0
Thursday 29 Sep 2011 17:59

اسلامی بیداری اور استعماری سازشیں، ایک پس منظر

اسلامی بیداری اور استعماری سازشیں، ایک پس منظر
تحریر:ثاقب اکبر
بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں عالم اسلام میں چند ایسی بڑی شخصیات نے ظہور کیا کہ جنھوں نے خواب غفلت میں پڑے مسلمانوں کو بیداری کا پیغام دیا۔ انھوں نے مسلمانوں کو مذہبی اور سیاسی وحدت کی ضرورت کی طرف متوجہ کیا۔ ان میں سے اہل قلم اور علماء نے ایسی کتب لکھیں جنھوں نے مسلمانوں میں بیداری کی ایک لہر دوڑا دی۔ سید جمال الدین اسد آبادی اور علامہ اقبال کا نام اس سلسلے میں خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ سید جمال الدین کا پان اسلامزم کا نظریہ اور علامہ اقبال کی انقلابی شاعری نے پورے عالم اسلام کو متاثر کیا۔ مصر اور ایران سے ایسے عظیم مسلمان قائدین اور علماء اٹھے جنھوں نے مذہبی ہم آہنگی کے لیے نہایت موثر اور مثبت کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے آیة اللہ سید بروجردی اور شیخ الازہر شیخ محمود شلتوت کی خدمات لائق تحسین ہیں۔ ایسے قائدین مشرق بعید اور افریقہ میں بھی اٹھے۔ ان قائدین اور راہنماﺅں کی مساعی سے مغربی استعمار کے سیاسی اور فوجی چنگل میں پھنسے ہوئے مسلمانوں نے آزادی کی تحریکیں برپا کیں۔ قربانیوں اور استقامت کے نتیجے میں بہت سے مسلمان ممالک آزاد ہوئے۔
اگرچہ بہت سے مسلمان اور غیر مسلمان ملک بظاہر بلا واسطہ استعماری چنگل سے آزاد ہو گئے لیکن ان قوتوں نے انھیں نئی طرح کی غلامی کی زنجیریں پہنانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نئی طرح کو جدید کالونیت (Neo Colonialism) کہتے ہیں۔ اس کے مطابق تیسری دنیا کے ممالک کو ظاہراً آزاد رکھ کر اُن پر ایسے حاکموں کو مسلط کرنا تھا جو اُن استعماری طاقتوں کے ایجنٹ کا کردار ادا کر سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غلامی کی یہ صورت پہلی سے بھی زیادہ بھیانک اور پرفریب تھی۔ ان طاقتوں نے ان ایجنٹوں کے ذریعے تیسری دنیا کے عوام کا لہو پینا شروع کیا۔ انھیں اقتصادی اور فوجی زنجیروں میں جکڑنا شروع کر دیا۔ 
عالمی سطح پر ایسے ادارے اور قوانین بنائے گئے جو ان استعماری قوتوں کی گرفت کو مضبوط سے مضبوط رکھ سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دنیا کو یہ بھی باور کروایا جانے لگا کہ دنیا کی غالب تہذیب مغربی تہذیب ہے جو مادی تصور کائنات پر مبنی ہے۔ مغربی سرمایہ داری نظام کے مقابلے میں پہلا بھرپور ردعمل اشتراکیت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اشتراکیت نے آدھی دنیا کو اپنے دام فریب میں جکڑ لیا۔ یہ نظریہ بظاہر غریب پرور تھا لیکن یہ بھی مادی تصور کائنات پر مبنی تھا۔ سرمایہ داری نظام کا سرغنہ امریکہ تھا جبکہ اشتراکیت کا سردار سوویت یونین تھا۔ دونوں نے سرمائے اور فوجی طاقت سے اپنا حلقہ اثر بڑھانا شروع کیا۔ دنیا یہ سمجھنے لگی کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی سرپرستی قبول کیے بغیر چارہ نہیں۔ اس دو قطبی دنیا کا خدا کوئی نہ تھا۔ دونوں نے دین کو معاشرتی قوت کی حیثیت سے بے دخل کر دیا۔
جدید کالونیت اور مادیت کے اس چنگل سے نکلنے کے لیے بہت سے راہنماﺅں نے جدوجہد کی، سیاسی طور پر غیر جانبدار تحریک استعماری گرفت سے آزاد ہونے کی ایک اہم کوشش قرار دی جا سکتی ہے۔ عالم اسلام میں بھی بہت سے راہنما سامنے آئے، لیکن بیسویں صدی کے آخری رُبع میں امام خمینی رہ کی قیادت میں برپا ہونے والے انقلاب نے جرات مندی کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی نے پسے ہوئے محروم انسانوں کو امیداور ہمت کا پیغام دیا۔ اس انقلاب نے ثابت کر دیا کہ اگر کسی ملک کے عوام اٹھ کھڑے ہوں تو نیوکالونیلزم کے بٹھائے ہوئے مہروں اور استعماری گماشتوں سے گلو خلاصی حاصل کی جاسکتی ہے۔ 
امام خمینی رہ کے انقلاب نے مادی تصور کائنات کو بھی شکست فاش دی، یہ انقلاب اللہ پر ایمان رکھنے والوں اور خدا پرستوں کا انقلاب تھا۔ اس کے اثرات ویسے تو ساری دنیا پر مرتب ہوئے، لیکن عالم اسلام پر اس کے اثرات بہت نمایاں رہے۔ اس انقلاب کو ابھی چند ہی برس گزرے تھے کہ سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا اور دنیا یک قطبی ہو گئی۔ امریکہ نے ”اناولا غیری“ کا رویہ اختیار کر لیا۔ امریکہ اور مغربی تہذیب اور سرمایہ دارانہ نظام کے دیگر وڈیروں نے فیصلہ کیا کہ مسلمانوں کو انقلاب کا راستہ اختیار کرنے سے روکا جائے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سب سے زیادہ ضروری یہی سمجھا کہ ایران کو سر جھکانے پرمجبور کر دیا جائے، لیکن اپنی تمام تر کوششوں اور حیلوں کے باوجود وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
 امام خمینی رہ کی خارجہ پالیسی کی بنیاد لاشرقیہ ولا غربیہ کے نظریے پر تھی۔ انھوں نے عالم اسلام اور خطے کے سب سے اہم مسئلے یعنی مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے ایک نئی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کا نظریہ تھا کہ اسرائیل ایک غیر قانونی قابض اور غاصب ریاست ہے، جسے عالمی استعمار نے علاقے کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے قائم کیا ہے اور وہی اس کی بقا اپنے ذمے لیے ہوئے ہے۔ امام خمینی رہ نے اسرائیل کو ایک خطے میں سرطانی پھوڑا قرار دیا، جس کا علاج ضروری ہے۔ ان کی کوششوں نے فلسطین کی تحریک آزادی میں ایک نئی روح پھونک دی۔ دیگر اسلامی سرزمینوں میں بھی بیداری کی تحریک نے سر اٹھانا شروع کیا۔ پہلے سے موجود تحریکوں میں نیا اعتماد پیدا ہو گیا۔ الجزائر، ترکی، عراق، لبنان، پاکستان مقبوضہ کشمیر وغیرہ اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ 
دوسری طرف اس بیداری کا راستہ روکنے کے لیے استعماری طاقتوں نے طرح طرح کی تدابیر اختیار کیں۔ ان میں سے آٹھ سالہ ایران، عراق جنگ ان کی پہلی بڑی تدبیر تھی۔ 9/11 کے واقعے کو بہانہ بنا کر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے نام پر عالم اسلام کے مختلف ملکوں پر فوجی جارحیت اُن کی دوسری بڑی تدبیر تھی، لیکن دوسری طرف مسلمانوں کے اندر بیداری کی تحریک بھی آگے بڑھتی رہی۔ 2006ء میں اسرائیل کے مقابلے میں ایک چھوٹے سے مسلمان گروہ حزب اللہ کی کامیابی نے مسلمانوں کو پھر سے ایک نئی ہمت اور ولولے سے سرشار کر دیا۔ اس کے اثرات خاص طور پر عرب دنیا میں بہت زیادہ ہوئے۔ 2011ء کے آغاز میں تیونس سے شروع ہونے والی عرب اسلامی دنیا کی تحریک کو سمجھنے کے لیے اس کا یہ پس منظر جاننا نہایت ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 102469
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش