0
Tuesday 18 Aug 2009 17:04

پاک امریکہ تعلقات اور وقت کا تقاضہ

پاک امریکہ تعلقات اور وقت کا تقاضہ
تحریر: محمد احمد ترازی
آج کے دور میں دوستی، وفا اور بے وفائی کے معنی و مفہوم کو کسی لغت کے سہارے کے بغیر پاکستان کے حوالے سے امریکی کردار کو سامنے رکھ کر باآسانی نہ صرف سمجھا جاسکتا ہے بلکہ اس حوالے سے امریکی کردار و عمل کو اس کی عملی تفسیر اور مثال کے طور پر پیش بھی کیا جا سکتا ہے، گو کہ امریکہ نے پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ اپنے دوست ہونے کا دم بھرا اور ہمارے حکمران بھی امریکی دوستی کے دعوؤں میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور پاکستان دوستی کے تانے بانے ہمیشہ ہی امریکی ترجیحات اور مفادات کے گرد گھومتے رہے۔ جب امریکہ کا مطلب اور مفاد ہوا، اس نے پاکستان کو اپنی دھونس، دھاندلی، بدمعاشی اور دوستی کا جھانسہ دے کر استعمال کیا اور جب اس کا کام نکل گیا، امریکہ نے کسی طوطا چشم کی طرح پاکستان کی طرف سے آنکھیں پھیر لیں۔ لیکن آئینہ کی طرح اس شفاف اور واضح حقیقت کے باوجود ہمارے حکمران قومی مفادات اور ترجحات کو پس پشت ڈال کر ہمیشہ ہی امریکی کاسہ لیسی میں آگے آگے رہے اور انہوں نے اپنے آپ کو امریکی دوست باالفاظ دیگر امریکی غلام ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا جس کا نتیجہ تباہی و بربادی کی صورت میں آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ ایک معروف سیاسی تجزیہ نگار کے مطابق پاک امریکہ تعلقات کے موجودہ دور کا آغاز 1950ء میں پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ سے ہوا جو مارچ 2000ء میں سابق صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت پر ختم ہوا۔ امریکہ نے ابتدائی چار سال 1950ء سے 1954ء تک پوری کوشش کی کی کہ وہ پاکستان، بھارت اور افغانستان کے حوالے سے یکساں پالیسی اختیار کرے۔ اس دوران امریکہ نے یہ بھی کوشش کی کہ یہ تینوں ممالک مل کر
دوسری جنگ عظیم کے بعد بدلے ہوئے حالات میں امریکہ کا ساتھ دیں۔ امریکہ کی بے پناہ خواہش اور کوشش تھی کہ اشتراکی دنیا کے گرد جو حصار امریکہ بنانا چاہتا ہے بھارت اس میں امریکہ کا ساتھ دے لیکن پنڈت نہرو نے کسی صورت بھی اس نظام کا حصہ بننے کیلئے آمادگی ظاہر نہیں کی بلکہ اس نے انڈونیشیا اور چین کے ساتھ مل کر غیر جانب دار تحریک کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جو کہ خطے میں امریکی پالیسی کے خلاف تھی۔ اس کے برخلاف پاکستان اپنی حکمت عملی کے تحت جنوبی ایشیاء سے زیادہ اپنے آپ کو وسطی ایشیاء اور شرق اوسط کا حصہ سمجھتا تھا اور انہی ممالک کے درمیان اپنے مستقبل کا کردار دیکھ رہا تھا۔ چنانچہ ان حالات میں 1954ء میں پاکستان امریکہ کے دفاعی معاہدوں سیٹو اور سینٹو، بغداد پیکٹ کا رکن اور سرد جنگ میں امریکہ کا سب سے قریبی حلیف بن گیا جس کی وجہ سے امریکی جمہوریت کو جنرل ایوب خان کی آمریت میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی لیکن 1962ء میں امریکہ پھر بھارت کی طرف لوٹ گیا۔ اس نے چین سے نام نہاد مقابلے کیلئے بھارت کی دو ڈویژن فوج کو جدید جنگی ٹیکنالوجی سے لیس کیا اور بھارت کو نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے نوازا اور پاکستان کو زبردستی کشمیر سے دستبراد کرانے کی کوشش کی۔ پھر 1965ء میں بھارت نے تین سالہ امریکی فوجی اور معاشی امداد سے حاصل ہونے والی قوت کے زعم میں پاکستان پر رات کے اندھیرے میں حملہ کیا تو امریکہ نے اپنے حلیف پاکستان کا ساتھ دینے کی بجائے پاکستان کی فوجی امداد روک لی جبکہ بھارت کی فوجی سپلائی کا انحصار روس پر تھا۔ امریکی وزیر خارجہ کسنجر اور صدر نکسن کیلئے چین تک کیلئے رسائی کی خدمات انجام دینے والے پاکستان سے امریکہ نے ایک بار پھر 1971ء کے نازک لمحات میں جب بھارت نے دہشت گردی اور
