QR CodeQR Code

پاکستانی صحافیوں کا وفد اس وقت ہی اسرائیل کیوں گیا؟

21 May 2022 14:51

اسلام ٹائمز: ہم یہودیوں سمیت ہر مذہب کے ماننے والوں کے احترام کے قائل ہیں اور ہر ایک کو اسکے مقدس مقامات پر رسائی دینے کے حق میں ہیں، مگر جو شخص امریکی شہریت بھی رکھتا ہوں اور پھر بھی پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جانے پر بضد ہو تو اسکا مقصد کچھ اور ہی لگتا ہے؟ کروڑوں پاکستانی ہیں، جو بیت المقدس جانا چاہتے ہیں، جو ظالمانہ اسرائیلی قبضے کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکتے۔ کتنے فلسطینی ہیں؟ جو ستر سال سے اپنے گھروں کو جانا چاہتے ہیں، مگر غاصب فورسز مانع ہیں۔ کتنے فلسطینی ہیں، جنہیں اقصیٰ میں نماز پڑھنے کیلئے جانے پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

چند سال پہلے کی بات ہے کہ  خلیل الرحمن نامی شخص کی فیس بک پر درخوست دوستی آئی، ہم نے اسے قبول کر لیا۔ تھوڑے عرصے بعد پتہ چلا کہ وہ شخص اسرائیل کے حق میں تسلسل سے اردو میں لکھ رہا ہے۔ غور کیا تو پتہ چلا کہ کسی معروف مولوی کا بگڑا صاحبزادہ ہے۔ اس سے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یقیناً راندہ درگاہ ہوگا، جس سے ردعمل کا شکار ہوچکا ہے۔ اس کی کچھ باتیں اس کے نیم پاگل ہونے کی عکاسی کرتی تھیں، خیر میں اسے دلچسپی سے پڑھتا رہا۔ ایک روز اس نے اعلان کیا کہ میں پاکستان کا پہلا غیر یہودی صیہونی ہوں اور میں پاکستان اسرائیل دوستی کا بڑا علمدار بن گیا ہوں۔ لوگوں نے اسے وہ صلواتیں سنائیں کہ رہے رب کا نام، مگر تھوڑے عرصے بعد ہر چیز روٹین پر آگئی۔ کچھ عرصے بعد اس نے اعلان کیا میں اپنے سابق نام کو تبدیل کرکے اب نیا یہودی نام رکھ رہا ہوں، جو ڈیوڈ ایریل ہوگا اور اپنی ساری شناخت اسی کو بنا لیا۔

لوگوں نے کافی مذاق اڑایا، مگر وہ اپنی بات پر بضد رہا۔ جب اس نے دیکھا کہ لوگ میری طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے تو اس نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے دھرنا دینے کا اعلان کر دیا، جس میں اس کا صرف ایک مطالبہ تھا کہ پاکستانی پاسپورٹ سے اسرائیل مخالفت والا جملہ ہٹایا جائے۔ چند دن تو کسی نے توجہ نہیں دی، مگر کچھ عرصے بعد جب سوشل میڈیا پر اسرائیل کے جھنڈے والی اس کے خیمے کی تصاویر وائرل ہوئیں تو یوتھ پارلیمنٹ کے شہیر سیالوی نے دوستوں سمیت آکر یہ خیمہ ہٹا دیا۔ ایک دینی ادارے کا فاضل، ایک مشہور دینی شخصیت کا فرزند اس مقام تک کیسے پہنچ گیا؟ یہ کچھ عرصے کے لیے ملائیشا گیا تھا، جہاں یہ صیہونیوں کے ٹریپ میں آگیا اور اسے خوش کن نعرے سے متاثر کرکے پاکستان میں ایک ڈیبیٹ پیدا کرنے کا مشن دے کر بھیجا گیا اور وہ آج تک مسلسل اسی میں لگا ہوا ہے۔

ایک اور کہانی بھی سن لیں، کچھ عرصہ پہلے ایک فیصل بن خالد میڈیا پر آتا ہے کہ وہ پاکستان کا آخری یہودی ہے، لہذا اس کے پاسپورٹ پر یہودی لکھا جائے۔ یہ شخص سوشل میڈیا پر خوب شور کرتا ہے اور کیونکہ یہ بنیادی حق ہے، جو ہر صورت میں ملنا ہی تھا۔ ریاست پاکستان اس کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر یہودی لکھ دیتی ہے۔اگلی کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے، یہ شخص یہ مہم شروع کر دیتا ہے کہ مجھے پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جانے دیا جائے، کیونکہ میرے مقدس مقامات وہاں پر ہیں۔ یہ مہم چلتی رہتی ہے اور عمران خان صاحب کی حکومت آجاتی ہے، جس میں ان کا ایک نعرہ مذہبی سیاحت کا ہے۔ یہ سٹیزن پورٹل پر شکایت درج کرتا ہے اور اس کی بنیاد پر خبروں کے مطابق اسے اسرائیل جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

ان دو واقعات پر تھوڑا بعد میں تجزیہ کرتے ہیں، اب آجاتے ہیں تازہ واقعہ کی طرف، جس میں امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافیوں کا ایک وفد اسرائیلی دورے پر پہنچتا ہے، جہاں اس کا بڑے پیمانے پر استقبال ہوتا ہے۔ اسے پارلیمنٹ کا دورہ کرایا جاتا ہے، اسرائیلی قانون ساز انہیں بریفنگز دیتے ہیں اور اسرائیلی صدر بھی انہیں خصوصی طور پر شرف ملاقات دیتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف اہل فلسطین یوم نکبہ منا رہے تھے، پاکستانی وفد کا اسرائیل پہنچنا ان کے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کے وہاں اترتے ہی فلسطینی صحافی شیریں ابو عاقلہ کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ اس وفد میں احمد قریشی نام کا صحافی بھی شامل تھا، جو اس سے پہلے پاکستانی اور انڈین صحافیوں کے مشترکہ پروگرام کا میزبان بھی رہا تھا۔ اس وقت بھی اس نے پاکستانی مفادات کا دفاع نہیں کیا تھا، جس کی وجہ سے اس پر بہت تنقید ہوئی تھی۔ جب پاکستانی میڈیا پر یہ خبریں شائع ہوتی ہیں تو شدید ردعمل آتا ہے، جس میں ایسے لوگوں کی گرفتاری کے مطالبات کیے جاتے ہیں۔

روزنامہ جنگ کی آفیشل ویب سائیٹ کے مندرجہ ذیل لنک کے مطابق:
https://jang.com.pk/news/1087340 اس صحافتی دورے کی منطوری عمران خان کی حکومت نے دی تھی۔ اس وفد میں فشل میں بن خلد کا نام اختیار کرنے والے آخری یہودی کے نام سے مشہور شخصیت بھی ہیں، جو ظاہراً امریکہ شہری بھی ہیں۔ معروف صحافی رہنماء موسٰی کلیم نے کہا کہ ایک ایسے وفد میں پاکستانی صحافی کی شمولیت شرمناک بات ہے۔ پاکستانی صحافی اپنے فلسطینی بھائیوں اور وہاں اسرائیلی جارحیت اور ظلم و استبداد کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے جان کی بازی لگانے والے فلسطینی صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ شیریں مزاری نے ٹویٹ کیا کہ امریکہ کے ساتھ مل کر اسرائیل نے پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو ختم کیا۔ انھوں نے اپنے متعدد ٹویٹس میں اس دورے کے مقاصد پر سوالات اٹھائے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک شخص ملائیشیا جاتا ہے اور اسے وہاں دوستی کے نام پر بھٹکا کر ایسا برین واش کیا جاتا ہے کہ وہ آج بھی انہیں کے نعرے لگا رہا ہے۔

ہم یہودیوں سمیت ہر مذہب کے ماننے والوں کے احترام کے قائل ہیں اور ہر ایک کو اس کے مقدس مقامات پر رسائی دینے کے حق میں ہیں، مگر جو شخص امریکی شہریت بھی رکھتا ہوں اور پھر بھی پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل جانے پر بضد ہو تو اس کا مقصد کچھ اور ہی لگتا ہے؟ کروڑوں پاکستانی ہیں، جو بیت المقدس جانا چاہتے ہیں، جو ظالمانہ اسرائیلی قبضے کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکتے۔ کتنے فلسطینی ہیں؟ جو ستر سال سے اپنے گھروں کو جانا چاہتے ہیں، مگر غاصب فورسز مانع ہیں۔ کتنے فلسطینی ہیں، جنہیں اقصیٰ میں نماز پڑھنے کے لیے جانے پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ یقیناً اہل فلسطین کی حمایت قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے، مگر ہم ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار ہیں اور قائداعظم کی بنائی فلسطین پالیسی سے ایک حرف پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ آج بھی اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر سب سے مدلل تقریر جس نے آج کا نقشہ بھی پیش کر دیا تھا، اڑتالیس میں پاکستانی وزیر خارجہ کی تقریر ہے۔


خبر کا کوڈ: 995392

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/995392/پاکستانی-صحافیوں-کا-وفد-اس-وقت-ہی-اسرائیل-کیوں-گیا

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org