QR CodeQR Code

سیاہ ہوتی سیاست اور اشرافیہ کے درمیان مکالمہ

24 May 2022 20:59

اسلام ٹائمز: پورے ملک میں ایک غیر یقینی کی صورتحال ہے پیدا ہوچکی ہے، کسی قسم کا تصادم ملک کیلئے ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ اس میں بچے تو غریب کے مرتے ہیں، عمران خان اور نواز شریف کے بیٹے تو لندن میں بیٹھے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ، مذہبی اشرافیہ، عدلیہ اور فوج کے درمیان ڈائیلاگ کا ہونا اب ضروری ہوچکا ہے۔ آج یا کل ہمیں کچھ ضابطے طے کرنا پڑینگے۔ اگر آج کر لیں گے تو بہت اچھا ہوگا، ورنہ یونہی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں ریاست کو نقصان پہنچاتے رہیں گے اور ایک وقت آئے گا، ایک سو ہندوستانی روپے کے پانچ سو پاکسانی روپے آئیں گے اور خدا نہ کرے، ایسا وقت کبھی آئے۔


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ایک دو بار کی بات نہیں، بار بار سیاستدانوں کو ذلیل ہو کر اقتدار کے ایوانوں سے نکلنا پڑتا ہے اور وہ اپنے نکلنے کی اصل وجوہات تک کو بیان نہیں کر سکتے۔ بھٹو ایک بڑا سیاستدان تھا، اس کی عظمت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی کہ اس وقت پی پی کو تو چھوڑیں پہلے نواز شریف اب عمران خان صاحب بھی بھٹو کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ اتنے بڑے آدمی کو تقریباً اس وقت کی بھٹو مخالف ساری سیاسی قیادت اور اسٹبلشمنٹ نے مل کر پھانسی پر چڑھایا، مگر وہ امر ہوگیا۔ لوگ تنقید کے نشتر چلاتے ہیں کہ بھٹو کہاں زندہ ہے؟ اور ساتھ سندھ کی غربت کی تصاویر لگاتے ہیں۔ کاش یہ دانشور انہی کسانوں اور ہاریوں کے سامنے بھٹو کا نام لیتے اور وہ جس پرجوش انداز میں بھٹو سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے، انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ بھٹو ان کے دلوں میں زندہ ہے۔ بھٹو نے بین الاقوامی اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں اپنے قتل کا بہت پہلے بتا دیا تھا اور ویسے بھی بھٹو نے امریکی استعمار اور یورپی اجارہ داری کی سرخ لکیروں کو عبور کیا تھا، جس کے بعد اس کو سزا ضرور ملنی تھی۔ ایک تو اس نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تھی، دوسرا اس نے اسلامی بنک کا نعرہ لگا کر بھی کافی کچھ بدلنے کا پروگرام شروع کر دیا تھا اور دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد تو واقعاً وہ بہت آگے بڑھ گیا تھا۔

خیر سیاست کی موجودہ افراتفری ضیاء الحق کے مسلسل اقتدار کا نتیجہ ہے، جو آج بھی ہمارے گلے پڑی ہوئی ہے۔ ایک طویل مدت تک پورے اقتدار پر قابض رہنے سے ادارے اپنی حدود میں نہیں رہے اور اختیارات کی تقسیم کا مسئلہ بہت گہرا ہوگیا ہے۔ مارشل لاء میں جن کا فرمایا حرف آخر تھا اور مسلسل ایک دہائی تک ایسا ہوتا رہا۔  جمہوریت میں مرکز اقتدار بدلنے سے مرکز اختیار بھی تبدیل ہوتا ہے، مگر یہ قبول نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق بے شک جمہوریت میں مرکز اقتدار تبدیل ہو جائے، مگر مرکز اختیار کو تبدیل نہیں ہونا چاہیئے۔ انصاف کا تقاضا اور حب الوطنی کی آواز یہ ہے کہ تمام جمہوری قوتیں، فوج اور عدلیہ باہمی مکالمہ کریں اور اختیارات کا فارمولا طے کر لیں۔ عوام دن رات کی اذیت ناک کشمکش سے تنگ آچکی ہے، مزدور کو سولہ گھنٹے کام کرنے بعد بھی پورا کھانا میسر نہیں ہے۔ اس کی بلا کو لگے حکمراں کون ہے اور اپوزیشن میں کون ہے۔؟

یہ اقتدار کی کشمکش سیاسی اشرافیہ اور دیگر اشرافیہ کی کھینچا تانی سے عبارت ہے، مگر ہر طرف سے مار غریب کو پڑتی ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے لیے رات کے بارہ بجے بھی انصاف کی فراہمی کی سہولت موجود ہے، مگر غریب سیاسی کارکن جس مرضی جماعت کا ہو، اسے ذلالت ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رہی انتظامیہ تو کل پولیس کو نون لیگ اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے دباو کا سامنا تھا اور آج پی ٹی آئی کے ردعمل کا شکار ہے، جس میں لاہور کا ایک پولیس اہلکار اپنی جان سے گیا ہے۔ مجھے حیرت سیاستدانوں کے سیاسی شعور پر ہوتی ہے، جب پرویز الہیٰ سے اس پولیس اہکار کو شہید کہہ کر سوال کیا گیا تو اس نے جو اہانت ریاست پاکستان کے حلف پر کارروائی کرنے والے اس سپاہی کی کی، وہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔

یہ سیاستدان بڑی عجیب مخلوق واقع ہوئے ہیں، جانے یہ سیکھنا نہیں چاہتے یا اتنے چالاک ہیں کہ ہمیں بے وقوف بنا رہے ہیں۔ پہلے نواز شریف "مجھے کیوں نکالا" کا نعرہ لگاتا ہوا جی ٹی روڈ سے لاہور جا رہا تھا۔ آج عمران خان صاحب پشاور سے یہی نعرہ لگاتے ہوئے اسلام آباد آرہے ہیں۔ ویسے کل خان صاحب کو پشاور کی گلیوں میں دیکھا، مجھے خیال آیا شائد یہیں کوچہ رسالداران میں کچھ عرصہ پہلے ان کی دس سال سے قائم حکومت کی ناک کے نیچے کچھ لوگ بے گناہ شہید کیے گئے ہیں، یہ اس وقت تشریف نہیں لائے تھے تو اب تشریف لے آئیں گے، مگر نہ آنا تھا نہ آئے۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، کل کی بات لگتی ہے کہ کوئٹہ کے مظلوم لوگوں کو بلیک میلر کہہ رہے تھے اور آج اقتدار سے دور پہنچ چکے ہیں۔

نوے کی دہائی کی پاکستانی سیاست بھی آج کل کی طرح کی کشمکش پر مبنی تھی۔ بڑے طریقے سے بے نظیر کے خلاف نواز شریف کی تحریک کو کامیاب کرایا گیا۔ پھر نواز شریف کی خود سری کے خلاف بے نظیر کو لایا گیا، یہ سلسلہ مشرف کے مقدس مارشل لاء تک چلتا رہا۔ اس دس بارہ سالہ ذلالت کے بعد دونوں جماعتوں کی قیادت ملی اور ایک دوسروں کو سارے راز بتائے کہ کب کیا ہوا؟ اس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ کچھ بنیادی چیزیں طے کر لی جائیں، تاکہ مستقبل میں ایک دوسرے کو نیچے گراتے سب نہ گر جایا کریں، یوں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے گئے۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم ڈاکومنٹ ہے، اسی کی بنیاد پر پہلے پی پی اور پھر پی ایم ایل این نے حکومت کی مدت پوری کی۔ مگر اس میثاق کی بڑی خامی یہ ہے کہ یہ صرف سیاسی جماعتوں کے درمیان ہے، اسی لیے عدلیہ نے دونوں حکومتوں کی ناک میں دم کیے رکھا اور فوج کو حکومت سے اور حکومت کو فوج سے شکایتیں رہیں۔

اس کے بعد جو ادارے میثاق جمہوریت میں شریک نہیں تھے، ان کی آشیرباد سے تیسری قوت کے نام سے تبدیلی کا طوفان لایا گیا۔ عمران خان صاحب کو مکمل فری ہینڈ دیا گیا، وہ کتنا ڈلیور کرسکے، یہ تو قابل بحث ہی نہیں ہے، مگر انہیں یہ غلط فہمی تھی کہ شائد میں دس سال کے لیے آگیا، مگر ان کی غلط فہمی دور ہوگئی اور آج وہ اسی جگہ کھڑے ہیں، جس جگہ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کھڑے تھے۔ پورے ملک میں ایک غیر یقینی کی صورتحال ہے پیدا ہوچکی ہے، کسی قسم کا تصادم ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ اس میں بچے تو غریب کے مرتے ہیں، عمران خان اور نواز شریف کے بیٹے تو لندن میں بیٹھے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ، مذہبی اشرافیہ، عدلیہ اور فوج کے درمیان ڈائیلاگ کا ہونا اب ضروری ہوچکا ہے۔ آج یا کل ہمیں کچھ ضابطے طے کرنا پڑیں گے۔ اگر آج کر لیں گے تو بہت اچھا ہوگا، ورنہ یونہی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں ریاست کو نقصان پہنچاتے رہیں گے اور ایک وقت آئے گا، ایک سو ہندوستانی روپے کے پانچ سو پاکسانی روپے آئیں گے اور خدا نہ کرے، ایسا وقت کبھی آئے۔


خبر کا کوڈ: 995893

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/995893/سیاہ-ہوتی-سیاست-اور-اشرافیہ-کے-درمیان-مکالمہ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org