مکتی باہنی کی کھلی تائید کی اور پھر نومبر 1971ء میں مشرقی پاکستان پر فوج کشی کی اسی طرح بے وفائی کی جس طرح 1965ء میں کی تھی۔ یہ امریکی طرز عمل دراصل اس امریکی پالیسی جو امریکی دستاویزات کے مطابق "گو کہ پاکستان سے ہماری دوستی اور معاہدات ہیں مگر ہمارے مفادات کا تقاضہ ہے کہ ہم بھارت کو پاکستان پر ترجیح دیں" کا عملی عکاس تھا۔ پاک امریکہ تعلقات کا سب سے خطرناک اور امریکہ مخالف دور اس وقت شروع ہوا جب امریکہ نے ہماری تمام تر قربانیوں اور خدمات کو پس پشت ڈالتے ہوئے نیوکلیئر پالیسی کے سلسلے میں کھلی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس وقت کے سربراہ مملکت ذوالفقار علی بھٹو کو عبرت ناک مثال Horrible Example بنانے کی نہ صرف دھمکی دی بلکہ امریکی صدر جمی کارٹر نے معاشی پابندیوں کا نشانہ بنانے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا۔ یہ تو افغانستان پر روس کا حملہ اور اشتراکیت کے خلاف افغان مجاہدین اور پاکستان کا ڈٹ جانا تھا جس کی وجہ سے امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی دوستی کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن جیسے ہی افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے امکانات پیدا ہوئے امریکہ نے پاکستان سے اگلی ضرورت سانحہ نائن الیون تک ایک بار پھر اپنی نظریں پھیر لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے اس پورے دور میں پاکستان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ تیسری دنیا اور عالم اسلام کے ساتھ جو دوستی کا رشتہ قائم کیا وہ خالص امریکی مفادات کی بنیاد پر تھا۔ گو کہ اس پورے عرصے میں آزاد دنیا، جمہوریت، جمہوری حقوق اور بنیادی انسانی حقوق کا تذکرہ رہا اور نظریاتی و اخلاقی اصولوں اور عالمی اقدار کی بات بڑے بلند بانگ انداز میں کی گئی لیکن فی الحقیقت امریکی پالیسی کا ایک ہی مرکزی اصول یعنی امریکہ کا اپنا مفاد تھا۔ لہٰذا
ان تاریخی حقائق کو سامنے رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ امریکہ کی دوستی نہایت ناقابل اعتماد اور ناقابل بھروسہ ہے اور کام نکل جانے کے بعد اپنے دوستوں سے آنکھیں پھیر لینا امریکہ کا معمول ہے۔ خود امریکی پالیسی ساز اس میکاولیانہ سیاست کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "یہی ان کی حقیقی پالیسی ہے، اگر اسے دوسرے نہیں سمجھتے تو یہ ان کی کور چشمی ہے، امریکہ کا دوغلا پن نہیں"۔ پاک امریکہ تعلقات کی پچاس سالہ داستان انہی کہہ مکرنیوں کی داستان ہے اور اس اصول کا منہ بولتا ثبوت ہے جسے امریکی جمہوریت کے بانی جارج واشنگٹن نے بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ایک چھوٹی اور کمزور ریاست کا ایک بڑی اور طاقتور ریاست سے تعلق اول الذکر کیلئے آخر الذکر کا لاحقہ ہونا لازمی کر دیتا ہے، کسی قوم کا غیر متعلق لوگوں سے ہمدردی کی توقع رکھنا حماقت ہے، وہ اس حوالے سے اگر کچھ حاصل کرے تو اسے اپنی آزادی کے ایک حصے سے اس کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے"۔ امریکی بابائے آزادی کے اس قول کی روشنی میں آج ہم امریکی تعلق اور دوستی کی وہ قیمت ادا کر رہے ہیں جو ہم نے کبھی سوچی بھی نہیں تھی۔ ظاہر ہے ایسی حالت میں امریکہ کی دوستی کا لازمی نتیجہ سیاسی، معاشی اور خود عسکری میدان میں محتاجی کی شکل میں ہی نکلنا تھا۔ معاشی میدان میں ہم بیرونی قرضوں کے جال میں پھنستے چلے گئے۔ آج یہ عالم ہے کہ قرضوں کی غلامی نے ہماری آزادی کو پابند سلاسل کر دیا ہے اور ہماری پوری معیشت ملک کی حقیقی ضروریات اور قوم کی ترجیحات کے بجائے بیرونی ساہوکاروں کے چشم ابرو کے اشارے کی تعمیل پر لگی ہوئی ہے۔ دیکھا جائے تو بحیثیت مجموعی یہ دوستی ہمیں ہر میدان میں مہنگی پڑی ہے۔ آج امریکی ذمہ دار کہتے ہیں
کہ امریکہ نے دو بار پاکستان سے بے وفائی کی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے ہر بار پاکستان سے بے وفائی کی۔ امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا کہنا ہے کہ نوے کی دہائی میں جنوبی ایشیا میں امریکی توجہ کم ہونے کی وجہ سے پاکستانیوں کا امریکہ سے اعتماد کم ہوا، بہت جلد پاکستانیوں کا امریکہ پر اعتماد قائم ہو جائے گا اور امریکہ پاکستان کا قابل بھروسہ شراکت دار رہے گا۔ رابرٹ گیٹس کا بیان سابقہ امریکی طرز عمل، رویئے اور تاریخی حقائق کے یکسر خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام بخوبی سمجھتے ہیں کہ امریکہ کے قول وفعل میں کھلا تضاد ہے۔ وہ دوستی کا دم تو پاکستان کا بھرتا ہے اور پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بھی قرار دیتا ہے مگر اس کی نوازشات اور عنایتوں کا رخ پاکستان کے بجائے اس کے دیرینہ دشمن بھارت کی طرف ہے جبکہ پاکستان امریکہ کی خوشنودی کیلئے قبائلی علاقوں میں آپریشن جاری رکھ کر اپنے عسکری جوانوں کی قربانی دے رہا ہے۔ لیکن اتنی بھاری جانی و مالی قربانیوں کا صلہ یہ ہے کہ باوجود حکومت اور پاکستانی عوام کے شدید احتجاج کے امریکہ نے ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ جب تک امریکہ وہ پاکستانی جن کو سابق صدر مشرف نے ڈالروں کے عوض فروخت کر دیا تھا ان کا حساب نہیں دیتا، ڈرون حملے بند نہیں کرتا اور بھارت نوازی کی پالیسی ترک نہیں کرتا تب تک امریکہ پر پاکستان اور پاکستانی عوام کا اعتماد کسی طور بھی بحال نہیں ہو سکتا۔ اس وقت صورحال یہ ہے کہ امریکہ اپنی افغانستان میں ہاری جانے والی جنگ پاکستان کے گلے ڈالنے کے درپے ہے اور پاکستان کے آرمی چیف سے اپنے تعلقات کا حوالہ دیکر اپنا دباؤ بڑھانا چاہتا ہے۔ اس پس منظر میں یہ نقشہ نئی دوستیوں اور پرانے تعلقات پر نظر ثانی
کا متقاضی ہے کیونکہ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق "عملی سیاست میں کوئی دوستی مستقل نہیں ہوتی، مستقل چیز تو صرف مفاد کا حصول ہوتا ہے اور مفادات کی شکل اور نوعیت صحرا کی ریت کی حرکت کی طرح بدلتی رہتی ہے، اسی روشنی میں دوستوں اور مخالفین کی درجہ بندی ہوتی ہے"۔ ہمیں امریکہ کی نئی ترجیحات اور نئی راہوں کو سمجھنے اور ان کی روشنی میں اپنے مقاصد اور مفادات کے تحفظ کی فکر کرنی چاہیے۔ موجودہ حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ اس وقت ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ پوری دیانت، حقیقت پسندی اور ملک و ملت سے وفاداری کے ساتھ امریکہ سے اپنے تعلقات، ماضی، حال اور مستقبل کا از سر نو جائزہ لیں، خوابوں اور تمناؤں کی دنیا سے باہر نکلیں اور نئے حالات کی روشنی میں روشن زمینی حقائق کے مطابق اپنے نظریاتی، سیاسی، معاشی اور قومی مفادات کے تحفظ اور حصول کیلئے جان دار، واضح اور دیرپا حکمت عملی وضع کریں اور دوستوں میں "سب سے قریبی دوست" (Friend of the Friend) اور "سب سے قریبی ساتھی" (Most Allied Ally) کی دوستی اور قربت کی حقیقت کو سمجھیں، ہوا کے بدلتے ہوئے رخ کو پہنچانیں، خوش فہمیوں کی بھول بھلیوں اور مجہول و مبہم خوابوں کی دنیا سے باہر نکلیں۔ اپنی پالیسی اور اہداف کا تعین کریں اور مومنانہ بصیرت "مومن کبھی ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا" کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے حصول کیلئے سرگرم عمل ہو جائیں کیونکہ امریکہ سے دوستی کے پچاس سالہ دور کا بے لاگ جائزہ اور امریکہ کی نئی ترجیحات اور دوستی کے نئے سفر کی روشنی میں اپنے مقام اور اپنے اہداف کا تعین ہی ہماری اولین ذمہ داری اور ضرورت ہے اور اسی پر ہماری آزادی، سلامتی اور باعزت قومی زندگی کا دارومدار ہے۔
خبر کا کوڈ : 10021
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش