0
Friday 21 Aug 2009 10:53

مسجد اقصیٰ کی آتش زدگی کے 40 سال

مسجد اقصیٰ کی آتش زدگی کے 40 سال
آج 21 اگست کو صہیونیوں کے ایک گروپ کی جانب سے مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کے سانحے کو 40 برس گزر گئے ہیں۔ یہ 40 برس عالم عرب اور امت مسلمہ کے حکمرانوں کی بے ضمیری اور پسپائی کے 40 برس بن کر سامنے آئے ہیں جبکہ اس عرصے میں فلسطینی عوام اور امت مسلمہ نے جدوجہد، مزاحمت اور قربانی کی لازوال داستان رقم کی ہے۔ اسرائیل کی حکومت اور مسئلہ فلسطین جہاں ایک طرف ایک قوم، فلسطینی قوم کا مسئلہ ہے، مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا کے علاقائی امن کو خطرے میں ڈالنے والا مسئلہ بھی ہے۔ اس کے ساتھ یہ امت مسلمہ اور دین کا مسئلہ ہے اس لیے کہ اس کے ساتھ مسلمانوں کے قبلہ اول اور اسراء و معراج کی سرزمین فلسطین اور مسجد اقصیٰ سے بھی تعلق ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ مسئلہ محض سیاسی، جغرافیائی یا عالمی سیاسی کشمکش کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ دین و ایمان کا مسئلہ ہے۔ اسی وجہ سے مسئلہ فلسطین کی جدوجہد کے لیے امت کو دینی بنیاد فراہم ہوتی ہے۔ فلسطین اور مسجد اقصیٰ کو صلیبی جنگ سے لے کر امریکی "وار آن ٹیرر" تک مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس مسئلے میں یہود و نصاریٰ کا اتحاد پہلی جنگ عظیم سے جاری ہے جب اس وقت کی سپر پاور برطانیہ نے جمہوری تحریک کو گود لیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد پوری دنیا سے یہودیوں کو فلسطین لا کر آباد کیا اور ایک نسل پرست ناجائز ریاست تشکیل دی اور آج عالمی قیادت کی تبدیلی کے بعد امریکا اسرائیل کی سرپرستی کر رہا ہے اور اس کی عالمی پالیسی کا مرکزی نکتہ اسرائیل کا تحفظ ہے۔ ورنہ فی نفسہ اسرائیل میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ پر اپنا کنٹرول قائم کر سکے۔ اسرائیل کے تمام مظالم کی سرپرستی امریکا اور یورپ کر رہے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی جارج میچل نے دورہ اسرائیل کے دوران صاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ امریکا کی وفاداری واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان تناﺅ کے باوجود امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔ اسی پالیسی کا نتیجہ قبلہ اول اور سرزمین انبیاء فلسطین اور القدس پر نصاریٰ کی سرپرستی میں صہیونی یہودیوں کا قبضہ ہے۔ اس عرصے میں مسلمان حکمران مسلسل پسپائی اختیار کرتے جا رہے ہیں اور مسجد اقصیٰ اور القدس کے حوالے سے اپنی دینی ذمہ داری ادا کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ کمزوری اور پسپائی نے مسلمانوں کی ذلت و رسوائی میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ صرف عوام مزاحمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا بس چند اشیاء تک بائیکاٹ سے زیادہ نہیں پہنچتا حالانکہ عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ القدس پر یہودیوں کا قبضہ عالمی نظام کے ڈیزائن کا حصہ ہے۔ عظیم ترین اسرائیل کی ریاست میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔ امریکی "وار آن ٹیرر" کا بھی اصل مقصد اسرائیل کا تحفظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد سابق امریکی صدر بش نے "کروسیڈ" کا لفظ استعمال کیا تھا۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے سے لے کر افغانستان اور عراق پر امریکی فوجی قبضے اور اب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں سفارت خانے کو فوجی چھاﺅنی میں تبدیل کرنے کا مقصد بھی یہی ہے۔ اس عرصے میں امت مسلمہ اور اس کے حکمرانوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ امریکا اور اسرائیل تاریخ کے سب سے بدترین ظالم ثابت ہو رہے ہیں۔ فلسطینی عوام ایک سو سال سے برطانیہ اور امریکا کی سرپرستی میں اسرائیل کے مظالم کا شکار ہیں۔ ابھی تازہ ترین غزہ کا قتل عام ان کے سامنے ہے جبکہ دوسال سے محاصرہ جاری ہے۔ فلسطینیوں کی مزاحمت نے مسلم ممالک کی قوت کو بڑھایا ہے لیکن وہ القدس کا مسئلہ اٹھانے کے بجائے محض مغربی کنارے میں یہودی آبادکاری پر اعتراض تک محدود ہو گئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 10188
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش