0
Friday 27 May 2022 01:11

امام خمینی اور تحمل و بردباری

امام خمینی اور تحمل و بردباری
اداریہ

امام خمینی (رہ) کو خاص طور پر اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے کے دور میں بعض علماء کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا، حتی ان میں سے بعض افراد آپ کے بارے میں بدزبانی بھی کرتے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ امام خمینی (رہ) روایتی علماء اور حوزہ علمیہ کی روایات کے برخلاف ملکی اور بین الاقوامی مسائل سے مکمل طور پر آشنا تھے۔ آپ اخبار پڑھتے اور ریڈیو سنتے تھے، جس کی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی حالات سے پوری طرح آگاہ رہتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ کے ہم عصر بہت سے علماء فلسفہ اور عرفان کے سخت مخالف تھے، لیکن آپ ان کے برخلاف فلسفہ اور عرفان کا مطالعہ اور اس کی تدریس کرتے تھے۔ امام خمینی (رہ) کی یہ صفت اور رویہ بہت سے علماء کو پسند نہیں تھا اور وہ آپ کی غیبت اور آپ کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کرتے تھے۔ لیکن آپ اپنے بڑے پن کے باعث انہیں معاف کر دیتے۔ آیت اللہ سید حسین بدلا اس سلسلے میں کہتے ہیں: "جب میں مدرسۂ دارالشفاء میں رہائش پذیر تھا تو میرا کمرہ امام خمینی (رہ) کے کمرے کے پاس تھا۔ ایک عالم مدرسہ فیضیہ سے مدرسۂ دارالشفاء آیا کرتا تھا۔ وہ میرے کمرے تک آتا اور اس سے آگے نہیں بڑھتا تھا۔ وہ امام خمینی (رہ) اور ان کے کمرے کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا، کیونکہ وہ فلسفہ اور عرفان کا سخت مخالف تھا اور امام خمینی (رہ) کے نظریات کو مسترد کرتا تھا۔

ایک دن درس کے دوران امام خمینی (رہ) کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ ایک شخص آپ کے بارے میں ایسی رائے رکھتا ہے اور کبھی کبھی آپ کے خلاف توہین آمیز باتیں کرتا ہے تو آپ نے فرمایا: اس نے میرے بارے میں جو کچھ کہا ہے، میں اسے معاف کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اس نے میری جو غیبت کی ہے اور مجھ پر جو الزامات لگائے ہیں، ان کے باعث ا۔۔۔ تعالیٰ میری خطائيں بخش دے گا اور اسے بھی ہدایت دے گا۔ قرآن کریم کی آیات کے مطابق عفو و درگزر کا ایک مثبت اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا دشمن اس کے دوست میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ا۔۔۔ تعالیٰ نے سورۂ فصلت کی آیت نمبر 34 میں ارشاد فرمایا ہے: "نیکی اور برائی برابر نہیں پوسکتی، لہٰذا تم برائی کا جواب بہترین طریقہ سے دو کہ اس طرح جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے، وہ بھی ایسا ہو جائے گا جیسے گہرا دوست ہوتا ہے۔" امام خمینی (رہ) کے قریبی افراد کے بیان کردہ واقعات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے امور میں عفو و درگزر کام لینے کی بنا پر امام خمینی (رہ) کے دشمنوں میں روحانی اور فکری تبدیلی آئی اور وہ آپ کے عقیدت مند بن گئے۔

مثلاً حجت الاسلام فرقانی نجف اشرف کے ایک عالم کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نجف اشرف کا ایک عالم، امام خمینی (رہ) کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا تھا اور دوسروں کو آپ کے درس میں شرکت کرنے سے روکتا تھا۔ پھر اس نے رویائے صادقہ میں دیکھا کہ امام خمینی (رہ) ائمہ طاہرین (ع) کے پاس ہیں اور ان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ خواب دیکھنے کے بعد اس میں تبدیلی آئي اور اس نے امام خمینی (رہ) سے معافی مانگنے کی کوشش کی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میرا ایک کام کر دو۔ اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو امام خمینی سے کہو کہ مجھے معاف کر دیں۔ میں نے کہا کہ یہ کام تو میں ابھی کئے دیتا ہوں۔ ہم مسجد سے باہر نکلے تو راستے میں، میں نے  امام خمینی (رہ) کو سارا ماجرا سنایا  اور کہا کہ فلاں شخص آپ سے معافی کا طلبگار ہے۔ آپ نے فرمایا میں نے اسے  معاف کر دیا ہے۔ جب امام خمینی (رہ) اپنے گھر میں داخل ہوگئے تو وہ عالم دوڑتا ہوا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کیا ہوا؟ میں نے اسے بتایا کہ امام خمینی نے کہا ہے کہ میں نے اسے معاف کر دیا ہے۔ یہ سن کر وہ سجدے میں گر گيا۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ امام خمینی کی خدمت میں حاضر ہوتا اور آپ بھی اس پر خاص توجہ دیتے تھے۔ اس طرح اس کی دنیا اور آخرت سنور گئی"

امام خمینی (رہ) کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ نہ صرف دوسروں کے طعنوں، الزامات اور بدزبانی سے چشم پوشی اور انہیں معاف کر دیتے تھے بلکہ ان افراد کی بھلائی اور ہدایت کی دعا بھی کرتے تھے۔ شیخ علی تہرانی کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے، جنہوں نے امام خمینی (رہ) پر بہت زیادہ بےبنیاد الزامات لگائے۔ شیخ علی تہرانی عراق کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کے دوران اپنے اہل خانہ کو ساتھ لے کر عراق چلے گئے تھے اور وہاں انہوں نے ریڈیو سے امام خمینی (رہ) کے خلاف بہت زیادہ بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا اور آپ پر طرح طرح کے الزامات لگائے، لیکن امام خمینی (رہ) ہمیشہ ان کی رہنمائی کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ آیت اللہ توسلی اس سلسلے میں بیان کرتے ہیں: امام خمینی (رہ) غیر ملکی ریڈیو کی نشریات سنتے تھے۔ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے ریڈیوز کی نشریات بھی سنتے تھے۔ حتی آپ بغداد ریڈیو سے نشر ہونے والے شیخ علی تہرانی کے بیانات بھی سنتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں راتوں کو شیخ علی کے لئے دعا کرتا ہوں کہ ا۔۔۔ تعالیٰ انہیں صدام اور منافقین کے چنگل سے نجات دے۔

ا۔۔۔ تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیات نمبر133 اور 134 میں متقین کے بارے میں فرمایا ہے: "اور اپنے پروردگار کی مغفرت اور اس جنّت کی طرف سبقت کرو، جس کی وسعت زمین و آسمان کے برابر ہے اور اسے ان صاحبانِ تقویٰ کے لئے مہیاّ کیا گیا ہے۔ جو راحت اور سختی ہر حال میں انفاق کرتے ہیں اور غصّہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔" اس آیت میں تنگدستی اور خوشحالی میں انفاق کرنے اور عفو و درگزر سے کام لینے جیسی دونوں صفات کو ایک ساتھ بیان کیا گيا ہے اور یہ دونوں متقین کی صفات قرار دی گئی ہیں۔ امام خمینی (رہ) کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ بہت سے ایسے افراد کو معاف کر دیتے تھے، جنہوں نے آپ کے حق میں ظلم کیا، غیبت کی یا آپ پر بے بنیاد الزامات لگائے بلکہ اس سے بڑھ کر آپ ان کے ساتھ اچھا سلوک اور احسان کیا کرتے تھے۔

حجت الاسلام فرقانی نے اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں: "امام خمینی (رہ) جب نجف اشرف میں تھے تو آپ کے خلاف بہت زیادہ پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا، بعض افراد یہ اعتراض کرتے تھے کہ آپ صاف ستھرا لباس کیوں پہنتے ہیں یا آپ عام لوگوں سے گھل مل کیوں جاتے ہیں۔ بعض اوقات وہ آپ کو یہ پیغام بھیجتے تھے کہ آپ مرجع تقلید ہیں، اس لئے آپ کے لئے اس طرح کا اچھا لباس پہن کر لوگوں کے سامنے آنا مناسب نہیں ہے۔ امام خمینی (رہ) نے خود ایک بار کسی کا نام لئے بغیر مجھے بتایا کہ ایک شخص نے میرے پاس آکر جو اس کے منہ میں آیا مجھ سے کہہ دیا۔ لیکن وہ جب تک یہاں رہا اور ایران نہیں گيا، تب تک میں اسے پیسے بھیجتا رہا۔ امام خمینی (رہ) اسلامی تعلیمات کی بنا پر اپنے مخالفین کے غلط رویئے سے چشم پوشی کرتے تھے اور کبھی بھی اپنے دل میں ان سے دشمنی اور کینہ نہیں رکھتے تھے۔ آپ نہ صرف انہیں معاف کر دیتے تھے بلکہ ان کی مشکلات کو حل کرنے کی بھی کوشش کرتے تھے۔

حتی اگر ایسے افراد قانون کی نظر میں مجرم ہوتے تھے، تب بھی متعلقہ اداروں سے کہتے تھے کہ انہیں معاف کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں حجۃ الاسلام و المسلمین فرقانی کہتے ہیں کہ ایک بار نجف اشرف میں ایک شخص شراب کے نشے میں دھت گاڑی چلا رہا تھا۔ امام خمینی (رہ) حضرت علی (ع) کے روضے کی جانب جا رہے تھے۔ آپ اس کی ٹکر سے بال بال بچے۔ آپ کے ساتھ موجود افراد نے اس ڈرائیور پر اعتراض کیا تو اس نے غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ امام خمینی (رہ) اپنے گھر تشریف لے گئے۔ لیکن پولیس نے اس ڈرائیور کو گرفتار کر لیا اور اصرار کیا کہ امام خمینی اپنے گھر سے باہر تشریف لائيں، تاکہ وہ ڈرائیور آپ سے معافی مانگے۔ امام خمینی (رہ) نے شور کی آواز سنی تو مجھ سے اس کی وجہ پوچھی۔ میں نے بتایا تو آپ نے فرمایا کہ دوسرے لوگوں کو تکلیف کیوں پہنچائی جا رہی ہے، فوراً جا کر اسے پولیس سے چھڑاؤ، تاکہ وہ اپنے گھر جاسکے۔
خبر کا کوڈ : 996096
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش