1
Saturday 21 May 2022 19:38

علاقائی اور عالمی سطح پر امریکہ کی نئی حکمت عملی

علاقائی اور عالمی سطح پر امریکہ کی نئی حکمت عملی
تحریر: ہادی محمدی
 
امریکہ نے عالمی سطح پر اپنی ڈاکٹرائن میں چند بنیادی تبدیلیاں انجام دی ہیں جو متعلقہ دستاویزات میں بیان کی گئی ہیں۔ عالمی سطح پر ورلڈ آرڈر یونی پولر سے ملٹی پولر کی جانب گامزن ہے لہذا امریکہ نے اس تبدیلی کو روکنے کیلئے نیز چین اور روس کو کنٹرول کرنے کے مقصد سے دنیا کے اہم آبراہوں کو اپنی توجہ کا مرکز قرار دے رکھا ہے۔ اسی طرح امریکہ ایشیا اور یورپ کے حساس علاقوں پر اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ دوسری طرف چونکہ اندرونی اور بیرونی حالات امریکہ کو کھل کر اپنی حریف قوتوں کا مقابلہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے لہذا اس نے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی انجام دی ہے۔ اگرچہ امریکہ نے عالمی ڈاکٹرائن میں چین کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دے رکھا ہے لیکن یوکرین میں بحران ایجاد کر کے وہ ایک تیر سے چند نشانے لگانے کی کوشش میں مصروف ہے۔
 
امریکہ نے یوکرین میں بحران ایجاد کر کے ایک طرف نیٹو کو مصروف کر دیا ہے جبکہ دوسری طرف یورپ کو بحرانی حالات کے تناظر میں اپنے ساتھ کھڑا کر لیا ہے۔ یوں فوجی اخراجات کا بوجھ یورپی ممالک پر پڑ گیا ہے جس کے نتیجے میں یورپ کے آئندہ فوجی بجٹ میں 200 ارب یورو کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس طرح امریکہ نے یورپ پر بھاری اخراجات اور اقتصادی مشکلات مسلط کر دی ہیں۔ امریکہ نے جنوب مشرقی ایشیا میں موجود رہ کر چین کا مقابلہ کرنے کیلئے پہلے مرحلے میں یورپی سرحدوں کا انتخاب کیا ہے۔ یوں امریکہ نے اپنے عالمی طاقت ہونے کے تنازعہ کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات میں پوری دنیا کو شریک کر لیا ہے۔ گذشتہ ایک عرصے سے مختلف سیاسی حلقوں میں یہ بات ہو رہی ہے کہ امریکہ مغربی ایشیا خطے سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔
 
لیکن موجودہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ مغربی ایشیا میں متعدد سکیورٹی اور فوجی بحران ایجاد کر کے یہاں اپنی موجودگی کو زیادہ سے زیادہ طول دینے کے درپے ہے۔ امریکہ افغانستان سے بھاگ نکلا ہے لیکن روس پر سکیورٹی اور فوجی ضرب لگانے کیلئے درپیش اسٹریٹجک ضروریات کے پیش نظر اس نے جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا پر خاص توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ امریکہ اس خطے میں عدم استحکام اور بحرانی صورتحال پیدا کرنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہے۔ اگرچہ امریکہ کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے بورجام میں واپسی کی اشد ضرورت ہے لیکن اس کے باوجود مذاکرات کے آخری مرحلے میں اپنے مطالبات کی سطح بڑھا کر معاہدے میں اپنی واپسی کو خطے کے مسائل سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ مشرق وسطی خطہ عالمی سطح پر امریکی اثرورسوخ میں اہم کردار کا حامل ہے۔
 
عراق میں بغاوت کی امریکی سازش مکمل طور پر ناکامی کا شکار ہو چکی ہے۔ لیکن وہ اپنے سیاسی کٹھ پتلی عناصر کے ذریعے عراق میں شدت پسندی کو بڑھاوا دینے اور سیاسی عمل میں رکاوٹ ایجاد کرنے کی بھرپور تگ و دو میں مصروف ہے۔ اگرچہ گذشتہ چند سالوں سے امریکی حکام شام اور عراق میں اپنی فوجی موجودگی کم کرنے کی باتیں کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف اس خطے میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو مضبوط بنانے میں مصروف ہیں۔ لبنان میں امریکہ نے بھرپور منصوبہ بندی سے مختلف قسم کے سیاسی، اقتصادی اور معیشتی بحران ایجاد کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ پارلیمانی الیکشن کے ذریعے بغاوت کی سازش بھی کی لیکن اب وہ خود اپنی ناکامی کا اعتراف کر چکا ہے۔ اب امریکہ نے لبنان پر اقتصادی، سیاسی اور حتی سکیورٹی دباو میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
 
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اندرونی اور علاقائی سطح پر شدید مشکلات سے دوچار ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ اسے رکھوالے کتے کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور یہ رژیم گاہے بگاہے ایران پر حملے کی دھمکیاں دیتی رہتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غاصب صہیونی رژیم حتی فلسطین کے اسلامی مزاحمتی گروہوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتی۔ مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں کے قریب رضوان یونٹس کی موجودگی غاصب صہیونی رژیم کیلئے ایک انتہائی ڈراونا خواب بن چکا ہے۔ یمن میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے دو مہینے کی جنگ بندی کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کا مقصد آل سعود رژیم کو اس دلدل سے باعزت باہر نکالنا ہے۔ یمن کے دو اہم صوبوں یعنی حضر موت اور المہرہ میں امریکہ اور برطانیہ نے اپنے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں جہاں سے وہ قدرتی تیل کی لوٹ مار کرنے میں مصروف ہیں۔
 
امریکہ نے عالمی سطح پر اپنی حکمت عملی کی بنیاد حریف قوتوں کیلئے مسلسل بحران پیدا کرنے پر استوار کر رکھی ہے۔ اس مقصد کیلئے اس نے منظم بدامنی کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ اب امریکہ اپنا اصلی چہرہ کھول رہا ہے اور ماضی میں لگائے گئے خوبصورت نعروں جیسے جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور امریکی تہذیب و تمدن سے عبور کرتا نظر آتا ہے۔ امریکی حکمران عالمی سطح پر کھوئی ہوئی طاقت اور اثرورسوخ دوبارہ واپس لوٹانے کیلئے تمام بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدار کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یوں امریکہ پوری بے حیائی سے جنگل کے قانون پر عمل پیرا ہو چکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی اس وحشی گری کا مقابلہ کرنے کیلئے حریف ممالک کو بھی مناسب حکمت عملی اپنانی ہو گی جس کا ایک حصہ علاقائی سطح پر نئے اتحاد قائم کرنے پر مشتمل ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 995403
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش