QR CodeQR Code

اسرائیل سے تعلقات جرم ہیں

27 May 2022 11:56

اسلام ٹائمز: عراق کی صورتحال سامنے ہیں کہ کرد پہلے سے ہی اسرائیل سے روابط رکھتے ہیں۔ سعودی عرب نے بھی پس پردہ روابط رکھے ہوئے ہیں، ایسے میں کہیں عراق کی اس سیاسی تقسیم کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم نہ چلائیں۔ عراقی پارلیمنٹ نے اسی کا راستہ بند کیا ہے، یہ بہت اہم اقدام ہے، جسکی تحسین کی جانی چاہیئے۔ یہ ہمارا ملک پاکستان ہے، جسکے پاسپورٹ پر لکھا ہوا ہے کہ اس پر اسرائیل نہیں جایا جا سکتا۔ ان گئے گزرے حالات میں جب ہر گزرتے دن کیساتھ جب عرب فلسطینیوں پر ظلم کرنیوالوں کیساتھ شریک ظلم ہوتے جا رہے ہیں، عراقی پارلیمنٹ سے اسرائیل کے تسلیم کرنے کی کوشش کرنے کو بھی جرم قرار دینا بہت احسن اقدام ہے۔ اس سے جہاں اہل فلسطین کے حوصلے بلند ہونگے، وہیں دشمن کو بھی اتحاد کا پیغام جائیگا۔


تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ہمارے ہاں کچھ حلقے یہ آواز اٹھاتے رہتے ہیں کہ اسرائیل سے تعلقات ہونے چاہیئں یا اس پر کم از کم بحث ہونی چاہیئے۔ ہر کچھ عرصے بعد یہ سوال اٹھا کر قومی رائے عامہ کو بدلنے کی کوشش ہوتی ہے۔ عراقی پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ سیٹیں رکھنے والی مقتدی الصدر کی جماعت نے "اسرائیل سے تعلقات جرم ہیں" قانون سازی کرائی ہے۔ عراق مشکلات کا شکار عرب ملک ہے، جو زبان، مذہب اور نسلی طور پر کافی منقسم ہے۔ اس میں عرب اور کرد بڑے نسلی گروہ ہیں، مذاہب میں دیکھا جائے تو مسلمان، مسیحی، ایزدی اور کئی دوسرے چھوٹے مذاہب بھی موجود ہیں۔ اسی طرح اگر مسلکی تفریق دیکھی جائے تو یہاں شیعہ، سنی اور سنیوں کے کئی گروہ موجود ہیں، کچھ دہشتگرد گروہ جن میں القاعدہ اور داعش بڑے دہشتگرد گروہ بھی پناہ لیے ہوئے ہیں۔ عراق  کی سیاست کو جاننے والے آگاہ ہیں کہ عراق کے تین بڑے گروہ عرب، کرد اور اہل سنت بنیادی طور پر عراق کی طاقت بھی ہیں اور یہی عراق کی کمزوری بھی ہیں۔ اگر یہ متحد ہو جائیں تو عراق کی طاقت ہیں اور اگر الگ الگ رہیں تو پورا ملک ہی تقسیم رہتا ہے۔

اس حوالے سے اہم بات یہ بھی ہے کہ شیعہ، سنی اور کرد الگ الگ علاقوں میں رہتے ہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ ان کے مشترکہ شہر ہوں، جہاں یہ رہ رہے ہیں بلکہ ان کے صوبے تک الگ الگ ہیں۔ کچھ شہر جیسے بغداد وغیرہ میں کسی حد تک اختلاط آبادی موجود ہے۔ عراق کا نظام چونکہ پارلیمانی ہے اور یہاں پر وزیراعظم کا انتخاب پارلیمنٹ کے ذریعے سے کیا جاتا ہے۔ یہاں شیعہ اکثریت میں ہیں، مگر شیعوں کی ایک جماعت نہیں ہے، جس کی وجہ سے عراقی انتخابات کے نتائج میں ہمیشہ ایک ہینگ پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے، جس کی وجہ سے اتحادی گورنمنٹ بنانا ہوتی ہے۔ ان تینوں گروہوں کے اسرائیل کے متعلق نظریات کو سمجھنا ہوگا، تاکہ موجودہ قرارداد کی اہمیت اور کسی حد تک اس کا پس منظر اور پیش منظر سمجھ میں آسکے۔ کردوں کو ہی دیکھ لیں، کرد اپنی بود و باش میں قبائلی اور سیکولر زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے ہاں مذہب کی بجائے قبائیلیت کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لیے کردوں کی سیاست کا دار و مدار ان کی قبائلی شناخت کا تحفظ اور کردوں کے لیے زیادہ سے زیادہ حقوق کا حصول ہے۔

کچھ عرصہ پہلے جب داعش کا مسئلہ چل رہا تھا تو کرد اور بغداد کی حکومت میں تکریت کو لے کر شدید اختلافات پیدا ہوگئے تھے، کرد اس شہر پر اپنا دعویٰ پیش کرتے تھے اور عراقی حکومت نے حشد الشعبی کے ذریعے جیسے یہ پہلے مرکز کے کنٹرول میں تھا، اس کی یہ حیثیت بحال کر دی تھی۔ کرد فورسز الگ ہیں، ان کی تنخواہوں اور تجارت کا اسٹرکچر الگ ہے، ان کا دار الحکومت اربیل ہے، جو کافی حد تک مرکزی حکومت سے نیم خود مختار علاقہ ہے۔ اس کی وجہ صدام دور میں کردوں پر ہوئے ظالمانہ حملے ہیں، جس کی وجہ سے یہ بفرزون اور نیم خود مختار حیثیت کے حامل ہو کر بین الاقوامی استعماری قوتوں کا اڈا بن گیا ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ انہیں داعش سے جنرل قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی نے بچایا تھا، مگر یہ پھر بھی اسرائیل سے روابط رکھتے ہیں اور اسرائیل یہاں سے عراق اور ایران میں کارروائیاں کرتا ہے، جس کے خفیہ ٹھکانے پر اسلامی جمہوریہ ایران کی فورسز نے کچھ دن پہلے حملہ کیا اور اسے تباہ کر دیا تھا۔ یوں عراق میں اسرائیل موجود ہے اور اس کی موجودگی پرتشدد ہے، جس سے یہ خطے میں عدم استحکام کو ہوا دے رہا ہے۔

عراق کی دوسری بڑی کمیونٹی اہلسنت ہیں، ویسے تو کردوں کی اکثریت بھی اہلسنت کی ہے، مگر وہ اپنی مذہبی کی بجائے قومی شناخت کو ترجیح دیتے ہیں۔ عراقی اہلسنت پر سعودی اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کا بڑا اثر ہے۔ وہ تبدیلیاں جو ان ممالک میں ہوتی ہیں، بڑی تیزی سے یہاں پہنچ جاتی ہیں۔ دبئی، بحرین اور دیگر عرب ملکوں نے یکے بعد دیگرے اسرائیل سے تعلقات قائم کر لیے ہیں، لہذا یہاں کی سیاسی قیادت عراقی اہلسنت کو دباو میں لا سکتی ہے۔ یہ یک حقیقت ہے، جس کا انکار ممکن نہیں ہے۔ یوں ان کی سیاسی لیڈرشپ کو بھی ٹریپ کیا جا سکتا ہے۔ عراق کے اہلسنت قبائل کو حج اور عمرہ کے نام پر ہر سال سعودی عرب کی دعوت دی جاتی ہے، تاکہ ان سے بوقت ضرورت کام لیا جا سکے۔

عرب حکمرانوں نے جب سے اسرائیل سے یاریاں بنانی شروع کی ہیں اور جب سے اسے قبول کرانے پر بڑی بڑی مراعات کا اعلان شروع ہوا ہے، تب سے یہ احتمال موجود ہے کہ جہاں ان کا بس چلے گا، وہاں یہ کوشش ضرور کریں گے۔ عراق کی صورتحال سامنے ہیں کہ کرد پہلے سے ہی اسرائیل سے روابط رکھتے ہیں۔ سعودی عرب نے بھی پس پردہ روابط رکھے ہوئے ہیں، ایسے میں کہیں عراق کی اس سیاسی تقسیم کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم نہ چلائیں۔ عراقی پارلیمنٹ نے  اسی کا راستہ بند کیا ہے، یہ بہت اہم اقدام ہے، جس کی تحسین کی جانی چاہیئے۔ یہ ہمارا ملک پاکستان ہے، جس کے پاسپورٹ پر لکھا ہوا ہے کہ اس پر اسرائیل نہیں جایا جا سکتا۔ ان گئے گزرے حالات میں جب ہر گزرتے دن کے ساتھ جب عرب  فلسطینیوں پر ظلم کرنے والوں کے ساتھ شریک ظلم ہوتے جا رہے ہیں، عراقی پارلیمنٹ سے اسرائیل کے تسلیم کرنے کی کوشش کرنے کو بھی جرم قرار دینا بہت احسن اقدام ہے۔ اس سے جہاں اہل فلسطین کے حوصلے بلند ہوں گے، وہیں دشمن کو بھی اتحاد کا پیغام جائے گا۔


خبر کا کوڈ: 996350

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/996350/اسرائیل-سے-تعلقات-جرم-ہیں

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org