QR CodeQR Code

اسرائیل، بے نظیر بھٹو اور بلاول

19 Jun 2022 06:52

اسلام ٹائمز: اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش پر مبنی ایک ٹیلی گرام قائد اعظم کے نام بھجوایا، جسکا جواب قائداعظم نے سرکاری طور پر ان الفاظ میں دیا کہ ''دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کی بجائے جان دیدے گا، مجھے توقع ہے کہ یہودی ایسے شرمناک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہونگے، میری خواہش ہے کہ برطانیہ اور امریکا اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور پھر میں دیکھوں کہ یہودی بیت المقدس پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ عوام کی آرزوئو ں کیخلاف پہلے ہی پانچ لاکھ یہودیوں کو بیت المقدس میں بسایا جا چکا ہے۔ میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی اور ملک نے انہیں اپنے ہاں بسایا ہے؟ اگر تسلط قائم کرنے اور استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ امن قائم ہوگا اور نہ جنگیں ختم ہونگی۔''


اثر خامہ: قاضی عبدالقدیر خاموش

غالباً 1994ء کا سال تھا، محترمہ بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم پاکستان کے منصب جلیلہ پر فائز ہوئی تھیں، ہم ان کے اتحادی تھے۔ میری تحریک پر محترمہ نے دعوت دی اور ہمارے دوست اسعد بیوض تمیمی خطیب، امام اور مدیر مسجد اقصیٰ پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔ ان کے ہمراہ ان کے صاحبزادے اور فلسطینی پارلیمنٹ کے رکن مامون اسعد تمیمی اور ابو عیش امجد تمیمی بھی تھے۔ وزیراعظم پاکستان سے ان کی ملاقات میں اس وقت کے وزیر مذہبی امور اور سیکریٹری مذہبی امور بھی شریک تھے۔ طویل گفتگو کے بعد خطیب اقصیٰ نے وزیراعظم پاکستان سے کہا کہ ''آپ وعدہ کریں کہ اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا''، محترمہ نے ان کی بات غور سے سنی اور جوابی سوال کیا کہ اگر عرب اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو۔؟اس پر اسعد بیوض تمیمی نے فوراً پھر ایک اور سوال داغ دیا کہ کیا عرب نماز چھوڑ دیں تو آپ بھی چھوڑ دیں گی۔؟ عرب روزہ رکھنا چھوڑ دیں تو آپ کا طرز عمل کیا ہوگا۔؟ بے نظیر بھٹو نے فوراً کہا ''امام صاحب میں وعدہ کرتی ہوں کہ اگر کوئی ایسا موقع آیا اور میں حکومت میں ہوئی تو قطعاً تسلیم نہیں کروں گی۔'' ملاقات ختم ہوگئی۔ امام اقصیٰ واپس چلے گئے اور پھر دنیا سے چلے گئے، لیکن محترمہ کا ان سے اور بعد میں ان کے صاحبزادے سے مسلسل رابطہ رہا، یہ رابطہ فلسطین کے ساتھ ان کے ذاتی اور جذباتی تعلق کی ایک کڑی تھا، جسے مامون تمیمی آج بھی محبت سے یاد کرتے ہیں۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم


کس نے سوچا ہوگا کہ جب عرب ممالک حکمرانوں میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی دوڑ لگی ہوگی اور سعودی عرب جیسا عرب دنیا کا قائد بھی یہود نوازی کے اس کھیل میں اپنی عزت، سلامتی اور وقار کو دائو پر لگائے کھڑا ہوگا تو پاکستان میں محترمہ بے نظیر کا جواں سال بیٹا بلاول حکومت کا حصہ ہوگا اور وہ بھی بطور وزیر خارجہ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس دور پرآشوب میں جب امریکہ یا اسرائیل کا نہیں، سعودی عرب اور امارات کا پاکستان پر دبائو ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے، تاکہ ان پر ہونے والی لعن طعن میں کمی آسکے تو کیا بے نظیرکا لاڈلا اپنی عظیم ماں کے فلسطینی مجبور عوام کے ساتھ کئے گئے عہد و پیماں کو نبھاہ سکے گا۔؟ جس طرح اس کی اولولعزم ماں نے اپنے والد کی فلسطینیوں سے محبت کو نبھایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی فلسطینیوں سے محبت اور کمٹمنٹ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے حکم پر پاکستان ایئر فورس نے 1974ء میں عرب اسرائیل جنگ میں حصہ لیا اور اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا ڈالے۔ آثار تو یہی ہیں اور توقع بھی یہی ہے کہ بلاول اپنی ماں اور نانا کی فلسطینیوں سے محبت کو ماند نہیں پڑنے دے گا، بلکہ ایک قدم آگے دکھائی دے گا۔
باپ کا عِلم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پِسر قابلِ میراثِ پدر کیونکر ہو!


معاملہ اب صرف عربوں کی کوتاہ نظری کا نہیں رہا بلکہ ملک کے دگرگوں سیاسی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بار پھر صیہونی لابی پاکستان میں اسرائیلی مفادات کی مہم چلائے ہوئے ہے۔ انسانیت کے ناسور اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ نے تصدیق کی ہے کہ دو ہفتے قبل جنوبی ایشیا سے ایک وفد نے ہماری سرزمین پر مجھ سے ملاقات کی تھی، وفد میں دو پاکستان نژاد امریکی شہری بھی شامل تھے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی اقتصادی فورم میں گفتگو کے دوران اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے بتایا کہ پاکستانی وفد سے ملاقات دو ہفتے قبل ہوئی تھی۔ وفد میں دو ایسے پاکستانی شہری بھی شامل تھے، جو مستقل طور پر امریکا میں مقیم ہیں، لیکن انھیں پاکستانی ہونے پر فخر ہے۔ صیہونی صدر کا کہنا تھا کہ پاکستانی وفد سے ملاقات بے حد خوش آئند رہی، مجھے خوشگوار حیرت بھی ہوئی، کیونکہ اس سے قبل کبھی پاکستانی وفد سے اسرائیل میں ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ یہ وفد امریکی سازش کا کوئی حصہ دکھائی دیتا ہیے۔ لیکن خوشی کی بات یہ کہ پاکستانی قوم ابھی بیدار ہے، ان پاکستان نژاد امریکی شہریوں کے مشکوک دورے کا قومی سطح پر پوری طرح سے نوٹس لیا گیا، صحافی احمد قریشی کو پی ٹی وی سے فارغ کیا گیا اور سینیٹ اجلاس میں اس کی شہریت ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی کیڑا اگر کہیں تھا تو قومی ردعمل نے اس کا شافعی علاج کر دیا ہے اور دوسرے کہ اسی بہانے ایک ایسے وقت میں جب سعودی عرب یہودی گود میں سر رکھنے کو پوری طرح سے تیار ہے، ریاست پاکستان کو ایک موقع مل گیا کہ وہ ناجائز ریاست کو تسلیم نہ کرنے کی پالیسی کا اعادہ کرسکے۔
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی


 بات سمجھنے کی اور کرنے کی ہے کہ ہمارے قائد بانی پاکستان نے 1938ء میں فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کا آغاز کیا تھا۔ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔اسرائیل چاہتا ہے کہ پاکستان جو کہ عالم اسلام کے اسرائیل سے تعلقات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ بلاچوں و چراں اسے تسلیم کرلے، کیونکہ 57 اسلامی ممالک میں سے 36 کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تو باقی ماندہ اسلامی ممالک بھی تسلیم کر لیں گے۔ لیکن پاکستان کی واضح اور دوٹوک پالیسی ہے کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے پاک اسرائیل تعلقات کے بارے میں پالیسی اپنی زندگی میں ہی پیش کردی تھی۔ قائد اعظم نے 1938ء میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پہلی مرتبہ یکجہتی فلسطین اور فلسطین فنڈ کا آغاز کیا تھا۔ 1947ء میں جب قائد اعظم پاکستان کے گورنر جنرل تھے تو اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش پر مبنی ایک ٹیلی گرام قائد اعظم کے نام بھجوایا، جس کا جواب قائداعظم نے سرکاری طور پر ان الفاظ میں دیا کہ ''دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کی بجائے جان دے دے گا، مجھے توقع ہے کہ یہودی ایسے شرمناک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے، میری خواہش ہے کہ برطانیہ اور امریکا اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور پھر میں دیکھوں کہ یہودی بیت المقدس پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ عوام کی آرزوئو ں کے خلاف پہلے ہی پانچ لاکھ یہودیوں کو بیت المقدس میں بسایا جا چکا ہے۔ میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی اور ملک نے انہیں اپنے ہاں بسایا ہے؟ اگر تسلط قائم کرنے اور استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ امن قائم ہوگا اور نہ جنگیں ختم ہوں گی۔''

قائداعظم نے نہ صرف اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف بیان دیئے بلکہ اسرائیل یوروشلم سینٹر فار پیسں نے پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلق پر ایک مفصل تحقیق شائع کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ مئی 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد جب عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی تو امریکی حکام نے اسرائیل کو بتایا کہ پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح نے چیکو سلواکیہ سے اڑھائی لاکھ بندوقیں خرید کر لڑنے والے مجاہدین کو دیں اور اٹلی سے تین فوجی طیارے خرید کر مصر کو دیئے، تاکہ وہ اسرائیل کے خلاف لڑ سکیں۔ یہ تھا قائد اعظم کا اسرائیل کے خلاف طرز عمل۔ انہوں نے ہمیشہ اسرائیل کو مغرب کی ناجائز اولاد کہا۔ پاکستان کی کوئی بھی حکومت قائد اعظم کی اس پالیسی سے سر مو انحراف کرنے کی جرات نہیں کرسکتی، اگر سارا عالم عرب اور ساری دنیا بھی اس ناجائز یہودی ریاست کو تسلیم کرلے، تب بھی پاکستان اسے تسلیم نہیں کرے گا، کیونکہ بیت المقدس کوئی علاقائی یا عرب اسرائیل تنازع نہیں، یہ اسلام اور صیہونیت کا تنازع ہے، جس طرح ہم نماز روزے سے منحرف نہیں ہوسکتے، اسی طرح بیت المقدس سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتے۔ یہ پوائنٹ بے نظیر بھٹو کو تو امام و خطیب بیت المقدس نے سمجھا دیا تھا، یقین ہے کہ بلاول بھی محترمہ بے نظیر بھٹو کے ویژن اور پالیسی سے انحراف نہیں کریں گے۔ ان شاء اللہ
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذت نمود میں ہے


خبر کا کوڈ: 999978

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/999978/اسرائیل-بے-نظیر-بھٹو-اور-بلاول

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org