0
Saturday 28 May 2022 00:56

اسرائیل کی طرف دنیائے اسلام کے بڑھتے رجحانات

اسرائیل کی طرف دنیائے اسلام کے بڑھتے رجحانات
تحریر: ایس این حسینی

گذشتہ روز ممبر قومی اسمبلی عبد الاکبر چترالی نے ایوان میں خطاب کرتے ہوئے ایک حقیقت کو پوائنٹ آوٹ کیا ہے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے کچھ اراکین کی جانب سے اسرائیل کے سفر کے حوالے سے مندرجہ ذیل نکات اٹھائے۔
1۔ اسرائیل کا سفر کس کے کہنے پر ہوا۔؟
2۔ جب ہمارا پاسپورٹ اسرائیل کے لئے کارآمد ہی نہیں تو یہ پاکستانی پہنچے کیسے۔؟
3۔ اسرائیل کا سفر ایک ایسے وقت میں کیوں ہوا کہ جب وہاں الجزیرہ کی مسیح فلسطینی صحافی شیرین ابو عاقلہ کو بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔؟ یہ اور ایسے کچھ دیگر نکات اٹھا کر عبد الاکبر چترالی نے حکومت سے وضاحت طلب کی۔ انہی نکات کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کی سیاست خصوصاً ملک کے رواں حالات پر روشنی ڈالتے ہیں۔

اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی صحافی کا قتل کوئی خاص بات نہیں، کیونکہ اسرائیل روزانہ درجنوں ایسے بے گناہ افراد کو دن دیہاڑے جبکہ سینکڑوں افراد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے خفیہ طریقے سے مارنے کا چیمپئن ہے، جبکہ یہاں پر خاص بات اسرائیلی مظالم کو شہہ دینے پر مبنی امت مسلمہ کی مذموم پالیسی ہے۔ اس وقت 60 کے قریب مسلم ممالک میں سے چند ایک کے علاوہ باقی تیزی کے ساتھ اسرائیل کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں۔ جن میں عرب ممالک خصوصاً ترکی صف اول میں شامل ہیں، جبکہ اسرائیل کے ساتھ بائیکاٹ کرنے والے مسلم ممالک میں ایران، عراق، پاکستان اور شام صف اول میں شمار ہو رہے ہیں۔ اب افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے صحافیوں نے اسرائیل کا سفر کس کے کہنے پر کیا؟ ویزہ کیسے حاصل کیا؟ اور ایسے حالات میں جبکہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ دنیائے اسلام کیلئے امید کی ایک کرن یعنی پاکستان نے ایسا اقدام کیوں کیا۔؟

یہ ایسے سوالات ہیں، جن کا صحیح اور مسکت جواب تو ذمہ دار حکام ہی دے سکتے ہیں۔ تاہم بین السطور اس پر اپنا موقف ایک لطیفے سے شروع کرتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایک افغانی نے پاکستان آکر دو چیزیں دیکھیں، ایک امرود اور دوسری فیل مرغ (Turkey)۔ کافی عرصہ بعد جبکہ وہ بوڑھے ہوچکے تھے، افغانستان میں ایک شخص کے ہاتھ کسی طرح کچھ امرود لگے تھے، تو علاقے والے اسے پہچان نہیں پا رہے تھے، بالآخر اس جہاں دیدہ بوڑھے کو بلا کر راز پوچھا گیا تو اس نے دماغ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ اللہ کی کمک شامل حال ہو، تو کہہ دوں کہ اولاً تو یہ فیل مرغ ہے، خدا نخواستہ اگر فیل مرغ نہیں تو اسکے امرود ہونے میں ذرہ برابر بھی شک نہ کرنا۔ چنانچہ اس سانحے کے حوالے سے تو یہ نیا انکشاف ہی کیا جاسکتا ہے کہ گذشتہ حکومت کی چھٹی میں یہ فیکٹر بھی انوالو ہے۔ یعنی پاکستان پر با اثر ملکوں کی جانب سے بھرپور دباو ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لے، ورنہ اس کے اقتصادی حالات سنبھل نہیں پائیں گے۔

چنانچہ موجودہ حکومت نے بغیر کسی سوچ بچار اور بغیر کسی شرم و حیا کے اپنی حکومت کی ابتداء ہی اسی پالیسی سے کرائی۔ تاہم اس حوالے سے موجودہ حکومت اتنی قصوروار بھی نہیں، کیونکہ اس سے قبل بھی خفیہ اور اعلانیہ درجنوں ناکام اقدامات ہوچکے ہیں۔ جو عوامی دباؤ کی وجہ سے بارآور ثابت نہیں ہوسکے ہیں۔ 
اس کے علاوہ یہ بھی امکان ہے کہ چونکہ پی ٹی وی والوں کا تعلق میڈیا سے ہے، ممکن ہے، فلسطین اور اسرائیل کے اصل حالات اور حقائق کا جائزہ لینے اور رپورٹنگ کرنے کے لئے گئے ہوں۔ مگر اس کا امکان بہت کم ہے، کیونکہ انہوں نے خود اور حکومت نے بھی ایسی کوئی وضاحت پیش نہیں کی ہے، جبکہ پہلے آپشن کی تقویت زرداری کے فوری امریکی دورے نیز شہبازوں کے دورہ سعودی عرب نے بھی کی ہے۔ اس کے علاہ ان کی جانب سے ایک ڈانواں ڈول اور غیر مستحکم اور ہفتوں یا زیادہ سے زیادہ کچھ مہینوں کی مہمان حکومت کو تعاون کی یقین دھانی کرانا بھی اس آپشن کی تقویت کیلئے کافی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
خبر کا کوڈ : 996423
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش