0
Tuesday 31 May 2022 08:59

امام خمینی کا وصیت نامہ

امام خمینی کا وصیت نامہ
اداریہ

امام خمینی (رہ) نے رسول اکرم (ص) کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے وصیت نامہ تحریر کیا، جس میں آپ نے ایرانی قوم کو اخلاقی، دینی اور سیاسی امور کی وصیت کی، تاکہ آپ کے ارتحال کے بعد ان کے لئے مشعل راہ ہو۔ امام خمینی (رہ) نے اپنے وصیت نامے کے مقدمے میں اسلام میں قرآن و سنت کے مقام و منزلت کی جانب اشارہ کیا اور ان کے ساتھ جو پیش آیا، اسے بیان کیا۔ امام خمینی (رہ) نے بیان فرمایا کہ "پیغمبر اکرم (ص) کے وصال کے بعد قرآن کریم کو ظالم و جابر حکومتوں کو جائز ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا گيا اور اس کی تلاوت قبرستانوں میں اور مردوں کی مغفرت تک محدود ہوگئی۔" آپ نے اپنے اس سیاسی الہیٰ وصیت نامے میں قرآن و سنت کی جانب ایرانی قوم کی بازگشت کو باعث فخر قرار دیا۔ امام خمینی (رہ) کے نزدیک اسلامی انقلاب سے پہلے قرآن کریم کا مقام بہت گھٹا دیا گيا تھا اور اس کی تلاوت قبرستانوں اور مردوں کی مغفرت کے لئے محدود کر دی گئی تھی، لیکن اسلامی انقلاب کی بدولت قرآن کریم کو اس کا اصل مقام ملا۔ یعنی انسانیت کی ہدایت کا مقام۔ امام خمینی (رہ) اپنے وصیت نامے میں لکھتے ہیں کہ "ہمیں اس بات پر فخر ہے اور اسلام و قرآن کی پابندی کرنے والی قوم کو فخر ہے کہ وہ ایک ایسے مذہب کی پیرو ہے کہ جو اتحاد بین المسلمین کی جانب دعوت دینے والے قرآنی حقائق کو قبرستانوں سے نجات دلانا چاہتا ہے اور انسان کے ہاتھ، پاؤں اور دل پر پڑی ہوئی زنجیروں سے نیز تباہی و بربادی اور طاغوتوں کی غلامی سے نجات دلانے والے عظیم ترین نجات دہندہ یعنی قرآن کریم کو نجات دینا چاہتا ہے۔"

آپ کے نزدیک ملت ایران کو پیغمبر اکرم (ص)، امام علی (ع) اور نہج البلاغہ کی پیروی کا فخر حاصل ہے کہ جو قرآن کریم کے بعد مادی اور معنوی زندگی کا سب سے بڑا ضابطہ اور انسانیت کی نجات کی عظیم ترین کتاب ہے۔ امام خمینی (رہ) تحریر فرماتے ہیں کہ ہمیں فخر ہے کہ ہم ایسے مذہب کے پیرو ہیں، ا۔۔۔ تعالیٰ کے حکم سے جس کے بانی پیغمبر اکرم (ص) تھے۔ ہر طرح کی قید سے آزاد امیر المومنین علی بن ابی طالب انسانوں کو ہر طرح کی زنجیروں اور غلامی سے نجات دلانے پر مامور تھے۔ ہمیں فخر ہے کہ نہج البلاغہ ہمارے معصوم امام کی کتاب ہے، جو کہ قرآن کریم کے بعد مادی اور معنوی زندگی کا سب سے بڑا ضابطہ، انسانیت کی آزادی کی سب سے نمایاں کتاب ہے، جس کے معنوی اور حکومتی احکامات عظیم ترین راہ نجات ہیں۔ امام خمینی (رہ) نے صحیفہ سجادیہ، مناجات شعبانیہ اور دعائے عرفہ جیسی دعائيں انسانیت کو پیش کرنے والے پیشواؤں اور ائمہ طاہرین (ع) کی پیروی کو ملت ایران کے لئے فخر کا باعث قرار دیا ہے۔ آپ علوم کو شگافتہ کرنے والے حضرت امام محمد باقر (ع) اور فقہ اسلامی کے بانی حضرت امام جعفر صادق (ع) جیسی علمی ہستیوں کو ایرانی قوم کے لئے افتخار کا باعث قرار دیتے ہیں۔

آپ نے اپنے وصیت نامے میں لکھا ہے کہ ہمیں فخر ہے کہ ائمہ معصومین (ع) حضرت علی بن ابی طالب (ع) سے لے کر حضرت مہدی (عج) تک کہ جو ا۔۔۔ تعالیٰ کی قدرت سے زندہ اور ہمارے اعمال کے ناظر ہیں، ہمارے امام ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ زندگی عطا کرنے والی دعائيں کہ جنہیں قرآن صاعد کہا جاتا ہے، ہمارے ائمہ طاہرین سے تعلق رکھتی ہیں۔ مناجات شعبانیہ، حسین بن علی کی دعائے عرفہ، صحیفہ سجادیہ اور ا۔۔۔ تعالیٰ کی جانب سے زہرائے مرضیہ پر الہام ہونے والی کتاب صحیفہ فاطمیہ کا تعلق بھی ہم سے ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ باقر العلوم کہ جو تاریخ کی عظیم ترین شخصیت ہیں اور ا۔۔۔ تعالیٰ، رسول اکرم (ص) اور ائمہ معصومین (ع) کے سوا کسی کو بھی ان کے مقام کا ادراک نہیں ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے، ہم میں سے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارا مذہب جعفری ہے اور ہماری فقہ جو کہ ایک بحر بے کراں ہے، آپ کے آثار میں سے ہے۔ ہمیں اپنے تمام ائمہ معصومین (ع) پر فخر ہے اور ہم ان کے پیروی کے پابند ہیں۔ ائمہ طاہرین (ع) نے قرآن کریم کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں بہت زیادہ کوشش کی اور اسی راستے میں شہید ہوئے۔

امام خمینی (رہ) ائمہ طاہرین (ع) کی پیروی کو ایرانی قوم کے لئے باعث فخر جانتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہمارے ائمہ معصومین (ع) نے دین اسلام کی سربلندی اور قرآن کریم کے احکامات کے نفاذ کے لئے کہ جن میں سے ایک عادل حکومت کی برقراری ہے، قید اور جلاوطنی کی مشکلات برداشت کیں اور آخرکار اپنے زمانے کی ظالم اور جابر حکومت کی سرنگونی کے راستے میں شہید ہوئے۔ امام خمینی (رہ) قرآن کریم کے احکام کے نفاذ کے لئے کوشش اور فداکاری کو ایرانی قوم کے لئے باعث فخر قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: "آج ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم قرآن کریم اور سنت کو نافذ کرنا چاہتے ہیں اور قوم کے مختلف طبقات اس تقدیر ساز اور عظیم کام کے لئے کوشش کر رہے ہیں اور وہ راہ خدا میں اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔" امام خمینی (رہ) ملک کے دفاع اور دشمن کی جانب سے مسلط کردہ محرومیوں سے نجات کے لئے ایرانی قوم کے مختلف طبقات کی کوششوں کو راہ خدا میں فداکاری اور ایثار کا مصداق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہمیں فخر ہے کہ خواتین، بوڑھی عورتیں، چھوٹی بڑی سبھی لڑکیاں ثقافتی، اقتصادی اور فوجی میدانوں میں حاضر ہیں اور وہ مردوں کے شانہ بشانہ یا ان سے بھی بہتر طور پر اسلام اور قرآن کریم کی سربلندی کے لئے سرگرم عمل ہیں اور انہوں نے بڑی شجاعت اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان محرومیتوں سے نجات حاصل کر لی ہے، جو دشمنوں کی سازشوں یا اپنوں کی اسلامی احکام اور قرآن سے عدم واقفیت کی وجہ سے ان پر مسلط کی گئیں تھیں۔"

امام خمینی (رہ) نے میدان جنگ میں خواتین کی موجودگی کو حضرت زینب (ع) کی پیروی کرنے والی ایرانی خواتین کی بے مثال فداکاری کا ایک مظہر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ عظیم خواتین نے حضرت زینب (ع) کی طرح اپنی اولاد، خدا اور اسلام کی راہ میں قربان کر دی، انہیں اس کام پر فخر ہے اور وہ جانتی ہیں کہ جو انہیں حاصل ہوا ہے، وہ دنیا کی حقیر متاع تو درکنار، جنت نعیم سے بھی بڑھ کر ہے۔" امام خمینی (رہ) نے ایرانی قوم کا ایک قابل فخر کارنامہ ان دشمنوں کے مقابلے کو قرار دیا ہے، جو خداوند اور قرآن کے ساتھ دشمنی میں مشہور ہیں اور اپنی اس دشمنی کے سلسلے میں کسی بھی ظلم و ستم سے دریغ نہیں کرتے۔ امام خمینی (رہ) نے امریکہ، اسرائيل اور صدام حسین کو جرم اور ظلم و ستم نیز انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اہم مصادیق قرار دیا۔ آپ ایرانی قوم کے ساتھ ان کی دشمنی کو ایران کے مظلوم عوام کے لئے باعث فخر جانتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ہماری قوم بلکہ مسلمان اقوام اور دنیا کے تمام مستضعفین کے لئے یہ بات باعث فخر ہے کہ ان کے دشمن، کہ جو خدائے تعالیٰ، قرآن کریم اور اسلام عزیز کے دشمن ہیں، ایسے درندے ہیں، جو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے کسی بھی ظلم سے دریغ نہیں کرتے ہیں اور جاہ و منصب نیز پست مقاصد کے حصول کے لئے دوست اور دشمن میں بھی کوئی فرق روا نہیں رکھتے ہیں۔

ان میں امریکہ سرفہرست ہے کہ جو ایک ریاستی دہشت گرد ہے، جس نے ساری دنیا میں آگ لگا رکھی ہے اور اس کے اتحادی صیہونی ہیں، جو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ایسے مظالم کا ارتکاب کرتے ہیں، جن کو بیان یا تحریر کرتے ہوئے انسان کو شرم محسوس ہوتی ہے، عظیم تر اسرائيل کا خیال انہیں ہر ظلم پر اکساتا ہے اور ہمیں فخر ہے کہ ہمارا دشمن صدام عفلقی ہے، جسے دوست اور دشمن سبھی ایک مجرم، بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا جانتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) نے اپنے وصیت نامے کے مقدمے کے آخری حصے میں دنیا بھر کی مظلوم اقوام خصوصاً ملت ایران کو صراط مستقیم پر چلنے کی وصیت کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ "وہ خدا اور ملت کے دشمنوں کی مخاصمت کی بنا پر اپنے صحیح راستے سے الگ نہ ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں مظلوم اور شریف اقوام اور عزیز ایرانی قوم کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ اس سیدھے راستے سے کہ جو نہ تو مشرقی ملحد سے وابستہ ہے اور نہ ہی مغربی ظالم سے، بلکہ جو راستہ خدا نے ان کے نصیب میں کیا ہے، اسی پر ثابت قدمی اور فرض شناسی کے ساتھ چلتے رہیں اور ایک لمحے کے لئے بھی اس نعمت کے شکر سے غافل نہ ہوں۔"
خبر کا کوڈ : 996099
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش