتے ہیں، ان کے افعال اسی طرح ہیں]۔
قرآن کریم کی روشنی میں صالح حکمرانوں کی خصوصیات میں سے ایک احسان اور نیکوکاری ہے۔ احسان اور نیکوکاری کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف قانون کی رو سے عدالت کی بنیاد پر لوگوں سے برتاو کرتے ہیں بلکہ کوشش کی جائے کہ عوام کے ساتھ محبت اور مہربانی سے پیش آئیں اور انکے دلوں میں اپنی جگہ بنا لیں۔ جہاں تک ہو سکے ان کی غلطیوں کو نظر انداز کر دیں اور انہیں بخش ہیں۔
"قالوا یا ایھا العزیز ان لہ ابا شیخا کبیرا فخذ احدنا مکانہ انا نراک من المحسنین" (یوسف/78)
[بھائیوں نے یوسف سے کہا "اے عزیز مصر، اسکا باپ بوڑھا ہے پس اسکی جگہ ہم میں سے کسی کو اپنے پاس رکھ لو، ہمیں لگتا ہے کہ تو احسان کرنے والا اور نیکوکار ہے]۔
قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کی حکومت صالحین کی حکومت کے ایک نمونے کے طور پر پیش کی گئی ہے۔ اگرچہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے آپ پر ظلم و ستم روا رکھا تھا لیکن آپ نے اقتدار اور طاقت ہونے کے باوجود انہیں معاف کردیا اور انکے ساتھ عدالتی انداز میں برتاو نہیں کیا۔ یہ احسان اور نیکوکاری کی بہترین مثال ہے۔ لہذا صالح حکمرانوں کی خصوصیت ہے کہ وہ جہاں تک ہو سکے عفو و درگذر سے کام لیتے ہیں۔ یہ عفو و درگذر حکومتی معاملات میں بھی ممکن ہے اگر دوسرے افراد کا حق ضائع نہ ہو۔ یہ مطلب امام زمان عج کے ساتھ مخصوص دعا میں بھی مشاہدہ
کیا جا سکتا ہے جہاں فرماتے ہیں: و علی الامراء بالعدل و الشفقۃ "حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی قوموں سے عدالت اور محبت سے پیش آئیں"۔ لہذا ایک صالح حکومت کی بنیاد عدالت کے ساتھ ساتھ احسان اور شفقت پر ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس بات پر بھی توجہ دینا ضروری ہے کہ اگر معاشرے میں فساد حد سے بڑھ جائے اور سارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں پیش آیا تو پھر وہ سارا معاشرہ غضب الہی کا نشانہ بن جاتا ہے۔
صالحین کی حکومت کی خصوصیات:
اب یہ سوال پیش آتا ہے کہ صالح افراد کی حکومت کی کیا خصوصیات ہیں؟۔ اسکے اہداف اور فرائض کیا ہیں؟۔ اس سوال کا جواب لوگوں کے دلوں میں امید زندہ کرنے کے علاوہ صالحین کی حکومت کی پیچان بھی فراہم کرے گا۔ یہ خصوصِات بیان کرنے کا اصلی مقصد یہ ہے کہ ایسی حکومت کا انتظار کرنے والے اس حکومت کو اچھی طرح پہچانیں اور اس کی نسبت اپنے فرائض اور وظائف پر توجہ دیتے ہوئے اس سمت میں عملی قدم اٹھائیں۔ لہذا گلوبلائزیشن حکومت صالحین کا انتظار کرنے والوں کا ایک ضمنی ہدف ہے اور تمام مومنین اور ظہور کے منتظرین کو چاہیئے کہ ایک عالمی عدالت محور حکومت کے تحقق کا زمینہ فراہم کریں۔ دراصل صالحین کی حکومت کی خصوصیات کو جاننے کا مقصد اس حکومت کے منصوبوں اور اہداف سے آگاہی حاصل کرنا ہے جو حقیقی منتظرین کے وظائف اور فرائض کو تعیین کرتے ہیں۔ ہر کوئی اپنی توانائی اور قدرت کے مطابق ایسی حکومت کے تحقق کیلئے کوشش کرے۔ چونکہ صالح حکمران حکومت اور طاقت کی نسبت ایک خاص سوچ اور نظریہ رکھتے ہیں لہذا اس کو اپنی ذاتی ملکیت تصور نہیں کرتے بلکہ خدا کی طرف سے ایک امانت سمجھتے ہیں جو عارضی طور پر انکو سونپی گئی ہے تاکہ اس کے ذریعے اپنے وظائف اور فرائض ادا کر سکیں۔ لہذا حکومت کرتے ہوئے وہ ہمیشہ دل میں خدا کی یاد کو زندہ رکھتے ہیں اور اس بات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ حکومت اور طاقت
صرف خدا کی ملکیت ہے۔ اسی وجہ سے انکے کردار اور افعال میں کسی قسم کا غرور اور تکبر دکھائی نہیں دیتا۔ وہ ہمیشہ خود کو خدا کا چھوٹا سا بندہ سمجھتے ہیں۔
"رب قد اتیتنی من الملک و علمتنی من تاویل الاحادیث فاطر السموات و الارض انت ولیی فی الدنیا و الاخرہ توفنی مسلما والحقنی باالصالحین" (یوسف/101)
[خدایا تو نے مجھے حکومت عطا کی اور تعبیر خواب کا علم سکھایا، اے زمین و آسمان کے خلق کرنے والے، تو دنیا اور آخرت میں میرا ولی اور سرپرست ہے، مجھے اسلام کی حالت میں موت عطا کر اور مجھے صالحین سے ملا دے]۔
وہ ہر کام خدا کے ارادے کے مطابق انجام دیتے ہیں اور انکا بھروسہ صرف خدا پر ہوتا ہے۔ صالحین کی حکومت کی باقی خصوصیات خودمحوری اور زور گوئی سے پرہیز، ظلم و ستم سے اجتناب، مشورے کے بعد انجام پائے فیصلوں کو عملی شکل دینے میں استقامت اور پایداری، فردی اور اجتماعی تقوا، علمی صلاحیت، امانت داری اور لوگوں کے حقوق ادا کرنا ہیں۔ اگر مستصعفین اور حقیقی مومنین چاہتے ہیں کہ خدا کا وعدہ تحقق پذیر ہو اور ایک عالمی عدالت مدار حکومت سے بہرہ ور ہو سکیں تو انہیں ایسا ماحول فراہم کرنا پڑے گا جو تیزی کے ساتھ توحید پرستی کا سبب بنے۔ قرآن کریم کی نظر میں اگرچہ عالمی اسلامی حکومت کا قیام ایک قدرتی عمل ہے لیکن قوموں کا ارادہ بھی اس میں اہم کردار کا حامل ہے۔ اسی بارے میں خدا فرماتا ہے کہ وہ ایسی قوموں کی حالت زار تبدیل نہیں کرتا جو خود اپنی حالت تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتیں۔ صالحین کی حکومت کی ایک اور خصوصیت امن و امان اور حقیقی صلح کا قیام ہے۔ ایسی حکومت کے سایے میں دین تمام دنیا پر حاکم ہو جائے گا۔ شرک کا خاتمہ ہو جائے گا۔
یہ صالحین کی حکومت کی بعض خصوصیات ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہم حقیقی منتظر ہونے کے ناطے ان کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ عدالت محور حکومت کے عالمی ہونے کا زمہنہ فراہم ہو سکے۔
خبر کا کوڈ : 9942
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش